You are currently viewing قطر میں ورلڈ کپ فٹ بال کا آغاز

قطر میں ورلڈ کپ فٹ بال کا آغاز

فٹ بال کی دیوانگی پوری دنیا میں پائی جاتی ہے۔ کیا انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ، ویلز، امریکہ، انڈیا، پاکستان،عرب ممالک یا نیپال ہر جگہ فٹ بال کھیلنے والے اور اس کے شائقین پائے جاتے ہیں۔اگر میں یہ کہوں کہ فٹ بال دنیا کا واحد ایسا کھیل ہے جو ہر عام و خاص کو مقبول ترین گیم ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔

 اب تو یورپ اور دیگر ممالک میں فٹ بال کی دیوانگی اور دلچسپی نے اس کھیل کو اتنا مالدار بنا دیا ہے کہ ہم اور آپ سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔ انگلینڈ کے پریمئر لیگ کے کلب تو اربوں روپے کی بات کرتے ہیں اور ایک کھلاڑی کو پورے سیزن کھیلنے کے لئے کئی کروڑ ادا کئے جاتے ہیں۔ تاہم اب تو فٹ بال کی مقبولیت اور اسپانسر شپ نے اس کھیل کو امیر ترین کھیل بنا دیا ہے۔ لیکن اس کھیل کو پسند کرنے والوں کی اب بھی بڑی تعداد عام آدمی کی ہے جو اپنے دن بھر کی مزدوری کے بعد فٹ دیکھنا یا اپنی ٹیم کی حمایت کرنا اپنا دھرم سمجھتا ہے۔

میں  بھی کلکتہ میں فٹ بال دیوانگی کی حد تک کھیلتا رہا۔ صبح مقامی کلب میں پریکٹس کرتا اور دن بھر گھر والوں کی ڈانٹ کان بند کئے سنتا رہتا۔اس کے علاوہ بڑے بزرگوں سے اکثر یہ طعنے سننے کو ملتے تھے کہ، ’پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب۔ کھیلوگے کودوگے بنو گے خراب‘۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فٹ بال کھیلنے اور ایک بڑے کھلاڑی بننے کی تمنا اور ساری محنت کو بالائے طاق رکھ کر پڑھنے لکھنے میں وقت صرف کرنے لگا۔لیکن وقت نے اس بات کو غلط ثابت کردیا اور اب تو کھیل کود میں اس قدر پیسے ملنے لگے کہ یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ہر ماں باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا یا بیٹی ایک اچھا اسپورٹس پرسن بن جائے۔

میں تو آج بھی اپنے محبوب فٹ بال کلب محمڈن اسپورٹنگ کلکتہ کا عاشق ہوں۔گاہے بگاہے سوشل میڈیا کے ذریعہ میچ دیکھ لیتا ہوں یا خبروں سے معلومات حاصل کر لیتا ہوں۔ اسکول کے دنوں میں محمڈن اسپورٹنگ کلب کا میچ دیکھنا اور اس کے کالے سفید جھنڈے کو گھر کی چھت پر لہرانا شان سمجھتا تھا۔سو سال پرانی محمڈن اسپورٹنگ مسلمانوں کی ایک باوقار اور قومی فٹ بال ٹیم تھی۔ جس کا ایسٹ بنگال اور موہن بگان سے مقابلہ ہونا، ہماری عزت کا سوال ہوتا تھا۔شاید اس اب یہ قومی فٹ بال ٹیم بہتوں کے دلوں سے اتر چکی ہے یا لوگوں نے اسے بھلا دیا ہے جو کہ ایک سانحہ ہے۔

چار سال کے انتظار کے بعد ورلڈ کپ واپس آگیا ہے اور پوری دنیا میں فٹ بال کو جنون شروع ہوچکا ہے۔ اگر آپ فٹ بال کے پرستار نہیں ہیں لیکن آپ اس کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو آپ کو یہ جاننا کی ضرورت ہے یہ سارے کھیلوں کا سب سے بڑا ایونٹ ہے۔ جس میں دنیا بھر سے بتیس ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں اور لاکھوں شائقین روازانہ میچ دیکھ رہے ہیں۔ یہ بھی اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ دس لاکھ سے زیادہ افراد اپنے آبائی ممالک سے ذاتی طور پر کھیل دیکھنے کے لیے سفر کر رہے ہیں۔ ورلڈ کپ فٹ بال ایک گروپ مرحلے کے ساتھ شروع ہوا ہے۔ جہاں چار ٹیموں کو ایک گروپ میں رکھا گیا ہے اور فائنل میں جانے کے لیے کافی پوائنٹس حاصل کرنے کے لئے دو ہفتے گزارنے ہوں گے۔اس کے بعد ناک آؤٹ مرحلہ شروع ہوگا جہاں ایک ٹیم کو آگے جانے کے لئے میچ جیتنا لازمی ہوگا۔

اس بار ورلڈ کپ فٹ بال قطر میں ہورہا ہے۔ جہاں کافی گرمی پڑ رہی ہے۔عام طور پر ورلڈ کپ شمالی نصف کرہ کے موسم گرما میں منعقد ہوتا ہے۔ لیکن قطر میں ان دنوں میں گرمی کافی پڑتی ہے اور درجہ حرارت جون اور جولائی میں 50Cتک پہنچ جاتا ہے۔ جس سے یورپی اور دیگر ممالک کے کھلاڑیوں کے ایسی گرمی ناقابلِ برداشت ہوتی ہے اور وہ ایسے موسم میں فٹ بال کھیلنے کے عادی نہیں ہیں۔ اس لیے اس بار ورلڈ کپ فٹ بال نومبر اور دسمبر میں منتقل کردیا گیا ہے۔ قطر ورلڈ کپ فٹ بال ٹورنامنٹ کی میزبانی کرنے والا پہلا عرب ملک ہے۔اس کے علاوہ وہاں کی قوانین کے تحت کئی ایسی باتیں ہیں جس پر مغربی اور خاص کر انگلینڈ نے واویلا مچا رکھا ہے۔ ورلڈ کپ شروع ہونے سے قبل اور اب تک آئے دن ٹیلی ویژن اور خبروں میں ہم جنس  پرست تعلقات اور انسانی حقوق پر زیادہ باتیں کی جارہی ہیں جس کی وجہ سے فٹ بال کے شائقین کے جذبات مجروح ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کے لیے نئے اسٹیڈیم، سڑکیں اور ہوٹلوں کی تعمیر میں کام کرنے والے غیر ملکی مزدوروں کے ساتھ انسانی حقوق کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔

قطر اپنے موقف پر قائم ہے اور ان کا کہنا ہے کہ جب تک لوگ ان کے قوانین پر عمل کریں گے تب تک تک سب کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ قطر نے اصرار کیا ہے کہ کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں برتا جائے گا اور اس کے چیف ورلڈ کپ آرگنائزر ناصر الخطر کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے قوانین کو تبدیل نہیں کرے گی اور انہوں نے لوگو ں سے کہا ہے کہ وہ ملک کی ثقافت کا احترام کریں۔

اب تک کھیلے گئے میچ میں سب سے خلافِ توقع میچ سعودی عرب اور ارجینٹینا کا تھا جس میں سعودی عرب نے ارجینٹینا کو 2-1گول سے شکست دے کر فٹ بال پنڈتوں کوحیران کردیا۔ سعودی عرب نے جیت کی اس خوشی میں اگلے دن عام تعطیل کا اعلان کردیا اور سعودی عوام اپنی ٹیم کی جیت سے مارے خوشی کے پھولے نہیں سما رہے ہیں۔ورلڈ کپ فٹ بال ایک بین الاقوامی فٹ بال ٹورنامنٹ ہے جس کا مقابلہ مختلف ممالک کے درمیان ہوتا ہے۔اس ٹورنامنٹ کو پوری دنیا میں تین  ارب سے زیادہ لوگ دیکھتے ہیں۔ ورلڈ کپ میں چھ مختلف براعظموں کے ممالک شامل ہوتے ہیں جو افریقہ، ایشیا، یورپ، شمالی اور وسطی امریکہ اور کیریبین، اوشیانا اور جنوبی امریکہ کی ٹیموں پر مشتمل ہے۔

اب تک کل 21ورلڈ کپ ہوچکے ہیں۔پہلا ورلڈ کپ 1930میں ہوا تھا اور اسے جولس ریمیٹ نے تجویز کیا تھا۔جولس ریمیٹ ایک فرانسیسی فٹ بال منتظم تھے اور 1921  سے1954تک فیفا کے تیسرے صدر بھی تھے۔ یہ ٹورنامنٹ تیرہ مدعو ٹیموں پر مشتمل تھا جو یوروگئے میں ہوا جس نے ٹورنامنٹ بھی جیتا تھا۔تاہم دوسری جنگ ِ عظیم کے دوران1942اور 1946میں ورلڈ کپ کا انعقاد نہیں ہوا تھا۔  2018میں ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی بار تمام 211رکن ممالک ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرنے کے عمل میں داخل ہوئے۔ روس کے میزبان ملک کے طور پر خودبخود کوالیفائی کرنے کے بعد باقی 210ممالک نے 872میچوں کے دوران 31مقامات کے لئے مقابلہ کیا۔ یعنی اس طرح 32 ٹیمیں ورلڈ کپ میں حصہ لینے کی حقدار بنیں۔2018میں فرانس نے ورلڈ کپ جیتا تھا لیکن برازیل واحد ملک ہے جس نے پانچ بار ورلڈ کپ جیتا ہے۔ اس کے بعد اٹلی اور جرمنی کا نمبر آتا ہے جو چار چار بار جیت چکے ہیں۔

میں قطر میں آغاز ہونے والے شاندار ورلڈ کپ کے اہتمام کے لئے قطر کو تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اور وہیں انگلینڈ کے بی بی سی اور آئی ٹی وی کی اس رویے کی مذمت کرتا ہوں جنہوں نے افتتاحی تقریب کو جان بوجھ کر نہیں دکھایا گیا جس سے فٹ بال کے کروڑوں شائقین کو کافی ماہوسی ہوئی۔مجھے انگلینڈ کے اس رویے سے بھی کافی مایوسی ہوئی جہاں فٹ بال ٹورنامنٹ میں ہم جنس پرست تعلقات اور انسانی حقوق پربار بار اجاگر کیا جارہا ہے اور قطر کی ثقافت اور اس کے قوانین کی بے حرمتی کی جارہی ہے۔فٹ بال ایک ایسا گیم ہے جو میں دنیا کے تمام مذاہب، ثقافت اور لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاتا ہے جس کی پوری دنیا چار سال بے صبری سے انتطار کرتی ہے۔

آئیے ہم قطر میں ہو رہے ورلڈ کپ سے لطف اندوز ہوں اور کچھ ہفتے کے لئے اپنی اپنی پسندیدہ ٹیموں کے کھیل سے محظوظ ہوں۔ اور فٹ بال کے خوبصورت کھیل کوسیاست، مذہب اور دیگر تنازعہ سے نہ جوڑ کر آپسی بھائی چارگی اور محبت کو قائم رکھیں۔

Leave a Reply