You are currently viewing عید مبارک

عید مبارک

سب سے پہلے میں تمام لوگوں کو عید کی ڈھیروں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ الحمداللہ ہر سال کی طرح ایک بار پھر ہم عید کا تہوار جوش و خروش کے ساتھ منا رہے ہیں۔جہاں بچوں میں عید کی تہوار کی آمد کا بے صبری سے انتظارہوتا ہے وہی بڑے بوڑھے بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ عید کے تہوار منانے میں خوب لطف اٹھاتے ہیں۔

عید کا تہوار پوری دنیا میں رمضان کے خاتمہ کے بعد منانے کا ایک بہترین یکجہتی کا نمونہ ہے۔تاہم مختلف ممالک کے لوگ اپنے اپنے طور پر عید مناتے ہیں اور ان کے پکوان سے لے کر لباس بھی مختلف ہوتا ہے۔ لیکن سبھی میں ایک بات عام ہوتی ہے وہ ہے عید کی خاص خوشی جس میں گلے ملنے کے ساتھ ساتھ اپنے اور غیروں میں تحفوں کا تبادلہ کرنا شامل ہے۔عید کے موقع پر لندن کی ایک سہانی شام، ٹاور برج کے سامنے دریائے تھیمس کی لہروں پر شفق کے عکس نے ماضی کے دریچوں کو کرید دیتا ہے۔ ایسا لگ رہا کہ یہ کل کی ہی بات ہے جب تین دہائی قبل کلکتہ کے ہگلی ندی کی لہروں میں اسی طرح کا عکس دیکھنے کے لئے میں اکثر وہاں پر موجود رہتا تھا۔ آج تمام مناظر پھر سے تروتازہ ہوگئے اور کلکتہ کی یاد ستانے لگی۔ کلکتہ کو لندن کی طرح دیکھنے کے ارمان دریائے تھیمس کی لہروں کی طرح مچلنے لگے۔ فوراً یہ خیال آیا کہ شہر صرف کنکریٹ اور فلک بوس عمارتوں کا ہی مجموعہ نہیں بلکہ ان عمارتوں کے مکینوں کی تہذیب و تمدن، روایت و ثقافت کے عنصر سے شہر معطر رہتا ہے۔

 دنیا بھر میں ماہِ رمضان کے آخری عشرے میں عید سعید کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ لندن میں عید کلکتہ اور دیگر شہروں سے زیادہ مختلف نہیں ہوتی ہے۔ یہاں عید سے پہلے بچے اور عورتیں شاپنگ کرتے ہیں۔ ایشیائی لوگوں کی زیادہ تر شاپنگ، ویمبلی، ساؤتھ ہال، ٹوٹنگ اور گرین اسٹریٹ میں ہوتی ہے۔ یہ علاقے ایشیائی لوگوں کی آبادی والے ہیں۔ یہاں زیادہ تر دکانیں کھانے پینے اور کپڑوں کی ہیں۔ اس کے علاوہ حلال گوشت کی دکانیں بھی کافی ہیں۔اس کے علاوہ لندن کا معروف اور سب سے قدیم امبالا سوئیٹ پچاس برسوں سے پورے برطانیہ میں اپنی مٹھائیوں کے لئے کافی مقبول ہے۔

لندن میں اب چاند رات کی اہمیت بھی بڑھنے لگی ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے نوجوان شہر میں گھومتے رہتے ہیں اور لڑکیاں منہدی  لگواتی ہیں یا بیوٹی پارلر جاتی ہیں۔ بہت سارے نوجوان ڈھول بجاتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں زیادہ تر پاکستانی باشندے ہوتے ہیں۔دراصل اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے لندن اور برطانیہ کا موسم خوشگوار اور گرم ہوتا ہے جس سے یہ نوجوان ہندوستان، پاکستان اور دیگر ممالک کی طرح سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ کی دوسری نسل کے نوجوان جن کی پیدائش برطانیہ میں ہوئی ہے وہ اس طرح سے اپنی خوشی کا اظہار اور جشن منانے کو اپنا حق مانتے ہیں۔ تاہم دیگر ممالک کے لوگوں میں اس طرح کی بات نہیں پائی جاتی ممکن ہے وہ اپنی تقریبات کا اہتمام کسی ہال وغیرہ میں کرتے ہوں۔

ہندوستان اور پاکستان کی طرح عید کا چاند دیکھنے کا مسئلہ لندن میں کئی سالوں سے زیرِ بحث  ہے۔ ایک طبقہ سعودی عرب کے اعلان پر عید کی نماز پڑھتا ہے تو دوسرا طبقہ رویت ہلا ل کمیٹی کے اعلان پر نماز پڑھتا ہے۔ فی الحال اس مسئلہ کا کوئی حل نظر نہیں آرہا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر موڈرن کی مسجد سعودی عرب کے اعلان پر نماز کا اہتمام کرتی ہے تو دوسرے دن ٹوٹنگ کی مسجد میں نماز کا اہتمام ہو تا ہے کیونکہ ٹوٹنگ والے رویتِ حلال کمیٹی کی بات کو مانتے ہیں۔ ہر مسجد میں زیادہ تر جماعتیں دو یا تین ہوتی ہیں۔ کام پر جانے والے لوگ پہلی جماعت سے نماز پڑھ کر کام پر چلے جاتے ہیں۔ بچے جنہیں اسکول جانا ہوتا ہے وہ بھی پہلی جماعت سے نماز پڑھ کر اسکول چلے جاتے ہیں۔ اگر عید ہفتہ یا اتوار کو پڑتی ہے تو یوں احساس ہوتا ہے کہ عید کلکتہ شہر جیسی ہو رہی ہے۔کیونکہ یہ چھٹی کا د ن ہوتا ہے اور کافی چہل پہل بھی رہتی ہے۔ یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ پچھلے کچھ سالوں سے عید کی نماز پارک میں بھی ہونے لگی ہے۔ چونکہ مئی سے ستمبر تک لندن کا موسم خوشگوار ہوتا ہے۔

دیگر ممالک کی طرح لندن میں بھی نماز کے بعد لوگ قبرستان جاتے ہیں جہاں وہ اپنے عزیزواقارب کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے ہیں۔ یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ مسلمانوں کے قبرستان عیسائیوں کے قبرستان سے منسلک ہوتے ہیں اور ان قبرستانوں کی دیکھ بھال مقامی کو نسل کرتی ہے۔ اس کے بعد لوگ اپنے رشتہ دار اور دوستوں سے ملنے جلنے کے لئے نکل پڑتے ہیں۔ کئی لوگ اپنے گھروں میں پارٹیوں کا بھی اہتمام کرتے ہیں اور ڈھیر سارے کھانے پینے کی چیزیں بنائی جاتی ہیں۔ کھانے میں سوئیاں، بریانی، تندور مرغ،پراٹھے، چاپ، مٹھائی اور پھل وغیرہ ہوتے ہیں۔

یہاں میں ایک بات اور عرض کردوں کہ لندن میں زکوٰۃ کا بھی خوب چرچا رہتاہے۔ یہاں کی مختلف تنظیمیں مشلًا مسلم ایڈ، زکوۃ فاؤنڈیشن، مسلم ہینڈ،اسلامک ایڈ کافی نمایاں ہیں اس کے علاوہ پاکستا ن کی ایدھی فاونڈیشن، عمران خان کا کینسر اسپتال وغیرہ زکوٰۃ اکھٹا کرنے میں کافی سر گرم رہتے ہیں۔عید کے دن زیادہ تر لوگ جو پاکستانی نژاد ہیں وہ شلوار قمیض پہنتے ہیں اور جن کا تعلق عرب سے ہے وہ عربی لباس پہنتے ہیں۔ لندن میں عید کے دن دنیا بھر کے مسلمانوں کا جم غفیر ہوتا ہے اور یہ نظارہ لندن سنٹرل مسجد یا اسلامک کلچرل سنٹر میں دیکھنے کو ملتاہے جسے ریجنٹس پارک مسجد بھی کہتے ہیں۔ یہاں کوئی پانچ سے چھ جماعتیں ہوتی ہیں۔ یہاں لندن کے ہر علاقے سے لوگ آتے ہیں۔ نماز پڑھنے کے بعد لوگ پاس کے ریجنٹس پارک میں پکنک کے لئے اکھٹے ہو تے ہیں۔ جہاں دنیا کے ہر ممالک کے لوگ اپنے قومی لباس میں ملبوس ہوتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ یہاں اس لئے نماز پڑھتے ہیں کہ ان کی ملاقات پرانے دوستوں سے ہو جاتی ہے۔

ؑعید گزرنے کے کچھ ہفتے تک مختلف تنظیمیں اپنے اپنے علاقے میں سنگیت اور ڈنر کا بھی اہتمام کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر حیدرآباد، کیرالا، سری لنکا، پاکستان، ترکی،ماریشس  وغیرہ کے باشندے اپنی اپنی کمیونیٹی کے لئے اسی طرح کی تقریبات کا انتظام کرتے ہیں۔ حکو مت برطانیہ کی طرف سے وزیر اعظم، لندن کے مئیر صادق خان اور دیگر سیاستداں مسلمانوں کو عید الفطر کی مبا رک باد پیش کرتے ہیں اوراس مبارک موقعہ پر برطانیہ کو دنیا کی یکجہتی، برداشت اور تمام مذاہب کا ملک ہونے کی مثال دیتے ہیں۔اس موقعہ پر مختلف سیاسی جماعتیں عید پارٹی کا بھی اہتمام کرتی ہیں۔

میں لندن کے معروف رائل ہاسپٹل فار نیورو ڈِس ایبیلیٹی میں 2015 سے کام کر رہاہوں اور میری کوشش سے اب تک ہر سال ہسپتال میں عید پارٹی کا اہتمام ہورہا ہے جس میں مریض، ان کے رشتہ دار اور اسٹاف شریک ہوتے ہیں۔ اس پارٹی سے مریضوں اور رشتہ داروں کو کچھ پل کے لئے عید کی خوشیوں کا احساس ہو جاتا ہے۔

تاہم ہمیں عید کے موقعے پر فلسطین، یمن اور دیگر ممالک کے ان لوگوں کو نہیں بھولنا چاہیے جو اپنے ملک کے ابتر حالات سے دوچار ہیں۔ ہمیں اللہ سے دعا مانگنی چاہئے کہ دنیا میں امن قائم ہو اور اللہ ہمیں ظالموں سے محفوظ رکھے اور مظلوموں کی حفاظت ہو۔ ہمیں ان غریبوں کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جو غربت کی وجہ سے عید کا تہوار ہماری اور آپ کی طرح نہیں منا پارہے ہیں۔آخر میں، میں اپنی جانب سے تمام لوگوں کو دل کی گہرائی سے عید کی ڈھیر ساری مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اللہ سے دعا گو ہوں کہ آپ جہاں بھی ہوں خوش رہے اورہمارے بیچ اتحاد قائم ہو۔

Leave a Reply