You are currently viewing شائستگی اور بلنداخلاق کا علم بردار: پروفیسر ڈاکٹر یوسف عامر

شائستگی اور بلنداخلاق کا علم بردار: پروفیسر ڈاکٹر یوسف عامر

دنیا بھر میں شائستگی اور اخلاق کو اہم مانا جاتا ہے۔ آپ چاہے کسی بھی ملک کے باشندے ہوں  اگر آپ کا اخلاق بلند ہے تو آپ مہذب ملک کے شہری ہیں یعنی انسان کے اندر جو چیز سب سے پہلے دیکھی جاتی ہے وہ اخلاق ہے۔ اور اخلاق سے کسی ملک کی پہچان بنتی اور بگڑتی ہے اور مثالیں بھی دی جاتی ہیں۔

ہم نے بچپن سے اکثر یہ سنا تھا کہ انگلینڈ کے لوگ مہذب ہوتے ہیں۔ لیکن اس کا اندازہ مجھے لندن میں رہتے ہوئے چھبیس برسوں کے دوران بخوبی ہوا۔ معلوم ہوا کہ واقعی انگلینڈ کے باشندے  اعلیٰ اخلاق کے حامل  اور شائستہ ہوتے ہیں۔ روز مرہ کی زندگی میں چند باتیں یہاں ایسی پائی جاتی ہیں جس سے انسان کو سکون و آرام تو ملتا ہی ہے اس کے علاوہ ایک مہذ ب انسان بننے میں اس کا اہم رول ہوتا ہے۔ مثلاً کسی بات کا جواب شائستگی سے دینا، ہر بات کے بعد شکریہ کہنا، ایک دوسرے سے ملتے وقت مسکراہٹ بکھیرنا، کھانا کھاتے وقت دوسروں کا لحاظ رکھنا اور آداب دسترخوان کو قائم رکھنا، اونچی آواز میں باتیں نہ کرنا، گفتگو کے دوران دوسروں کی باتوں کو غور سے سننا وغیرہ وغیرہ۔یہی وجہ ہے کہ انگلینڈ کے باشندے دنیا بھر میں مہذب اور شائستہ کہلاتے ہیں اور ملک بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شمار کیا جاتا ہے اور ایک زمانے تک کم و بیش پوری دنیا پر حکومت کی ہے۔

اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ پرائمری اسکول سے ہی بچوں کو زندگی کے آداب سکھائے جاتے ہیں۔تبھی یہ بچے جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں ان میں تمام اچھائیاں ابھرنے لگتی ہیں اور اس طرح وہ اپنے ملک اور سماج میں ایک اچھے انسان کے طور پر پہنچانے جاتے ہیں۔ تاہم کچھ بچوں میں ثقافتی، ممالک اور ماں باپ کی پرورش کی وجہ سے ان کے اندر کچھ عادتیں یا انداز ایسے پیوست ہوجاتے ہیں کہ وہ انگلینڈ میں رہتے ہوئے بھی مہذب نہیں ہوپاتے۔ جس سے کبھی کبھی ملک کا نام تو نیچا ہوتا ہی ہے،  اس سے انسان تشویش میں پڑ جاتا ہے کہ اس انسان میں حیوانیت کہاں سے آگئی۔

اسلام نے ہمیشہ تہذیب اور شائستگی کا سبق دیا ہے اور ہمیشہ حُسن اخلاق کو بنیادی اہمیت اور زندگی گزارنے کا بہترین ذریعہ بتایا ہے۔معاشرہ کو شائستہ اور مہذب رکھنا اور ایک اچھا انسان بنانا اسلام کی تعلیمات میں ایک اہم سبق ہے۔ اللہ نے حضرت محمد ﷺ کو اعلیٰ اخلاق سے نوازا تھا۔ آپ کے چہرے پر دوسروں کے لیے مسکراہٹ ہوتی تھی۔ آپ انتہائی نرم مزاج انسان تھے۔ تکلیف پہنچانے والوں سے بھی نہ صرف حسن اخلاق بلکہ مسکراتے ہوئے ملتے تھے۔کبھی کسی سے انتقام لینے کا خیال تک نہیں آتا۔ آپ ملاقات یا گفتگو کے دوران اپنی نظر کسی پر جماتے نہ تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر رحم نہ کرے‘۔آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ: ’تم میں سے بہتر وہ ہے جو اخلاق کے اعتبار سے سب سے اچھا ہو‘۔

اکتوبر کے مہینے میں دنیا کی قدیم ترین الازہر یونورسیٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر یوسف عامر کا پیغام آ یا کہ:’بھائی جان انشا اللہ 24نومبر کو برٹش کانسل کی دعوت پر لندن حاضرہو رہا ہوں، میری بڑی خواہش ہے کہ آپ سے ملاقات کروں‘۔ یہ پیغام پروفیسر داکٹر یوسف عامر نے واٹس اپ کے وائس ریکارڈنگ کے ذریعے دیا۔ اس کے علاوہ انگلینڈکے قیام کے دوران کے پروگرام کی تفصیل بھی بھیجی۔ سچ پوچھئے تو پروفیسرڈاکٹر یوسف عامر کے پیغام اور حُسنِ اخلاق سے دل باغ باغ ہوگیا۔ میں نے پروفیسر ڈاکٹر یوسف عامر  کو لندن آنے پر مبارکباد پیش کی اور ان سے ملنے کے لیے وقت دینے کی گزارش کی۔ پروفیسر ڈاکٹر یوسف عامر نے اپنی مصروفیات سے دو تین شام کا وقت ہمیں مہیا کیا تھا۔ تاہم میں بھی اپنے ہسپتال کی ڈیوٹی میں مصروف صرف جمعہ 29کی شام کو ہی ملنے کا وعدہ کر سکا۔

لندن میں رہتے ہوئے ایک عرصہ ہوچکا ہے اور سچ پوچھئے جب  کسی  دوسرے ملک سے آیا ہؤا کوئی شخص ملنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے تو یقیناً دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔ لیکن وہیں جب کوئی جاننے والا بغیر اطلاع کے لندن گھوم کر چلا جاتا ہے اور خاکسار سے کوئی رابطہ نہیں کرتا، اس وقت دل خون کے آنسو روتا ہے۔ شاید اس شخص کی انا اور تکبر اسے اس قدر مغرور کر دیتا ہے کہ وہ اپنے سامنے کسی اور کو کچھ سمجھتا ہی نہیں ہے۔ خیر ہم اللہ سے دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ اس کی انا اوراس کی مغروریت کو موت سے پہلے فنا کر دے۔

جمعہ 29 نومبرکی شام دفتر میں شام پانچ بجے تک ایک اہم میٹنگ  چئیر کرتا رہا لیکن نظریں بار بار گھڑی پر تھی اور دل پروفیسر ڈاکٹر یوسف عامر سے ملنے کے لیے بیقرار تھا۔ اللہ اللہ کر کے میٹنگ ختم ہوئی اور میں تیزی سے اپنے آفس کی جانب لپکا۔ تبھی میری ساتھی ڈیبرا نے مجھے روک کر رہا کہ ’فہیم لندن برج پر انتہا پسند حملہ ہوا ہے،جانے سے قبل نیوز چیک کر لو‘۔ بس جناب یہ سن کر تمام جوش و خروش پر پانی پھر گیا۔ذہن میں عجیب سا خلفشار پیدا ہونے لگا۔ سوچا اب تو پروفیسر ڈاکٹر یوسف عامر سے ملاقات نہ ہو سکے گی۔ لیکن اس سے زیادہ ذہن اس بات سے تشویش ہو گئی کہ پھر کسی سر پھرے نے لندن کے امن پسند لوگوں پر حملہ کیا۔ ابھی میں اسی کشمکش میں مبتلا تھا کہ موبائل فون پر پروفیسر ڈاکٹر یوسف عامر کا وائس ریکارڈنگ دیکھا۔ پروفیسر ڈاکٹر یوسف عامر نے مشورہ دیا کہ لندن برج کے حملے کے مد نظر آپ اپنا پروگرام ملتوی کر سکتے ہیں۔

میں نے بھی ٹھان لیا کہ آج چاہے کچھ بھی ہوجائے میں پروفیسر ڈاکٹر یوسف عامر سے ملنے جاؤں گا۔ پھر کیا تھا گاڑی میں بیٹھا اور لندن کے معروف علاقہ وکٹوریہ کے قریب ہولبورن کی طرف نکل پڑا۔ یہیں پروفیسر ڈاکٹر یوسف عامر کا جیوری اِن ہوٹل میں قیام تھا۔ ونڈرز ورتھ برج پار کرکے چیلسی پھر نائٹس برج کے علاقے سے گزرتا ہوا ہائیڈ پارک پہنچا۔ پھر لندن کا معروف پیکیڈلی سرکس سے گزرتا ہوا ہولبورن پہنچا اور ہوٹل کے پاس ہی گاڑی کو پارک کر دیا۔

ہوٹل پہنچ کر پتہ چلا کہ پروفیسر ڈاکٹر یوسف عامر صاحب ابھی تک واپس نہیں آئے ہیں۔ میں ہوٹل کے لابی میں بیٹھا آن لائن خبروں پر نظر دوڑانے لگا۔ بس کیا تھا عثمان خان کو اسلامی انتہا پسند کہہ کر خبریں گردش کرنے لگی۔ کیا بتایا جائے جس مذہب نے دنیا بھر میں امن پھیلانے کا پیغام دیا اسی کے نام پر عثمان خان نے دو معصوم لوگوں کی جان لے لی۔ شاید ان کا قصور یہ تھا کہ وہ ایک انسان تھے۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا کہ عثمان خان کو پولیس نے موقعہ واردات پر ہی گولی مار کے ڈھیر کر دیا۔ خدا جانے ان لوگوں کے سر پر کیوں خون سوار ہے۔ خیر لندن والوں نے بھی اس کا جواب اپنے صبر و تحمل سے دیا اور لندن کی مصروف زندگی اپنے پورے آب و تاب سے جاری و ساری رہی۔

رات کے دس بجنے والے تھے کہ پروفیسر ڈاکٹر یوسف عامر اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ ہوٹل میں داخل ہوئے اور مجھ جیسے معمولی انسان سے کہتے ہیں کہ: ’بھائی جان، معافی چاہتا ہوں، میں بہت دیر سے آیا‘۔ایک وائس چانسلر کے اس جملے سے اس بات کا احساس ہوا کہ پروفیسر ڈاکٹر یوسف عامر میں شائستگی اوراعلیٰ اخلاق دونوں موجود ہے۔ایک وائس چانسلر کا اتنا اعلیٰ رویہ، ہم گمان ہی نہیں کر سکتے۔

پروفیسر ڈاکٹر یوسف عامر سے میری پہلی ملاقات 2018میں قاہرہ کے دورے پر الازہر یونیورسیٹی میں ہوئی تھی۔ نہایت نفیس اور شریف انسان جس کی سادگی اور شائستگی کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ یہ دنیا کے قدیم ترین یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں۔خیر کچھ رسمی گفتگو کے بعد ہم ان کے دو ڈین ساتھیوں کے ساتھ ٹوٹنگ علاقے کے دعوت ریسٹورینٹ میں ڈنر کے لیے گئے۔ جہاں ہم نے ہندوستانی کھانوں کا بھر پور مزہ لیا۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ پروفیسر ڈاکٹر یوسف عامر کو 2019میں ’صوفی جمیل اختر میموریل ایوارڈ‘سے بھی نوازاگیا ہے۔پروفیسر ڈاکٹر یوسف عامر اردو زبان و ادب کے پروفیسر بھی ہیں۔

 رات کافی  ہو چکی تھی اور لندن کے لوگ اپنے اپنے طور پر جمعہ کی شام کا لطف اٹھا رہے تھے۔ ہم بھی لگ بھگ ایک بجے پروفیسر ڈاکٹر یوسف عامر کو ان کے دو ساتھیوں کو  ہوٹل پہنچ گئے۔ ہوٹل پہنچ کر پروفیسر داکٹر یوسف عامر نے ہم سے جدا ہونے پر افسوس اظہار کیا لیکن اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ ہماری دوستی اور مستحکم ہو چکی ہے۔ میں پروفیسر داکٹر یوسف عامر کو بوجھل دل سے خدا حافظ کہہ کر اپنے گھر کی جانب کوچ کر گیا لیکن پورے راستے دل میں یہی خیال بار بار آتا رہا کہ عہدہ کبھی اخلاقیات کو مات نہیں دے سکتا اور جو لوگ عہدہ یا شہرت کے ساتھ اپنا رویہ بدل لیتے ہیں وہ دراصل بااخلاق نہیں بلکہ ڈھونگی ہوتے ہیں۔

Leave a Reply