You are currently viewing سیاسی اخلاقیات اور بے بس عوام

سیاسی اخلاقیات اور بے بس عوام

پچھلے کچھ مہینے سے ہندوستان اور پاکستان کے سیاست میں عجیب سی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ آئے دن قومی اور ریاستی سطح پر ایک پارٹی کے کچھ لوگ اپنی پارٹی کو چھوڑ کر کسی اور پارٹی کے ساتھ ہاتھ ملا رہے ہیں جس کے نتیجے میں حکومت گرتی ہے اور ایک نئی حکومت قائم ہوجاتی ہے۔

اس کے بعد عوام حواس باختہ اور کنفیوزہے اور پارلیمنٹ و اسمبلی میں خوب ہنگامہ ہورہا ہے۔ جبکہ اس کھیل میں وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ دونوں ہی بے بس ہو کر تماشہ دیکھنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر پارہے ہیں اور نئے لیڈر کٹھ پتلی کی طرح ناچتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ تاہم ایک بات سے ہر کوئی اتفاق کر رہاہے اس کھیل کے پیچھے کروڑوں روپے کا لین دین ہورہا ہے جس سے سیاسی لیڈر اپنے ضمیر، پارٹی، اصول، نظریہ سبھوں کو تاک پر رکھ کر اسی بات پر قائم ہیں کہ “نہ باپ بڑا نہ بھیا، دی ہول تھینگ اج دیٹ کے بھیا، سب سے بڑا روپیا”۔

اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ ان سیاست دانوں کو کہیں ویڈیو تو کہیں ریکارڈنگ کے ذریعہ مال لیتے یا دیتے دکھایا جارہا ہے۔ جو کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں ممالک میں حال ہی سیاسی اتھل پتھل سے سامنے آیا ہے۔ اس میں کہیں بیرون ممالک تو کہیں سرمایہ دار تو کہیں وہ لوگ شامل ہیں جو اس کام کے ذریعہ اپنا الو سیدھا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ویسے جس طرح سے یہ لہر ہندوستان اور پاکستان میں چل پڑی ہے اب تو اس بات سے ہم انکار ہی نہیں کرسکتے کہ “سیاست میں ہورس ٹریڈنگ”کا زور اب کافی پکڑ چکا ہے۔یعنی نہ عوام کی خدمت سے کچھ لینا دینا، نہ اخلاقی طور پر اور نہ کوئی اخلاقی ذمہ داری رہی۔ بس اب صرف ایک ہی بات ذہن میں ہے کہ کسی طرح مال بنانا ہے۔

انسان کی زندگی میں اخلاقی ذمہ داری ایک اہم عنصر ہے۔ جس کے تحت ہم عام طور پر اپنے روز مرہ کے کام، اپنی ذمہ داریاں کے ذریعہ انسانیت کا بہترین مظاہرہ کرتے ہیں۔ اخلاقی ذمہ داری کے فقرے میں، اصطلاح “اخلاق” دو مختلف نظریات کو درج کر سکتی ہے۔ ایک طرف یہ اطلاق کے ایک خاص شعبے اور نتائج کے متعلقہ طبقے کو متعارف کراسکتا ہے۔ جو رسمی کی بجائے غیر رسمی اور سماجی ہیں اور جسے اس طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ طاقت کے ذریعے تعاون یافتہ ہیں اور اخلاقی ذمہ داری کو قانونی ذمہ داری سے ممتاز کیا جاتا ہے۔ اصطلاح کا ایک بالکل مختلف استعمال شامل ہوتا ہے جب “اخلاق” کو ایک خاص بنیاد کے لیے متعارف کرایا جاتاہے۔  اس لحاظ سے اخلاقی ذمہ داری کو تشخیص کی بنیاد کے طور پر تجویز کیا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ جو چیز زیر بحث ہے وہ قانونی ذمہ داری ہے۔

سیاسی اخلاقیات (جسے عوامی اخلاقیات بھی کہا جاتا ہے)۔ سیاسی عمل اور سیاسی ایجنٹوں کے بارے میں اخلاقی فیصلے کرنے کا عمل ہے۔ یہ دو شعبوں کا احاطہ کرتا ہے۔ پہلا عمل کی اخلاقیات (یا دفتر کی اخلاقیات) ہے، جو عوامی عہدیداروں اور ان کے طریقوں سے متعلق ہے۔ دوسرا شعبہ پالیسی کی اخلاقیات (یا اخلاقیات اور عوامی پالیسی) ہے، جو پالیسیوں اور قوانین کے اردگرد کے فیصلوں سے متعلق ہے۔ سیاسی اخلاقیات کا تصور اس وقت بآسانی سمجھا جا سکتا ہے جب اصطاح کی جڑیں اور اس کی بتدریج ترقی کا اندازہ لگایا جائے۔ سیاسی اخلاقیات کی بنیادی اقدار اور توقعات تاریخی طور پر انصاف کے اصولوں سے حاصل ہوتی ہے۔ سیاسی مسائل کے بارے میں اخلاقی فیصلے کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، لوگ اخلاقیات کی اپنی سمجھی گئی تعریف کا بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اخلاقیات کا تصور خود کئی اخلاقی بنیادوں سے ماخوذ ہے۔ اخلاقیات، جو ان بنیادوں کی عینک سے دیکھی جاتی ہے، سیاسی اعمال اور سیاسی ایجنٹوں کے بارے میں لوگوں کے فیصلوں کو تشکیل دیتی ہے۔

پاکستان میں جس طرح سے عمران خان کو ہٹا یا گیا اس کے بعد وہاں اب بھی سیاسی صورتِ حال میں تناؤ ہے۔ آئے د ن سا بق وزیر اعظم عمران خان ایک نئے الیکشن کی مانگ کر رہے ہیں۔ حال ہی میں پنجاب صوبے کی ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کی شاندار فتح کے بعد عمران خان نے ایک بار پھر قبل از وقت قومی انتخابات کا مطالبہ کیا ہے جب ان کی پارٹی نے ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں ریاستی اسمبلی کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ یہاں بھی ایسے ہی الزامات لگائے جارہے ہیں کہ کسی صورت میں چند باغی سیاستدانوں نے کروڑوں روپے لے کر پارٹی بدل لی جس سے عمران خان کی حکومت گر گئی۔ تاہم پنجاب کے ضمنی انتخاب میں عوام نے ان لوگوں کو ووٹ نہیں دیا جنہوں نے اپنی پارٹی سے غداری کی تھی۔ جس سے جہاں عمران خان کی پی ٹی آئی کا حوصلہ اور بڑھا ہے تو وہیں دیگر پارٹیوں میں پریشانی، خوف اور گھبراہٹ پائی جارہی ہے۔

 ایسا ہی کچھ ہندوستان کے صوبہ مہاراشٹر میں دیکھا گیا جب شیو سینا کی حکومت کو بڑا دھچکا اس وقت لگا جب ان کے بیشتر ممبر اسمبلی صوبہ آسام کے ایک ہوٹل میں پائے گئے۔ دھیرے دھیرے بات جب سامنے آئی تو پتہ یہ چلا کہ اس پلان کو بی جے پی انجام دے رہی ہے۔ پھر کیا تھا جس کا ڈر تھا وہی بات ہوگئی۔ یعنی ادھے ٹھاکرے کو استعفی دینا پڑا اور مہاراشٹر میں شیو سینا باغیوں کی حکومت بی جے پی کے سہارے بن گئی۔ تاہم وزرا کے انتخاب میں اکتالیس دن ضرور لگ گئے۔ ایسا کہا جارہا ہے کہ شیو سینا کے زیادہ تر باغی لیڈر وں پر دھاندلی کا الزام ہے جس پر بار بار بی جے پی آواز اٹھا رہی تھی۔ اور جنہیں ڈر تھا کہ ای ڈی، انفارس ڈائیریکٹوریٹ کا چھاپہ بھی پڑنے والا تھا۔ بس اب جان بچانے کے لیے ان باغی لیڈروں کے پاس اور کوئی دوسرا راستہ بھی نہ تھا۔ کہتے ہیں مرتا کیا نہ کرتا۔

کچھ دن قبل بنگال سے تین جھاڑکھنڈ کے کانگریسی نیتا کو کافی تعداد میں روپوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔ الزام بی جے پی پر لگائی جارہی ہے کہ وہ جھاڑکھنڈ میں ہیمنت سورین کی حکومت کو گرانے والے تھے۔ جس کے بعد کانگریس نے اپنے تینوں ایم ایل اے کو برخواست کر دیا اور ایک بار پھر سیاسی گلیارے میں مال لینے سینے کی خبر نے زور پکڑنا شروع کر دیا۔

لیکن بہار صوبے میں جہاں نتیش کمار کے جے ڈی یو کی حکومت جو بی جے پی کی حمایت سے چل رہی تھی وہاں اچانک بی جے پی کو ایک بڑا دھچکا اس وقت لگا جب نتیش کمار نے اپنا استعفیٰ دے کر ایک بار پھر راشٹرا جنتا دل، کانگریس، بایاں محاذ سے ہاتھ ملا کر حکومت بنانے کا دعویٰ کر دیا۔ کہتے ہیں کہ دشمن کے حملے سے خطرناک ایک جعلی دوست کا ہونا ہے۔ مجھے امید ہے نتیش کمار اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک بار پھر بی جے پی سے ہاتھ نہ ملا لیں۔ جیسا کہ انہوں نے پہلے کیا تھا۔

ایک چینی کہاوت ہے کہ “کھائی میں گرنا آپ کو سمجھدار بناتا ہے”۔ یہ بات ہم سب پر صادر ہوتی ہے۔ چاہے ہم زندگی کہ کسی بھی معاملات میں الجھ جائے۔ اپنی غلطیوں سے ہمیں سبق ضرور لینی چاہیے۔ ہندوستان اور پاکستان میں ان دنوں جس طرح سیاستدان پیسے لے کر ایک پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی میں جارہے ہیں اس سے جمہوریت تو کمزور ہو ہی رہی اور عوام کا جمہوری نظام پر اعتبار بھی مجروح ہورہا ہے۔ جس طرح سے سیاستدانوں نے پیسے کی خاطر اپنا ضمیر، اخلاق، اعتبار، ایمان، وغیرہ بیچ ڈالا ہے اس سے عوام کا جمہوری اخلاق بحال کرنا ایک مشکل کام لگتا ہے۔

 تاہم ہندوستان اور پاکستان میں سیاسی بدعنوانی کی بڑی وجہ انتخابات سے منسلک ہوتی ہے۔ ہندوستان میں انتخابات کے لیے حکومت کی طرف سے مالی امداد نہیں کی جاتی ہے اور انتخابی مہم پر خرچ کی جانے والی رقم پر کوئی پابندی نہیں ہے۔بھارتی عوام کی طرف سے معلومات کے حق ایکٹ 2005کے فعال استعمال کی کمی سیاست دانوں کو بدعنوانی میں ملوث ہونے کی ترغیب دیتی ہے۔ تمام اینٹی کرپشن یونٹس براہ راست حکومت کے کنٹرول میں ہیں، جو اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ وزراء اور قانون ساز اکثر اینٹی کرپشن یونٹس پر دباؤ ڈال کر اپوزیشن پر چھاپا مرواتا ہے اور عوام کی نظروں میں سر خروبن جاتا ہے۔

خیر ہمیں ہمیشہ بد اخلاق اور دغاباز اور بد عنوان سیاستدانوں سے ہوشیار رہنا چاہیے اور موقع ملتے ہی انہیں ووٹ نہ دے کر اس بات کا ثبوت دینا چاہیے کہ عوام سے حکومت ہے نہ کہ حکومت سے عوام ۔ تاکہ ان دغاباز اور بدعنوان سیاست دانوں کو اس بات کا خوف رہے کہ عوام انہیں کرسی سے اتار بھی سکتی ہے۔

Leave a Reply