You are currently viewing سر سید ڈے

سر سید ڈے

اکتوبر کو دنیا کے بیشتر ممالک میں ’سر سید ڈے‘ دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو سر سید احمد خان کی پیدائش 17اکتوبر 1817 کو ہوئی تھی اور دوسراسر سید احمد خان نے دنیا کی معروف یونیورسٹی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعمیر کراوئی تھی۔

دنیا بھر میں بسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طا لب علم اپنے اپنے شہر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی الومنی یا اولڈ بوائز یا تنظیم اور انجمن کے نام سے ادارے قائم کر رکھے ہیں۔ جس کے بینر تلے وہ ہر سال سر سید کی پیدائش کے موقعے پر ’سر سید ڈے‘ منا کر ان کو خراج و عقیدت پیش کرتے ہیں۔

 اس سال بھی ’سر سید ڈے‘ کو بڑے پیمانے پر جوش و خروش سے منایا گیا۔کہیں سر سید کی زندگی اور ان کے کارنامے پر سیمینار ہوئے تو کہیں ان کی علمی اور مذہبی قابلیت کی پزیرائی ہو ئی۔ سوشل میڈیا پر بھی لوگ اپنے اپنے خیال کا اظہار کر رہے ہیں۔ زیادہ تر لوگ سر سید کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعمیر اور ان کے ارادوں پر رشک کر رہے ہیں اور اس بات پر دکھ بھی جتا رہے ہیں کہ شاید سر سید جیسے کام کو اب کوئی دوبارہ نہ کر پائے گا۔اس میں کوئی دو رائے بھی نہیں ہے کہ سر سید کے اس کارنامے کے بعد بر صغیر میں ایسا کوئی کام کسی نے اب تک انجام دیا ہو۔ تاہم سر سید کی اس تحریک سے کافی لوگ متاثر بھی ہوئے ہیں اور وہ اپنے اپنے طور پر تعلیمی نظام کو فروغ دے رہے ہیں۔

لندن میں بھی ’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی الومنی ایسو سی ایشن یو کے‘کافی مدت سے سر سید ڈے منا رہی ہے۔ اس کے ممبران ہر سال’سر سید ڈے‘منا نے کے علاوہ چند ثقافتی پروگرام کا بھی انعقاد کر تے ہیں۔ جس میں شہر کی معزز ہستیاں شرکت کرتی ہیں اور کبھی کبھی بیرون ممالک کے مہمان بھی تشریف لاتے ہیں۔ لیکن پروگرام میں عمررسیدہ لوگوں کی بھیڑ زیادہ پائی جاتی ہے جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بر صغیر کی روایت کے مطابق ایسو سی ایشن کا عہدہ عمر رسیدہ لوگ اور آپسی تعلقات والوں کے درمیان ہی بانٹ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ میری ملاقات علی گڑھ یونیورسٹی کے کئی پیشہ ور نوجوانوں سے ہوئی ہے جنہیں یا تو اس ایسوسی ایشن کے بارے میں علم ہی نہیں ہے یا انہیں پروگرام کی جانکاری نہیں دی جاتی ہے۔جسے میں ایک المیہ مانتا ہوں۔

کلکتہ سے چند روز قبل بھائی محمد غنی کا واٹس اپ کے ذریعہ پیغام آیا، جس میں انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کولکتا، ویسٹ بنگال، کے سر سید ڈے جشن 2021میں بطور اسپیکر بذریعہ زوم ویڈیو شامل ہونے کی دعوت دی۔میں نے بھی محمد غنی صاحب کی محبت میں سر خم کرتے ہوئے دعوت قبول کر لی۔ کچھ دنوں بعد رنگ برنگے حرفوں اور دیگر معروف ناموں کے ساتھ دعوت نامہ ہر طرف دِکھنے لگا۔  لیکن پروگرام کے اشتہار لگنے کے فوراً بعد بیچارے محمد غنی صاحب کو ایک اردو پروفیسر نے نشانہ بناتے ہوئے پروگرام سے پہلے ہی ان پر دھاوا بول دیا کہ ’فہیم اختر کیا گفتگو کرے گا۔ لندن میں اس لئے؟‘۔بھائی محمد غنی اُن صاحب کے کومنٹس سے کافی دل برداشتہ ہوئے اور انہوں نے اردو پروفیسر کو اپنے طور پر ایک معقول ساجواب دے دیا او رپھر مجھے افسوس کے ساتھ اپنی قوم اور ایسے لوگوں کے حسد، کینہ اور بغض پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مجھے بتانے لگے کہ ’ایسے شخص کی طرف سے انتہائی شرمناک ریمارکس سے میں نہایت شرمندہ ہیں، اللہ انہیں ہدایت دے‘۔

میں نے محمد غنی صاحب کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ، کیا آپ کو سر سید احمد خان پر لگے الزامات یاد نہیں جب ان پر انگریزوں کا وفادار ہونے کا الزام لگا تھا اور علی گڑھ تحریک کے دوران ان کو کتنی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔خیر پروفیسر صاحب نے اپنا بغض بوکھلاہٹ میں پہلے نکال دیا، اگر وہ تھوڑا صبر کر لیتے اور پروگرام کے بعد کچھ لکھتے تو شاید بات اتنی بری نہ لگتی جتنا انہوں نے قبل از پروگرام لکھ کر کیا۔

اتوار 17اکتوبر کو ہندوستانی وقت کے مطابق شام ساڑھے چار بجے بذریعہ زوم علی گڑھ مسلم یونیور سٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کلکتہ کے ’سر سید ڈے سیلیبریشن۔2021میں بطور مقرر پروگرام میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ پروگرام میں لگ بھگ چالیس سے پچاس لوگ شامل تھے۔ پروگرام کا آغاز ادارے کے سیکریٹری جناب وقار احمد خان نے اپنی مختصر بات سے شروع کی۔ اس کے بعد راقم الحروف کے ساتھ تمام مقررین نے اپنی پر مغز تقریر سے سر سید احمد خان کی تحریک، سماجی و ادبی خدمات سے لے کر ان کی زندگی پر بھرپور باتیں کیں۔ ان میں علی گڑھ یونیور سٹی کے انگریزی کے پروفیسر جناب عاصم صدیقی، شعبہ ہندی کے پروفیسر سمبھو ناتھ تیواری اور علم نفسیات کے پروفیسر ڈاکٹر شاہ عالم کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ آسٹریلیا کی مس سبو ادھامی اور بحرین سے جناب خورشید عالم نے بھی اپنی خوبصورت باتوں سے ناظرین کا دل جیت لیا۔آخر میں علی گڑھ مسلم یونیور سٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کلکتہ کی صدر ڈاکر سمینہ خان نے تمام مہمانوں کا باری باری شکریہ ادا کیا اور اس طرح ’سر سید ڈے یونیورسٹی کے ترانے اور قومی ترانے کے ساتھ‘ اپنے اختتام کو پہنچا۔

سر سید احمد خان کی پیدائش1817 میں دلی میں ہوئی تھی۔ چونکہ سر سید کے والد مغلیہ حکومت میں اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے اس لئے انہوں نے سر سید کو اعلیٰ تعلیم سے سرفراز کرنے کی کوشش کی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں ہی سر سید احمد خان کو عربی، فارسی، حساب اور میڈیسن میں مہارت حاصل ہوگئی تھی۔ اس دوران سر سید کو نامور ادیبوں سے ملنے کا اتفاق بھی ہوا تھا جس سے ان کے اندر ادبی علوم سے دلچسپی ہونے لگی۔ 1838 سر سید احمد خان کے والد کا انتقال ہوگیا جس کی وجہ سے سر سید کو ملازمت کرنا پڑی۔1838 میں انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت اختیار کر لی۔ قانون کے شعبے میں معمولی نوکری کرتے ہوئے بہت ہی کم عرصے میں 1846 میں دلی کے جج کے اعلیٰ عہدے پر ترقی کر گئے۔اس دوران 1854 میں سر سید نے آثارِ قدیمہ پر ایک معروف کتاب’آثار الصنادید‘ لکھی جو کہ عمارات دہلی کی مستند تاریخ پر مشتمل ہے۔

1857 کی بغاوت کے دوران سر سید احمد خان بجنور کے چیف جج کے عہدے پر فائز تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت سر سید نے کافی عورتوں اور بچوں کی جان بچائی تھی۔ برٹش حکومت نے سر سید کی وفاداری اور انسانی خدمت کے لئے جائداد اور خطیر رقم دینے کا فیصلہ کیا تھا جسے سر سید نے انکار کر دیا۔سر سید کا کہنا تھا کہ برٹش کے خلاف ہتھیار اٹھانا اور بغاوت کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ ان کے اس بیان سے مسلمانوں کا ایک گروپ ناراض ہو گیا۔ لیکن سر سید نے بغاوت کے بعد انگریزوں اور مسلمانوں کے بیچ مفاہمت کرانے کی مسلسل کوشش کرتے رہے۔

سر سید کو مرادآباد کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔1864  اور ان کا تبادلہ علی گڑھ کر دیا گیا جہاں سے انہوں نے مسلمانوں کے لئے اعلیٰ تعلیمی نظام کو قائم کرنے کی کوشش شروع کی۔ آخر کار انہوں نے 1876 میں قانون کے پیشے سے علاحدگی اختیار کر لی اور بر صغیر کے مسلمانوں کی تعلیم کو سدھارنے اور اس کے لئے کالج بنانے میں جٹ گئے۔

سر سید احمد خان کو مغلوں کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد مسلمانوں کی بگڑتے ہوئے حالات اور بغاوت سے سخت پریشانی تھی۔ انہیں اس بات کا احساس تھاکہ مسلمان بغاوت کے بعد انگریزوں کی نظر میں غدّار مانے جانے لگے تھے۔ اس کے علاوہ مسلمان ہندوؤں کے مقابلے میں کافی پیچھے تھے۔تاہم سر سید کے لئے یہ کام کافی مشکل تھا کیونکہ علما انگریزی زبان کا پڑھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ جس کے لئے سر سید کو کافی پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ سر سید مسلمانوں کی سماجی اور معاشی حالات کی بہتری کے خواہاں تھے۔ 1860 میں سر سید نے ’اسباب بغاوتِ ہند‘لکھی۔ جس میں انہوں نے اس بات کو اجاگر کیا کہ بغاوت کے اسباب صرف مسلمانوں کی انگریز دشمنی نہیں تھی بلکہ حکومت میں ہندوستانیوں کی نمائندگی کی کمی، مسلمانوں کو زبردستی عیسائی بنانا اورہندوستانی فوج کا ناقص انتظام جیسے مسئلے اہم تھے۔

1869 میں سر سید کو انگلینڈ جانے کا موقعہ ملا تا کہ وہ وہاں کی یونیورسٹی کے سسٹم کا مطالعہ کریں۔ اس دوران انہیں آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کو بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ جس سے سر سید کافی متاثر ہوئے اور انہوں نے اسی طرز کا ایک یونیورسٹی ہندوستان میں قائم کرنے کا ارادہ کیا۔تاہم سر سید کو اس کام کو شرو ع کرنے کے لئے پہلے ایک اسکول کو قائم کرنا ضروری تھا۔ جس کے لئے  1875 میں انہوں نے علی گڑھ میں محمڈن اینگلو اورینٹل اسکول قائم کیا۔ جسے 1920 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ ملا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سر سید احمد خان کا نام تب تک قائم رہے گا جب تک دنیا قائم رہے گی۔ انہوں نے تمام تر مخالفت اور نفرتوں کے باوجود علی گڑھ یونیورسٹی کو قائم کر کے اس بات کو ثابت کر دیا کہ وہ مسلمانوں کے ایک سچّے خیر خواہ، مخلص اور ایماندار رہنماتھے۔ جنہوں نے بنا کسی نجی مفاد کے اس کام کو انجام دیا۔ اگر دیکھا جائے تو آج سر سید جیسے لوگوں کی کمی بے حد محسوس کی جارہی ہے۔ کیونکہ زیادہ تر قوم و ملّت کے رہنما اپنی ذاتی زندگی کے لئے فکر و مند ہوتے ہیں اور وہ سیاسی پارٹیوں کے تلوے چاٹنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔جس سے ان کا نام و نشان جیتے جی متنازعہ رہتا ہی ہے اور مرتے ہی مٹ بھی جاتا ہے۔ تاہم وہیں بہت سارے لوگ بام و نمود سے دور سر سید احمد خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے چھوٹے بڑے کاموں کے ذریعہ قوم و ملت کی خدمت میں دن رات کوشاں بھی ہیں۔

Leave a Reply