You are currently viewing سر سید ڈے اور سر سید احمد خان

سر سید ڈے اور سر سید احمد خان

پچھلے دنوں جب اپنی بیٹی زارا فہیم کو کیمبرج یونیورسٹی میں چھوڑنے گیا تو نہ جانے کیوں سر سید احمد خان کافی یاد آنے لگے۔ دراصل  زارا فہیم نے برمنگھم یونورسٹی سے موڈرن لینگویج میں اعلی نمبر سے بی اے (آنرز) پاس کیا تھا۔اس لئے زارا فہیم کو کیمبرج یونیورسیٹی میں تھیوریٹیکل اینڈ اپلائیڈ لینگویسٹک میں ایم فل کرنے کا موقعہ ملا ہے۔

کہتے ہیں کہ سر سید احمد خان (1869-70)کے انگلینڈ سفر کے دوران ہندوستان میں ایک عظیم تعلیمی ادارے کا منصوبہ بنایا تھا۔ جس کی ایک وجہ سرسید احمد خان کا کیمبرج کا دورہ تھا۔ اس منصوبے کو انہوں نے” مسلم کیمبرج ” کا نام دیا تھا۔ انگلینڈ سے واپسی کے بعد سر سید نے ایک کمیٹی قائم کی اور مسلمانوں کی بہتری اور اصلاح کے لیے ایک با اثر جریدہ “تہذیب الاخلاق” بھی شروع کیا۔ مئی 1875میں علی گڑھ میں ایک مسلم اسکول قائم کیا گیا تھا اور 1876میں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد سر سید نے اسے ایک کالج کی شکل دینے کے لیے خود کو وقف کر دیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سر سید نے کیمبرج  دیکھنے کے بعد یہ ٹھان لی کہ انہیں بھی ہندوستان میں “مسلم کیمبرج “بنانا ہے۔کیمبرج یونیورسٹی دنیا کی تیسری قدیم یونیورسٹی ہے اور یہ دنیا کی باوقار یونیورسٹیوں میں سے دوسرے نمبر پر ہے۔دراصل اپنے آٹھ صدی کے وجود میں کیمبرج یونیورسٹی کے سابق طلبا اور فیکلٹی نے اب تک 121نوبل انعامات جیتے ہیں۔ جو دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی  میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ کیمبرج یونورسیٹی کے سب سے قابل ذکر سابق طلباء میں 47سربراہان مملکت، 14برطانوی وزیراعظم شامل ہیں۔ جن میں ہندوستان کے راجیو گاندھی کا نام بھی قابل ذکر ہے۔

17اکتوبر کو دنیا کے بیشتر ممالک میں ’سر سید ڈے‘ دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو سر سید احمد خان کی پیدائش 17اکتوبر 1817  کو ہوئی تھی اور دوسرا سرسید احمد خان نے دنیا کی معروف یونیورسٹی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعمیر کراوئی تھی۔ دنیابھر میں بسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طا لب علم اپنے اپنے شہر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی الومنی یا اولڈ بوائز یا تنظیم اور انجمن کے نام سے ادارے قائم کر رکھے ہیں۔ جس کے بینر تلے وہ ہر سال سر سید کی پیدائش کے موقعے پر ’سر سید ڈے‘ منا کر ان کو خراج و عقیدت پیش کرتے ہیں۔سوشل میڈیا پر بھی لوگ اپنے اپنے طور پر اپنے خیال کا اظہار کر رہے ہیں۔ زیادہ تر لوگ سر سید کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعمیر اور ان کے ارادوں پر رشک کر رہے ہیں اور اس بات پر دکھ بھی جتا رہے ہیں کہ شاید سر سید جیسے کام کو اب کوئی دوبارہ نہ کر پائے گا۔اس میں کوئی دو رائے بھی نہیں ہے کہ سر سید کے اس کارنامے کے بعد بر صغیر میں ایسا کوئی کام کسی نے اب تک انجام دیا ہو۔ تاہم سر سید کی اس تحریک سے کافی لوگ متاثر بھی ہوئے ہیں اور وہ اپنے اپنے طور پر تعلیمی نظام کو فروغ دے رہے ہیں۔

لندن میں ’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی الومنی ایسو سی ایشن یو کے‘کافی مدت سے سر سید ڈے منا رہی ہے۔ اس کے ممبران ہر سال’سر سید ڈے‘منانے کے علاوہ چند ثقافتی پروگرام کا بھی انعقاد کر تے ہیں۔ جس میں شہر کی معزز ہستیاں شرکت کرتی ہیں اور کبھی کبھی بیرون ممالک کے مہمان بھی تشریف لاتے ہیں۔ لیکن پروگرام میں عمررسیدہ لوگوں کی بھیڑ زیادہ پائی جاتی ہے جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بر صغیر کی روایت کے مطابق ایسو سی ایشن کا عہدہ عمر رسیدہ لوگ اور آپسی تعلقات والوں کے درمیان ہی بانٹ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ میری ملاقات علی گڑھ یونیورسٹی کے کئی پیشہ ور نوجوانوں سے ہوئی ہے جنہیں یا تو اس ایسوسی ایشن کے بارے میں علم ہی نہیں ہے یا انہیں پروگرام کی جانکاری نہیں دی جاتی ہے۔جسے میں ایک المیہ مانتا ہوں۔

سر سید احمد خان کی پیدائش 1817 میں دلی میں ہوئی تھی۔ چونکہ سر سید کے والد مغلیہ حکومت میں اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے اس لئے انہوں نے سر سید کو اعلیٰ تعلیم سے سرفراز کرنے کی کوشش کی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں ہی سر سید احمد خان کو عربی، فارسی، حساب اور میڈیسن میں مہارت حاصل ہوگئی تھی۔ اس دوران سر سید کو نامور ادیبوں سے ملنے کا اتفاق بھی ہوا تھا جس سے ان کے اندر ادبی علوم سے دلچسپی ہونے لگی۔  1838 سر سید احمد خان کے والد کا انتقال ہوگیا جس کی وجہ سے سر سید کو ملازمت کرنا پڑی۔ 1838 میں انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت اختیار کر لی۔ قانون کے شعبے میں معمولی نوکری کرتے ہوئے بہت ہی کم عرصے میں 1846 میں دلی کے جج کے اعلیٰ عہدے پر ترقی کر گئے۔اس دوران 1854 میں سر سید نے آثارِ قدیمہ پر ایک معروف کتاب’آثار الصنادید‘ لکھی جو کہ عمارات دہلی کی مستند تاریخ پر مشتمل ہے۔

1857 کی بغاوت کے دوران سر سید احمد خان بجنور کے چیف جج کے عہدے پر فائز تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت سر سید نے کافی عورتوں اور بچوں کی جان بچائی تھی۔ برٹش حکومت نے سر سید کی وفاداری اور انسانی خدمت کے لئے جائداد اور خطیر رقم دینے کا فیصلہ کیا تھا جسے سر سید نے انکار کر دیا۔سر سید کا کہنا تھا کہ برٹش کے خلاف ہتھیار اٹھانا اور بغاوت کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ ان کے اس بیان سے مسلمانوں کا ایک گروپ ناراض ہو گیا۔ لیکن سر سید نے بغاوت کے بعد انگریزوں اور مسلمانوں کے بیچ مفاہمت کرانے کی مسلسل کوشش کرتے رہے۔ سر سید کو مرادآباد کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔ 1864  اور ان کا تبادلہ علی گڑھ کر دیا گیا جہاں سے انہوں نے مسلمانوں کے لئے اعلیٰ تعلیمی نظام کو قائم کرنے کی کوشش شروع کی۔ آخر کار انہوں نے 1876 میں قانون کے پیشے سے علیحدگی اختیار کر لی اور بر صغیر کے مسلمانوں کی تعلیم کو سدھارنے اور اس کے لئے کالج بنانے میں جٹ گئے۔

سر سید احمد خان کو مغلوں کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد مسلمانوں کی بگڑتے ہوئے حالات اور بغاوت سے سخت پریشانی تھی۔ انہیں اس بات کا احساس تھاکہ مسلمان بغاوت کے بعد انگریزوں کی نظر میں غدّار مانے جانے لگے تھے۔ اس کے علاوہ مسلمان ہندؤں کے مقابلے میں کافی پیچھے تھے۔تاہم سر سید کے لئے یہ کام کافی مشکل تھا کیونکہ علماء انگریزی زبان کا پڑھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ جس کے لئے سر سید کو کافی پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ سر سید مسلمانوں کی سماجی اور معاشی حالات کی بہتری کے خواہاں تھے۔ 1860 میں سر سید نے ’اسباب بغاوتِ ہند‘لکھی۔ جس میں انہوں نے اس بات کو اجاگر کیا کہ بغاوت کے اسباب صرف مسلمانوں کی انگریز دشمنی نہیں تھی بلکہ حکومت میں ہندوستانیوں کی نمائندگی کی کمی، مسلمانوں کو زبردستی عیسائی بنانا اورہندوستانی فوج کا ناقص انتظام جیسے مسئلے اہم تھے۔

1869 میں سر سید کو انگلینڈ جانے کا موقعہ ملا تا کہ وہ وہاں کی یونیورسٹی کے سسٹم کا مطالعہ کریں۔ اس دوران انہیں آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کو بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ جس سے سر سید کافی متاثر ہوئے اور انہوں نے اسی طرز کا ایک یونیورسٹی ہندوستان میں قائم کرنے کا ارادہ کیا۔تاہم سر سید کو اس کام کو شرو ع کرنے کے لئے پہلے ایک اسکول کو قائم کرنا ضروری تھا۔ جس کے لئے  1875 میں انہوں نے علی گڑھ میں محمڈن اینگلو اورینٹل اسکول قائم کیا۔ جسے 1920 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ ملا۔

1985؁ میں جب میں نے ہائرسیکنڈری کے امتحان پاس کئے تو میرے گھر والوں نے بھی مجھے علی گڑھ میں داخلہ دلانے کے لئے میرے بھائی کے ساتھ بھیجا۔ میرا قیام اسٹوڈنٹس ہاسٹل” راس مسعود ہال “میں تھا۔ لیکن بدقسمتی سے مجھے کچھ ہی ہفتوں میں علی گڑھ کے ظالم مچھروں نے اتنا کاٹا کہ مجھے ایک نہیں تین بار ڈاکٹر کے پاس جانا پرا۔ آخر علی گڑھ کے مچھروں کے ظلم سے تنگ آکر میں واپس کلکتہ چلا آیا۔ جس سے میرے گھر والوں کو کافی مایوسی ہوئی۔ لیکن کیاکرتا “جان ہے تو جہان” ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سر سید احمد خان کا نام تب تک قائم رہے گا جب تک دنیا قائم رہے گی۔ انہوں نے تمام تر مخالفت اور نفرتوں کے باوجود علی گڑھ یونیورسٹی کو قائم کر کے اس بات کو ثابت کر دیا کہ وہ مسلمانوں کے ایک سچّے خیر خواہ، مخلص اور ایماندار رہنماتھے۔ جنہوں نے بنا کسی نجی مفاد کے اس کام کو انجام دیا۔ اگر دیکھا جائے تو آج سر سید جیسے لوگوں کی کمی بے حد محسوس کی جاتی ہے۔ کیونکہ زیادہ تر قوم و ملّت کے رہنما اپنی ذاتی زندگی اور اپنی جماعت کے لئے فکر و مند ہوتے ہیں اور وہ ہر بات میں اپنی اور اپنی جماعت کی مفاد کوترجیح دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ جس سے ایسے لوگوں کا نام و نشان مرتے ہی مٹ جاتا ہے۔

Leave a Reply