You are currently viewing خوراک کی ضرورت، غذاکا شوق اور موٹاپا

خوراک کی ضرورت، غذاکا شوق اور موٹاپا

انسان کھانے کے لیے جیتا ہے یا جینے کے لیے کھاتا ہے۔دراصل دونوں ہی باتیں اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں۔ اگر انسان کے لئے کھانا کھانا ضروری نہ ہو تاتو پھر کیوں انسان دن رات محنت کرتا اور گھر آکر کھاناپکانے کی تیاری کرتا یا غذا کا استعمال کرتا۔گویا دونوں ہی صورتوں میں غذا انسان کے لیے اہم  ہے۔

 بیشتر ممالک میں اب بھی عورتیں لذیز پکوان بنا کر اپنے شوہر کو خوش رکھتی ہیں بلکہ اپنی بیویوں کے ہاتھ کے بنے ہوئے لذیز پکوان کو کھاکر زیادہ ترشوہر بھی اپنی بیویوں پر خوب ناز کرتے ہیں۔اس کے علاوہ بچے بوڑھے بھی گھر کی بیوی، بہن، بیٹیوں  سے کھانے کھا کر ڈھیر ساری دعائیں دیتے ہیں اور اکثر محفلوں میں اس بات کا چرچا بھی ہوتا ہے۔ وہیں اکثر کھانا بنانے میں اگر کوئی چوک ہوجاتی ہے یا پسند ناپسند جب بحث ہوتی ہے تو بات طلاق تک بھی پہنچ جاتی ہے۔اسی طرح جینے کے لیے بھی کھانا بہت اہم ہے۔ اگر درست غذا نہ دستیاب ہو تو انسان طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جس سے اس کی جسمانی اور خد و خال پر برا اثر پڑتا ہے۔غذا  میں کمی  یا کھانے کی خرابی کے باعث بعض لوگوں کی طبیعت اتنی بگڑ جاتی ہے کہ انہیں یا تو ہسپتال میں بھرتی کرنا پڑتا ہے یا ان کی موت بھی ہو جاتی ہے۔

یورپ اور برطانیہ میں کھانے سے  دلچسپی نہ  رکھنے کی باعث کئی نوجوان یا تو ہسپتال میں زیر علاج ہیں یا ان کی حالت گوں نا گوں ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ  یہ مسئلہ  مریضوں میں دماغی تناؤ  کی وجہ سے ہوتا ہے۔تاہم اس کا کوئی علاج نہیں  ہے۔  ڈاکٹر ایسے مریضوں کو یا تو ناک سے ٹیوب ڈال کر غذا فراہم کرتے ہیں یا پیٹ میں سوراخ کر کے بھی غذا پہنچائی جاتی ہے۔دونوں ہی صورت میں

 (Eating Disorder)

یعنی کھانے کی خرابی یا نا دلچسپی ہونے کی وجہ سے مریضوں کی شکل  صورت بدل جاتی ہے اور  وزن بہت کم ہوجاتا ہے۔

ایک بات یہ بھی غور کرنے کی ہے کہ بہت سارے لوگ اپنی بیویوں کے عمدہ پکوان  اتنے مگن ہو کر کھاتے ہیں کہ انہیں اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کا پیٹ ان کے سینے کی چوڑائی سے بھی بڑا ہوچکا ہے۔  ایسے لوگ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ جیسے ذیابیطس،بلڈ پریشر، سانس کا پھولنا، دل تک پہنچنے والے نسوں کا بلاک ہونا وغیرہ جیسی بیماریوں میں مبتلا ہو کر انہی لذیز کھانوں سے محروم ہوجاتے ہیں اوران غذاؤں سے پرہیز شروع کر دیتے ہیں۔

ایک بات اور اہم ہے کہ ہم لوگ کس قدر غذا کو برباد بھی کررہے ہیں۔ بیشتر امیر  ممالک میں آئے دن سوشل میڈیا پر  دیکھا جاتا ہے کہ لوگ بڑی مقدار میں خوراک  پھینک رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان ممالک میں بڑے بڑے سوپر اسٹور میں بے حساب طرح طرح کی چیزیں دستیاب ہوتی ہیں۔جسے لوگ شاپنگ کرتے ہوئے بنا سوچے سمجھے  گھر لے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ آبادی کی کمی اور چھوٹے چھوٹے کنبہ والی فیملی میں اتنی مقدار میں غذا  استعمال  نہیں ہوتی۔ لہذا بڑی تعداد میں خوراک کو پھینک دی جاتی ہے۔

ایک عالمی رپورٹ کے مطابق ہر سال 900ملین ٹن سے زیادہ خواراک پھینکی جاتی ہے۔اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے فوڈ ویسٹ انڈیکس نے انکشاف کیا ہے کہ صارفین کو دستیاب دکانوں، گھریلو اور ریستوران کے 17% فی صد کھانے سیدھے  کوڑے دان میں پھینک دیے جاتے ہیں۔تاہم حیران انگیز طور پر برطانیہ میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے کم غذا کوڑے دان میں پھینکی گئی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ ممکن ہے اس کی ایک وجہ لوگوں کی اچھی سوچ اور حالات کے مد نظر ایسا ہوا ہو۔ ایسا قیاس کیا جارہا ہے کہ اس سال کے آخر میں عالمی آب و ہوا اور حیاتیاتی تنوع کانفرنس سے پہلے زیادہ تر ممالک پر دباؤ ڈالا جائے گا کہ 2030تک خوراک ضائع کرنے کو آدھا کیاجائے۔یونیپ کے ڈائریکٹر انگر اینڈرسن کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم آب و ہوا کی تبدیلی، فطرت کو نقصان، آلودگی اور فضلہ سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ  ہیں تو دنیا بھر کے کاروبار، حکومتوں اور شہریوں کو خوراک کا ضیاع کم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا‘۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کھانے کا ضیاع کم کرنے کے لیے، اپنے حصے کی منصوبہ بندی کریں اور صحیح مقدار میں چیزوں کو خریدیں۔فریج کو زیادہ ٹھنڈا نہ کریں۔ کھانے کی تاریخ اگر گزر چکی ہے تو اسے فریزر میں رکھ دینا چاہیے۔ان باتوں کا احساس برطانیہ میں لاک ڈاؤن میں ہؤا۔ لیکن ایسا اندیشہ ہے کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد خواراک کا ضیاع بڑھ جائے گا۔ ایک برطانوی  ریسرچ کے مطابق   اگ صرف وہی کھاناخریدا جائے جس کی  ضرورت ہے  تو برطانیہ میں اوسطاً ہرگھرانہ ہر سال 700پونڈ کی بچت کر سکتا ہے اس تحقیق کے مطابق، لاک ڈاؤن کے دوران اسٹوریج کوکنگ نے 2019 کے مقابلے میں لوگوں کے کھانا ضائع کرنے کی  سطح  22فی صد کم کر دی۔ ’لیکن تازہ ترین بصیرت سے پتہ چلتا ہے کہ جب ہم لاک ڈاؤن سے نکلتے ہیں تو  غذا ضائع کرنے میں اضافے کا امکان ہے‘۔

ایک رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ کووڈ سے مرنے والوں میں زیادہ وزن والے افرادکی تعداد زیادہ ہے۔کووڈ سے برطانیہ اور امریکہ میں زیادہ وزن رکھنے والے افراد میں موت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ورلڈ اوبیسیٹی فیڈریشن نے حکومتوں کو فوری طور پر موٹاپے سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ کورونا ویکسن جلد دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ورلڈ اوبیسیٹی فیڈریشن کی رپورٹ کے مطابق کوویڈ سے ہونے والی 25لاکھ اموات، زیادہ وزن یا موٹاپا تھا۔

بیسویں صدی کے معروف ڈراما نویس، نقاد، ناول نگار، افسانہ نگار، اور نوبل انعام یافتہ جارج برنارڈ شا نے کیا خوب کہا ہے کہ ’کھانے کی محبت سے زیادہ محبت کرنے والا کوئی نہیں‘۔میں جارج برنارڈ شا کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ کھانے کی محبت ایک ایسی محبت ہے جس کا مجھے اعتراف ہے۔ میں نے دنیا بھر کا سفر کیا ہے اور اُن ممالک کی غذاؤں کے ذریعہ میں وہاں کی تہذیب اور ثقافت سے  متعارف ہوتاہوں۔ خواراک کی اہمیت اور اس کے ضائع ہونے کی موضوعات اورموٹاپے کے حوالے سے جو بات آج ہم نے آپ تک پہنچائی ہے، مجھے امید ہے کہ ہم سب غذا کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسے خوامخواہ ضائع  سے گریز کریں گے۔

 اس طرح ممکن ہے دنیا میں بڑھتی ہوئی آلودگی سے ہمیں اور آپ کو کچھ حد تک نجات ضرور ملے۔ ہم سب کو اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ خوراک  ضائع کرنے سے ہمارے ماحول پر اس کا اثر کتنا برا پڑ رہا ہے۔اس کے علاوہ ہمیں اپنی صحت کا خیال رکھتے ہوئے موٹاپے پر نظر رکھنی چاہیے۔کیونکہ مقدار سے زیادہ کھانا اور موٹاپا بھی ایک آفت ہے جو کسی بھی بیماری کی وجہ بن سکتا ہے۔

Leave a Reply