You are currently viewing !جس کی لاٹھی اس کی بھینس

!جس کی لاٹھی اس کی بھینس

آج جب دفتر پہنچا تو کام کی مصروفیت سے ذہن کافی الجھا ہوا تھا۔ دیکھتے دیکھتے گھڑی نے بارہ بجنے کی اطلاع دی اور ہم اپنی میز سے اُٹھ کر اپنی ٹیم کے دوسرے کمرے میں چلے گئے تاکہ آفس سیکریٹری کو کچھ کام کرنے کی ہدایت دیں۔

ابھی میں آفس سیکریٹری کو ہدایت دے ہی رہا تھا کہ اس نے اپنے موبائل کو کھولا اور حیران ہو کر کہا، فہیم کسی نے مجھے واٹس اپ پیغام بھیجا کہ عمران خان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔یہ کہہ کر کر نورین افسردہ ہوگئی۔ نورین جون کا تعلق پاکستان سے ہے اور وہ عیسائی ہے۔ نورین کی ماں ساٹھ کی دہائی میں بطور نرس برطانیہ آگئی تھی۔ نورین لندن میں رہتے ہوئے بھی اب بھی دیگر پاکستانیوں کی طرح اپنے ملک کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی معاملے میں کافی دلچسپی رکھتی ہے۔میں نے نورین سے کہا کہ یہ ایک فیک خبر ہے۔ لیکن جب تھوڑی دیر بعد میں نے سوشل میڈیا پر عمران خان کی گرفتاری کی خبر خود پڑھی تو میرے بھی ہوش ٹھکانے لگ گئے۔اس لئے نہیں کہ میں عمران خان کی پارٹی کا حامی ہوں اور ان کی گرفتاری ہوئی بلکہ مجھے حیرانی اس بات سے ہوئی کہ جس طرح سے انہیں عدالت سے بھاری تعداد میں پولیس والوں نے زبردستی دھکا دیتے ہوئے پولیس وین میں لے کر گئے وہ ایک دہشت ناک منظر تھا۔سابق وزیر اعظم کو اگر اس طرح گرفتار کیا جائے گا تو ظاہر سی بات ہے پولیس کی اس حرکت سے لوگوں کاغصہ بھڑکے گا۔

تھوڑی دیر کے لئے اگر ہم برصغیر کے تین ممالک ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی بات کریں تو دیکھا جارہا ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے وہاں حزب اختلاف سے بدلہ لینے کے لئے حکومت بن رہی ہے۔جو بھی حکومت میں آیا وہ عوام کی سیوا کرنے کی بجائے اسی بات میں لگ جاتا ہے کہ کیسے اپوزیشن کے لیڈر یا ورکر کو ڈرا دھمکا کر ایک ایسا ماحول بنا دے کہ وہاں لوگ خوف زدہ ہو کر خاموشی اختیار کر لیں۔پاکستان میں بدقسمتی سے کئی برسوں سے خوف پیدا کرنے کی روایت کو کبھی سیاسی لیڈران تو کبھی فوجی جنرل اپنی طاقت کی بنا پرحکومت بناتے چلے آرہے ہیں۔یعنی کہ حکومت میں آتے ہی ملک کی ترقی کو بالائے طاق رکھ کر صرف الزام تراشی کر کے بات عدالت تک پہنچ جاتی ہے اور پھر عدالت حکومت کی دباؤ میں آکر جلد بازی میں فیصلہ سنا دیتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عوام کا غصہ بھڑک اٹھتا ہے۔اسی طرح فوجی جنرل بھی جب حکومت سے عاجز آجاتے ہیں تو وہ بھی اپنی بندوق تان کر ملک کی سلامتی کا بہانہ بنا کر حکومت کی باگ ڈور سنبھال لیتے ہیں۔گویا کہ پاکستان کی کمزور جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کی بجائے سب اپنی اپنی مرضی سے حکومت پر قبضہ کرنا فخر سمجھتے ہیں۔

لیکن یہ بات صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ کم وبیش ایسا ہی ہندوستان میں بھی آج کل دیکھنے کو مل رہاہے۔جب سے نریندر مودی ہندوستان کے وزیر اعظم بنے ہیں ہندوستان میں عوام خوف و ہراس کی زندگی گزار رہی ہے۔ کسی کو بھی مجرم بنا کر انکاؤنٹر کیا جارہا ہے تو کہیں سیاستدانوں کو منہ مانگی رقم دے کر حکومت گرا دی جارہی ہے۔مذہب کے نام پر لوگوں کے جذبات سے کھیلا جارہا ہے اور حکومت میں آتے ہی اپوزیشن کے سیاستدانوں خاص کر مسلمانوں کو غبن اور دہشت گردی کا کیس لگا کر انہیں جیل میں ڈالا جارہا ہے۔حال ہی میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کو گجرات کی عدالت نے ایک کیس میں انہیں مجرم قرار دیا اور جس کی بنا پر ان کی پارلیمانی رکنیت کو معطل کردیاگیا۔

یہی حال بنگلہ دیش کی سیاست کا ہے جہاں آئے دن اپوزیشن کے لوگ جیل جارہے ہیں اور حکومت خالی میدان میں اپنی کامیابی کا راگ الاپ رہی ہے۔ جبکہ حقائق کچھ اور ہی بیان کر رہے ہیں۔حزب اختلاف کی رہنمابیگم خالدہ ضیا پر کرپشن کے کیس کی بوچھاڑ اس طرح سے ہوئی ہے کہ انہیں بھی بدعنوانی کے کیس میں جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔تاکہ وہ سیاست سے دور رہے اور حکومت اپنی من مانی کرتی رہے۔

دراصل یہ پورا معاملہ ہی کافی پیچیدہ ہے۔ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں زیادہ تر سیاستدانوں پر مقدمے چل رہے ہیں یا ان کے خلاف کسی فرد نے کیس کر رکھا ہے۔اب سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ آخر سچ کون بول رہا اور جھوٹا کون ہے۔ جیسا کہ پاکستان میں ہورہا ہے۔ عمران خان کی حکومت بنی تو سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف کیس بنائے گئے اور وہ  مجبور ملک چھوڑ کر ہی بھاگ گئے۔ جب پرویز مشرف نے فوجی حکومت قائم کی توانہوں نے سعودی عرب میں پناہ لی اور جب عمران خان وزیراعظم بنے توانہوں نے بیماری کا بہانہ بنایا اور لندن آگئے اور سکون کی زندگی گزار رہے ہیں۔اس سے قبل سابق وزیراعظم بھٹو کو بھی بدعنوانی اور قتل کے معاملے میں پھانسی دی جا چکی ہے۔

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان نے بڑھتی ہوئی سیاسی اور معاشی غیر یقینی صورتحال کا سامنا کیا ہے۔ جس میں ضروری اشیاء کی مہنگائی، دہشت گردی کے حملوں میں اضافہ اور وزیر اعظم عمران خان کی پارلیمانی ووٹ میں عدم اعتماد سے بر طرفی شامل ہے۔ اسی دوران یہ بات بھی کہی جانے لگی کہ عمران خان کے کچھ قومی اسمبلی کے ممبران نے بھاری رقم کی عوض میں اپوزیشن اتحاد کے ساتھ ہاتھ ملا کر عمران خان کی حکومت کو بے دخل کر دیا۔ جس کے بعد عمران خان نے مسلسل تحریک چلاتے ہوئے حکومت کو نشانہ بناتے رہے۔ بڑے بڑے جلسوں کا اہتمام ہوا اور لوگ بھاری تعداد میں عمران خان کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے۔لیکن عمران خان بار بار یہ دہراتے رہے کہ حکومت انہیں گرفتار کرنے کے لئے عدالت اور فوج کو اپنے ساتھ  ملا لیاہے اور انہیں اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ کہیں ان کی جان نہ لے لی جائے۔کہیں نہ کہیں اس بات کا اندازہ ہورہا تھا کہ عمران خان گرفتار ہوں گے اور ان پر حملہ بھی ہوگا۔ تاہم کچھ مہینے قبل ایک جلسے کو خطاب کرتے ہوئے چند نوجوانوں نے عمران خان پر گولی بھی چلائی تھی۔ جس سے عمران خان زخمی ہوگئے تھے۔

آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ مجھے نہیں لگتا کہ اس مسئلے کا کوئی حل ہے۔ کیونکہ برصغیر کی سیاست اتنی کرپٹ ہوچکی ہے کہ جو بھی حکومت سنبھالتا اسے اسی بات کی پرواہ رہتی کہ کس طرح اپوزیشن کو ہراساں کرنے کے لئے ان پر مقدمات چلائی جائے اور انہیں اس کی سزا ہو۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سیاستدانوں کے بدلہ لینے اور ماحول کو خوف زدہ کرنے کی کوشش میں بیچارے عوام نہ اِدھرکے اور نہ اُدھر کے رہتے ہیں۔الزام تراشی کایہ طریقہ اتنا آسان ہوگیا ہے کہ ان ممالک میں سواے اپوزیشن سے بدلہ لینے کے علاوہ اور کچھ رکھا ہی نہیں ہے۔یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ کہہ رہا ہے۔

میں نے اس بات کو محسوس کیا ہے کہ بدلے کی سیاست میں بیچارے عوام ہی گھاٹے میں رہتے ہیں جو انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں تاکہ آنے والی حکومت ان کے مسائل کو حل کرے  اور ملک ترقی یافتہ ہو۔ ایسی حکومتیں تمام  مقاصد میں  ناکام ہوتی ہیں اور ملک کی معاشی صورتِ حال تباہ و بربادہوجاتی ہے اوراس کے عوض میں عوام کو مہنگائی، بدحالی، بے روزگاری، غربت اور ذلت کا سامنا کرنا پڑتاہے۔

Leave a Reply