You are currently viewing تکبر کی ہار

تکبر کی ہار

فرعون تاریخی اور مذہبی نقطہ نظر سے دنیا بھر میں جانا پہچانا جاتا ہے۔ قرآن میں بنی اسرائیل کے قصہ میں فرعون کا ذکر آتاہے۔ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے فرعون کا تکبر اور اس کے قصے تاریخ اور ادب میں کافی مشہور ہے۔

قرآن میں ذکر ہے کہ موسی علیہ السلام نے فرعون کو اپنی رسالت کی نشانیاں دکھائیں مگر فرعون اتنا مغرور تھا کہ اس نے ماننے سے انکار کر دیا۔ جب بنی اسرائیل کو اللہ نے آزاد کیا اور جزیرہ نمائے سینا کی طرف لے گئے تو بالآخر فرعون پانی میں ڈوب کر مر گیا۔ فرعون کا گناہ یہ تھا کہ اپنے آپ کو خدا کے برابر سمجھا اور اس کے نتیجہ میں اللہ نے فرعون کو آنے والی نسلوں کے لیے مثال بنادیا۔آج بھی جب کوئی ظالم یا مغرور سر اٹھاتا ہے تو ہمیں فوراً فرعون کی یاد آنے لگتی ہے۔

تکبر ایک عام مسئلہ ہے جو ہم سب میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ تکبر کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں، جس میں خود خواہی، انانیت اور پرور دگار عالم کی عظمت اور کبریائی کو چیلنج کرنا ہے۔کچھ لوگوں میں اعلیٰ علم کا تکبر پایا جاتا ہے تو بعض لوگ اپنے نیک اعمال اور عبادات کی وجہ سے تکبر جیسی پستی میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔بعض لوگ اپنے حسب و نسب کی وجہ سے تکبرمیں مبتلا ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے رشتہ داروں کے اعلیٰ علم، دولت مند سیاستدان،اورطاقتورانسان وغیرہ کی وجہ سے دوسروں پر اپنی برتری جتاتے ہیں۔ اس کے علاوہ حسن و جمال، دولت،  طاقت،اولاد، اورقوم و خاندان وغیرہ بھی کبھی کبھی تکبر کی وجوہات بن جاتی ہیں۔

میں نے اس بات کو عام طور پر محسوس کیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اعلیٰ تعلیم، دولت، عہدے اور سابق عہدے کا تکبر بہت زیادہ ہے۔ اور اسی بنا پر کچھ لوگوں کو کسی تقریب میں بلا کر ان کی پزیرائی بھی کی جاتی ہے اور انہیں اسٹیج پر بٹھا کر ان کا تعارف کروایاجاتا ہے۔یوں تو بات کوئی غلط بھی نہیں ہے۔ کیونکہ ایسے لوگ اپنے عہدے سے ہی پہچانے جاتے ہیں تو ایسا کرنا کوئی مجبوری نہیں بلکہ ان کا احترام بھی ہے۔لیکن جب یہی احترام عہدے والے شخص کے لیے تکبر بن جاتا ہے تو پھر ہم سب اس کا خمیازہ بھگتتے ہیں۔اب اسے ہم معاشرے کی روایت، عہدے کا احترام، سیاستدان کی طاقت یا لوگوں کی گمراہی کہیں یا سماج کی بے بسی کہیں۔خیر میں نے برصغیر میں اس روایت کو بڑھتے ہی دیکھا ہے اور اب تو اس کا زور اتنا زیادہ ہوگیا ہے کہ عام انسان کا جینا دو بھر ہوچکا ہے۔

 ہسپتال کے کینٹین میں بیٹھا لندن کے وقت کے مطابق دو بجے اپنے موبائل پر این ڈی ٹی وی کی خبروں پر نظر ڈالی تو پورے موبائل پر بھارتی وزیراعظم کی تصویر کو دیکھ کر منہ کلیجے کو آگیا کہ کہیں مہاشے’رام رام ست تو نہیں ہوگئے‘۔ جب پوری خبر پڑھی تو جان جان میں آئی کہ حضرت زندہ ہیں اور اپنے انداز میں زرعی قوانین کو ملتوی کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔سچ بتاؤں،خوشی سے تو میں بھی جھوم اٹھا۔ کیوں نہ خوش ہوں، پہلی بار بھارتی وزیر اعظم مودی کو پیچھے ہٹتے دیکھ رہا ہوں۔ لیکن میں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ نہ جانے کیوں مجھے حضرت کی نیت میں کھوٹ نظر آرہا ہے۔بس فوراً جل تو جلا ل تو،آئی بلا کوٹال تو‘بھی پڑھنا شروع کر دیا۔

19 نومبر کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہاتھ جوڑتے ہوئے ایک تصویر دنیا بھر میں دکھائی جارہی تھی۔مودی نے ایک حیران کن اعلان میں کہا کہ’ہم نے تین زرعی قوانین کو واپس لے لیا ہے۔‘ جس کی وجہ سے ان کی حکومت کے خلاف لگ بھگ ایک سال سے کسان احتجاج کر رہے تھے اور اب تک بدامنی پھیلی ہوئی ہے۔ویسے دیکھا جائے تو ہندوستانی کسانوں کے لیے یہ ایک بہت بڑی فتح ہے۔ جسے کسان ’کالا قانون‘ مان رہے تھے۔  وزیراعظم مودی نے مزید یہ بھی کہا کہ ’ہم نے زرعی کے تینوں قوانین کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ہم اس ماہ کے آخر میں شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے اجلاس میں تینوں قوانین کو منسوخ کرنے کے لیے آئینی عمل شروع کریں گے‘۔ نہ جانے کیوں بھارتی وزیراعظم کی باتوں پر ایک پل بھی یقین نہیں ہورہا ہے۔ اور اب تو آنے والے ہر دن بس یہی دعا کرنی ہے کہ کسان خوش وخرم واپس اپنے کھیتوں کو لوٹ کر پھر سے فخر سے ہندوستانیوں کے لیے اناج اگائیں۔تاہم حکومت کی نئی زرعی قوانین ہندوستان کے لاکھوں کسانوں کے درمیان تیزی سے تنازعہ بن گیاتھا۔ کسانوں نے حکومت پربغیر مشاورت کے قوانین پاس کرنے کا الزام لگایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اصلاحات نے ان کی روزی روٹی اور کھیتوں کو خطرے میں ڈال دیا اور نجی کمپنیوں کو ان کی فصلوں کی قیمتوں پر کنٹرول مل جائے گا۔ جس سے وہ چھوٹے کسانوں کو کچل سکتے ہیں۔

ہندوساتی وزیراعظم مودی نے زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کے اعلان کے ساتھ یہ بھی کسانوں کو مشورہ دے دیا کہ ’میں ان تمام احتجاجی کسانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اب وہ اپنے گھر، اپنے پیاروں، اپنے کھیتوں اور خاندان کے پاس واپس جائیں۔ آئیے ایک نئی شروعات کریں اور آگے بڑھیں‘۔ تاہم وزیراعظم مودی اس بات پر بھی اٹل رہے کہ زرعی قوانین ضروری اصلاحات ہیں اور انہوں نے تسلیم کیا کہ کسانوں کی شدید مخالفت کے پیش نظر یہ ناقابل عمل ہیں۔یعنی کہ زرعی قوانین منسوخ تو کر رہے لیکن اس ہٹ دھرمی کے ساتھ کہ ہماری نیت میں اب بھی کھوٹ ہے۔ورنہ کیا ضرورت تھی اس بات کو کہنے کی۔ یوں بھی وزیر اعظم مودی کو تو پچھلے کچھ برسوں سے اسی بات کی غلط فہمی تھی اور ان کے تکبر نے ان کے سینے کوپھلاکر چھپن انچ کا بنا دیا ہے۔جس کا علم دنیا بھر کے لوگوں کو ہیں۔

گزشتہ سال ہندوستانی حکومت کی جانب سے زرعی قوانین کو منسوخ کرنے سے انکار کے بعد، لاکھوں کسانوں نے دہلی کی سرحدوں کی طرف مارچ کیا،ان کسانوں کوراستے میں روکنے کے لیے،پولیس نے آنسو گیس اور واٹر کینن کا بھی استعمال کیا گیا۔تاہم ہندوستانی کسانوں نے حکومت کی ہٹ دھرمی اور پولیس کی بربریت کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے اور سردی، گرمی اور کورونا کی لہر کے باوجود اپنا احتجاج جاری رکھا۔جس کی وجہ سے سات سو سے زائد کسانوں کی موت بھی ہوگئی۔ایک افسوس ناک بات یہ دیکھی گئی کہ ہندوستان کے بکے ہوئے میڈیا جسے ’گودی میڈیا‘ بھی کہا جاتا ہے انہوں نے کسانوں کے احتجاج کی خبروں کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جس پر دنیا بھر میں اس پر افسوس جتایا گیا۔تاہم سوشل میڈیا نے کسانوں کے احتجاج کو گھر گھر پہنچاکر عام لوگوں کی حمایت اکٹھا کر لی جو کہ ایک قابلِ ستائش بات ہے۔

ہندوستانی کسانوں کو ہندوستان کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی کافی حمایت ملی۔ جس میں معروف سنگر ریحانہ، اور ماحولیاتی نبرد آزماگریٹا تھنبرگ سمیت کئی شخصیات نے ہندوستانی کسانوں کی کھل کر حمایت کی تھی۔ جس سے ہندوستانی حکومت کی ناراضگی بہت زیادہ تھی۔اس کے علاوہ دنیا بھر میں بسے ہندوستانیوں نے بھی اپنے اپنے طور پر کسانوں کی حمایت میں اپنے ایم پی کو خط لکھ کر تشویش کا اظہار کیا۔بلکہ برطانوی پارلیمنٹ میں تو ایک دفعہ ایک ایشیائی ایم پی نے ہندوستانی کسانوں کے احتجاج اور ہندوستانی حکومت کی ہٹ دھرمی پر سوال بھی اٹھائے تھے۔ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کا زرعی قوانین کو ملتوی کرنا ہندوستانی کسانوں کے لیے تو ایک اچھی خبر ہے ہی تاہم یہ جمہوریت کے لیے بھی ایک مثبت قدم ہے۔لیکن میں چاہوں گا کہ ہندوستان کا متنازعہ سی اے اے شہری قوانین کو بھی واپس لیا جائے جس میں مسلمانوں کو خاص نشانہ بنایا جارہا ہے اور کئی صوبوں میں ہراساں اورمارا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں کے علاوہ دنیا بھر کے لوگوں میں مودی حکومت کے خلاف غم و غصہ  ہے۔

میں ہندوستانی وزیراعظم سے براہ راست اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے تکبر اور مذہبی جنون کوچھوڑ کر انسانیت اور ہندوستان کے عام لوگوں کا خیال رکھتے ہوئے ملک کی سلامتی اور امن کو قائم کرنے میں سبھی کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے اپنے رویے میں تبدیلی لائیں۔ تبھی ہندوستان کے زخم کو بھرا جا سکے گا ورنہ جب فرعون ڈوب سکتا ہے تو آپ حکمراں کیا چیز ہیں۔

Leave a Reply