You are currently viewing بی بی سی ورلڈ سروس 90برس کی ہوگئی

بی بی سی ورلڈ سروس 90برس کی ہوگئی

یہ بی بی سی لندن ہے اب آپ رضا علی عابدی سے خبریں سنیے‘۔آپ میں سے بہت لوگوں  نے آواز ریڈیو پر سنی ہوگی۔اگر ستّر اور اسّی کی دہائی میں آپ نے بی بی سی کی نشریات سنی ہوں  تو ایسا ناممکن ہے کہ آپ رضا علی عابدی کے نام اور ان کی آواز سے واقف نہ ہوں۔

 1990 میں دوردرشن کلکتہ نے مرکزی حکومت کی منظوری کے بعد پانچ منٹ کی اردو خبروں کی سروس کے آغاز کا اعلان کیا۔ میں نے بھی  اردو نیوز پڑھنے کی درخواست ڈال دی۔لیکن مسئلہ تھا کہ کس طرح اردو خبریں پڑھی جائیں۔ تبھی ایک صاحب کے مشورے پر ہم نے بی بی سی ورلڈ سروس پر اردو خبروں کو سننا شروع کیا۔ تاہم بی بی سی اردو خبروں کو سننے کے لیے مجھے گھر کی چھت پر رات آٹھ بجے جانا پڑتا تھا۔ جہاں بڑی مشکل سے ریڈیو پر خبر سن پاتا تھا اور مجھے اس بات کایقین ہوچلا تھا کہ میرا دوردرشن میں خبر پڑھنے کے لیے انتخاب ہوجائے گا۔یہ الگ بات ہے کہ اثرورسوخ نہ ہونے کی وجہ سے مجھے ہندوستان کے دوردرشن ٹی وی پر خبر پڑھنے کا موقع نہ مل پایا۔خیر یہ نہ تھی ہماری قسمت۔

آئیے بات کرتے ہیں بی بی ورلڈ سروس کے نوے برس کی۔ اس کا آغاز 1932 میں ’بی بی سی ایمپائر سروس‘کے طور پر ہوا۔ جو برطانوی ولی عہد کے زیر اقتدار دور دراز علاقوں تک گلوب گرڈلنگ شارٹ ویو کے ذریعے ریڈیو نشریات کرتا تھا۔اس کے بعد، جو اب بی بی سی ورلڈ سروس ہے وہ جنگ کے وقت کی تحریک اور دوسری جنگِ عظیم میں نازیوں کے زیر قبضہ یورپ کے لیے پیغامات اور سوویت یونین کے زیر نسلط ریاستوں کے لیے خبروں کی ایک قابل اعتماد آواز کے طور پر کام کیا۔ آج  بی بی سی ورلڈ سروس ایک بار پھر یوکرین اور روس کے خبروں کی نشریات کے ساتھ جنگ زدہ یورپ کی خدمت کر رہا ہے۔

1989 میں دیوار برلن کے گرنے اور سیٹلائٹ ٹیلی ویژن اور پھر ویب سائٹ کے عروج کے بعد بی بی سی ورلڈ سروس نے کافی جدوجہد بھی کی۔ لیکن ان تمام تبدیلیوں کے باوجود ایک چیز جو برسوں سے مستقل رہی ہے وہ ہے آزاد خبروں کے لیے بی بی سی کا عزم۔ ڈاکٹر کم اینڈ ریو ایلیٹ، جو کہ وائس آف امریکہ کے تحقیقی تجزیہ کار اور میزبان ہیں انہوں نے کہا کہ ’یقینی طور پر دوسری جنگ عظیم کے دوران بی بی سی یوروپی سروسز میں متعصبانہ تبصرے تھے، لیکن خبریں زیادہ تر حقائق پر مبنی رہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے بی بی سی ورلڈ سروس جامع اور معروضی خبروں کے لیے منفرد اور بھروسے مند نام رہی ہے‘۔

دسمبر 1932 میں بی بی سی ورلڈ سروس کے آغاز کو دنیا بدلنے والی بات کے طور پر خوش آمدید نہیں کہا گیا۔ درحقیقت، اس وقت بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل جان ریتھ نے پیشن گوئی کی تھی کہ ’پروگرام نہ تو بہت دلچسپ ہوں گے اور نہ ہی بہت اچھے۔‘تاہم نوے سال بعد بی بی سی ورلڈ سروس نے ثابت کہا ہے کہ جان ریتھ کی بات  غلط تھی۔اب تو بی بی ورلڈ سروس موبائل پر دیکھا اور سنا جارہا ہے۔ مثلاً بی بی سی ورلڈ سروس کی اردو خبریں آپ فیس بُک، انسٹا گرام سے لے کر سوشل میڈیا پر بہ آسانی دیکھ سکتے ہیں۔ شاید بی بی سی بھی یہی چاہتی ہے کہ بی بی سی ورلڈ سروس زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے تاکہ بی بی سی ورلڈ سروس کی عمر نوے سال سے بڑھ کر نو سو سال ہوجائے۔

میں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بی بی سی کا خرچ برطانیہ کے شہری اٹھاتے ہیں۔جسے انہیں بی بی سی لائسنس فیس کے طور ادا کرنا پڑتا ہے۔تاہم چند سال قبل حکومت نے یہ اعلان کیا تھا کہ پچھتر سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کے لئے لائسنس فیس اب بی بی سی برداشت کرے گاجبکہ اس سے پہلے حکومت خود اس کو برداشت کرتی تھی۔ حکومت کے اس اعلان سے اپوزیشن اور تنقید نگاروں نے خوب واویلا مچایا تھا۔ اس کے علاوہ حکومت نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ آئی پلیر رکھنے والوں کو بھی اب لائسنس فیس بھرنی ہوگی اور لائسنس فیس افراط زر کی شرح کے مطابق بڑھائی جائے گی۔

بی بی سی برطانیہ کا ایک پبلک براڈکاسٹر ہے جس کا ہیڈ کواٹر براڈکاسٹنگ ہاؤس لندن میں ہے جو کہ برطانوی حکومت کی طرف سے خارجہ سیکریٹری کے دفتر کے ذریعے فنڈنگ ہوتی ہے۔اس کی شروعات 18اکتوبر 1922کو ہوئی تھی۔یہ دنیا کی سب سے پرانی براڈکاسٹنگ تنظیم ہے اور کام کرنے والوں کے تعداد سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا براڈکاسٹر ہے جس میں لگ بھگ بیس ہزار لوگ کام کرتے ہیں۔بی بی سی کی آمدنی لوگوں کی لائسنس فیس سے ہوتی ہے۔ اس کے فیس برطانوی حکومت طئے کرتی ہے اور جس کو پارلیمنٹ میں پاس کرایا جاتا ہے۔ بی بی سی ثقافتی سیکریٹری آف اسٹیٹ کے ماتحت کام کرتی ہے۔

بی بی سی ورلڈ سروس ایک بین الاقوامی براڈ کاسٹر ہے جس کی ملکیت اور بی بی سی کی طرف سے چلایا جاتا ہے۔1932 میں بی بی سی کی ورلڈ سروس کو شروع کیا گیا تھا جو دنیا کی چالیس زبانوں میں اپنا پروگرام پیش کرتے ہیں ان میں اردو، ہندی،عربی، پشتو اور فارسی زبان کافی مقبول ہیں۔زبان کے انتخاب اور سامعین کی رسائی کے لحاظ سے یہ دنیا کا سب سے بڑا بیرونی براڈ کاسٹر ہے۔یہ اینالاگ اور ڈیجیٹل، شارٹ ویو، انٹر نیٹ، پوڈ کاسٹنگ، سیٹالئٹ، ڈی اے بی، ایف ایم اور ایم ڈبلو ریلے پر دنیا کے کئی حصوں میں 40سے زیادہ زبانوں میں  خبریں  اور مباحثے نشر کرتا ہے۔ 2015میں ورلڈ سروس ایک ہفتے میں ٹی وی، ریڈیو اور آن لائن کے ذریعے اوسطاً 210ملین لوگوں تک پہنچی۔نومبر 2016  میں بی بی سی نے اعلان کیا کہ 1940 کی دہائی کے بعد اپنی سب سے بڑی توسیع میں، امہاری، اور ایگبو سمیت اضافی زبانوں میں نشریات شروع کرے گا۔جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ بی بی سی ورلڈ سروس کی مقبولیت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔برطانوی وزیراعظم بورس جونسن نے روس اور یوکرین کی جنگ کی خبر کو روسی اور یوکرینی زبان کی خدمت کی حمایت میں 41لاکھ پاؤنڈ کا اضافی فنڈ دینے کا اعلان کیا ہے۔

بی بی سی ورلڈ سروس کی مقبولیت اور اس کی پہچان مجھے کلکتے سے ہوئی ہے۔ میں نے اکتیس اکتوبر1984میں پہلی بار بی بی سی ریڈیو پر اندرا گاندھی کی موت کی خبر سنی تھی تومجھے اس وقت بی بی سی کی خبرکی اہمیت کا احساس ہوا تھا۔جب ہندوستان میں اندرا گاندھی کی موت کی خبر کی افواہیں گرم تھیں اور کوئی بھی نیوز ایجنسی اندرا گاندھی کی موت کی تصدیق نہیں کر پارہی تھی تو اس وقت بی بی سی کے ورلڈ سروس نے اندرا گاندھی کی موت کی خبر سنا کر اس بات کو ثابت کردیا تھا کہ ان کے پاس خبریں مستند ہوتی ہیں۔ میں لندن میں ابھی بھی سوشل میڈیا کے ذریعہ بی بی سی کی اردو سروس سنتا رہتا ہوں۔ اس کے علاوہ بی بی سی ار دو سروس سے سیر بین بھی مجھے بے حد پسند ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بی بی سی ورلڈ سروس نے آج بھی دنیا بھر میں خبروں کے معیار کے لیے ایک مقام بنا رکھا ہے۔دیوار برلن کے انہدام کے بعد سے دنیا کے اندر جو کچھ ہورہا ہے اسے لوگوں تک پہچانے میں اس کی ایک مختلف مطابقت رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیا بی بی سی ورلڈ سروس پر ناز کرتی ہے۔میں بی بی سی ورلڈ سروس کو نوے سال مکمل ہونے پر ڈھیروں بدھائی دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ بی بی سی ورلڈ سروس ایمانداری، آزادی، اوربنا تعصب کے خبریں دنیا بھر کے لوگوں تک پہنچاتی رہے گی۔ جیسا کہ پچھلے نوے سال میں کرتا رہا ہے۔

Leave a Reply