You are currently viewing بھارت میں اسلاموفوبیا کی وسیع مذمت

بھارت میں اسلاموفوبیا کی وسیع مذمت

ہم اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم انسان ہیں اور ایک انسان کسی دوسرے انسان سے محض مذہبی نقطہ نگاہ سے نفرت یا عداوت رکھتا ہے، تو مجھے یہ بات کہنے میں کوئی جھجھک نہیں ہو رہی کہ نفرت رکھنے یا کرنے والا انسان کا کوئی مذہبی عقیدہ ہے ہی نہیں ہے۔

کیا آپ نے کبھی اپنے آپ سے پوچھا ہے کہ میں فلاں سے نفرت کیوں کرتا ہوں؟ کیا یہ اس لیے ہے کہ آپ ان سے خوفزدہ ہیں؟ کیا آپ کو ان کے لیے کوئی احساس نہیں ہے؟ چونکہ آپ کو یقین ہے کہ وہ کسی بھی چیز سے کم کے مستحق نہیں ہیں یا یہ اس وجہ سے ہے کہ آپ ناراض ہیں؟ یا آپ کیوں ان کے خلاف تشدد کا استعمال کرتے ہیں؟  قرآن ہمیں ان گھٹیا جذبات پر قابو پانے میں مدد کرنے کے لیے ایک خوبصورت دعا سکھاتا ہے، “اے رب، نفرت کو ہمارے دلوں میں جڑ نہ پکڑنے دے، اے رب تو رحم کرنے والا اور خیال رکھنے والا ہے”(الحشر:۰۱)۔

ہمیں اس نفرت کی بیماری سے نمٹنے کے لیے امید اور دعا کی ضرورت ہے۔پوری دنیا میں سیاسی پولرائیزیشن خوفزدہ کر رہی ہے، انتہاپسند دائیں اور انتہائی بائیں بازو ایک دوسرے کے خلاف اپنے خیمے گاڑ رہے ہیں۔ یہ سیاسی پولرائیزیشن مذہبی تعصب اور انتہا پسندی کو ہوا دے رہی ہے۔ امید اور اعتماد ایک ہم آہنگ معاشرے کی بنیاد ہیں۔ لوگوں کے درمیان اعتماد مشترکہ انسانیت کو سمجھنے اور اپنے اختلافات کو قبول کرنے سے آتا ہے۔

ہندوستان میں ان دنوں مذہبی نفرت اور تعصب سے منسلک ایک معاملہ سامنے آیا ہے جس سے پوری دنیا کہ مسلمانوں میں غم و غصہ پایا جارہا ہے۔ چند دن پہلے ہندوستان کے دائیں بازو کے نیوز چینل ٹائمز ناؤ 1پر ایک ٹیلی ویژن مباحثے میں نوپور شرما نے مسلمانوں کی عبادت اور پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز تبصرے کیے اور ان کی مسلم بحث کا مذاق اڑایا۔جس کے بعد ہندوستان کے معروف شہر کان پور میں احتجاج کے دوران پولیس نے مسلمانوں کو مارا پیٹا جس سے ہندوستان کے کئی شہروں مسلمانوں نے اپنے رنج و غم کا اظہار کیا۔

لیکن یہ معاملہ اس وقت پوری دنیا کے توجہ کا مرکز بن گیا جب ہندوستانی حکومت خلیجی ریاستوں کے ساتھ سفارتی تنازع میں الجھ گئی ہے۔ جب حکمراں جماعت کے دو ترجمانوں پر پیغمبر اسلام کی توہین کتنے والے اسلاموفوبک اور توہین آمیز تبصرے کر نے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔تو کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ ایک عرصے بعد یا شاید پہلی بار خلیجی ممالک یا مسلم آبادی والے ممالک نے یکجا ہو کر “توہین اسلام اور توہین محمدﷺ”کی مذمت کی ہے۔ جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو محسوس ہورہا ہے کہ ان کے اندر ایک نئی روح پھونک دی گئی ہے اور اب وہ “بے یارو مددگار نہیں ” ہیں۔جس سے ممکن ہے اسلاموفوبیا رکھنے والوں میں بے چینی ہورہی ہوگی۔

اس کے بعد حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اپنے قومی ترجمان نوپور شرما کو معطل کر دیا اور دہلی میڈیا کے سربراہ نوین کمار جندال کے تبصرے مشرق وسطیٰ میں وائرل ہونے کے بعد انہیں بھی نکال دیا گیا ہے۔ قطر، کویت، ایران، سعودی عرب، عمان، افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں نے ان تبصروں کو “توہین آمیز” قرار دیا ہے۔یہ سفارتی واقعہ اس وقت پیش آیا جب ہندوستان کے نائب صدر ایم وینکیا نائیڈو نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے قطر کا دورہ کیا۔ تاہم وہیں نوپور شرما اور جندال کو نکالنے کے فیصلے کو بی جے پی کے کچھ حامیوں کے غصے کا سامنا کرنا پڑا، جنہوں نے اس فیصلے کو “بزدلانہ”قرار دیا۔ اس دوران ایک ویڈیو آن لائن گردش کرتی ہوئی پائی گئی جس میں عسکریت پسند ہندو توا رہنما یتی نرسنگھ نند پیغمبر محمد کے بارے میں اپنے تبصروں کو دوگنا کرتے ہوئے تمام مسلمانوں کو “مجرم”کہہ رہے ہیں۔

قطر میں ہندوستانی سفیر دیپک متل کو طلب کیا گیا اور انہیں قطر کی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اور ہندوستان میں حکمراں جماعت کے ایک عہدیدار کی طرف سے پیغمبر اسلام کے خلاف کئے گئے متنازعہ ریمارکس کو مکمل طور پر مسترد اور مذمت کا اظہار کرتے ہوئے سرکاری سر زنش کی گئی۔قطر نے ہندوستانی حکومت سے “تشدد اور نفرت”کو ہوا دینے کا الزام لگاتے ہوئے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔قطر کے معاون وزیر لولواح الخطر نے کہا کہ ہندوستان اسلاموفوبک گفتگو کی “خطرناک سطح “پر پہنچ رہا ہے۔ کویت کی وزارت خارجہ نے اپنے ہندوستانی سفیر سبی جارج کو بھی طلب کرکے بی جے پی ترجمان کے “توہین آمیزبیانات کی سختی سے تردید اور مذمت “کا اظہار کیا۔عمان کے مفتی اعظم احمد بن حمد الخلیلی نے سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے “اسلام کے پیغمبر کے خلاف ہندوستان میں حکمراں جماعت کے سرکاری ترجمان کی گستاخانہ اور فحش حرکت”کی مذمت کی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ایک رپورٹ چند ہفتے جاری کی گئی تھی جس میں ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کے قتل، حملوں، اور دھمکیوں کو دستاویزی شکل دی گئی تھی۔ جس کے فوراً بعد بھارتی حکومت نے جواب میں اس رپورٹ کو “غلط معلومات”اور “متعصب”قرار دیا۔جس سے صاف بھارتی حکومت کی بوکھلاہٹ ظاہر ہورہی ہے اور کہیں نہ کہیں اس بوکھلاہٹ کے پیچھے وہ لوگ شامل ہیں جنہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ “چور کی داڑھی میں تنکا”۔

دیکھا جائے تو بی جے پی نے جب سے ہندوستان کی سیاست میں اپنا کھاتا کھولا ہے اس کا ہمیشہ ایک ہی مقصد رہا ہے کہ ہندو اور مسلمانوں کے بیچ دراڑ ڈالی جائے اور ہندوستان میں حکومت کی جائے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستان میں مذہبی پولرائزیشن میں اضافہ ہوا ہے۔اور گزشتہ چند ہفتے خاص طور پر اس وقت ماحول اس وقت کشیدہ ہوئے جب کچھ ہندو گروپ وارانسی کی ایک مقامی عدالت میں صدیوں پرانیگیان واپی مسجد میں پوجا کرنے کی اجازت لینے گئے اور یہ دعویٰ کیا کہ مسجد ایک منہدم مندر کے کھنڈرات پر بنائی گئی ہے۔اس دوران ٹی وی چینلز نے اشتعال انگیز بحث کی ہیں اور سوشل میڈیاپر اس معاملے پر بے تحاشہ نفرت دیکھی گئی۔دائیں بازو کی تنظیموں سے وابسطہ بہت سے لوگ اکثر ٹی وی شوز میں متنازعہ بیانات دیتے ہوئے پائے گئے۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ نبی کریم ﷺ کی محبت، کسی بھی چیز کی محبت سے زیادہ شدید، گہری اور مضبوط ہونی چاہیے۔عشق رسول ﷺ اسلام کا بنیادی جز ہے، خود رسولﷺ نے اعلان فرمایا: “تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں، تم پر، تمہارے والدین، اولاد اور باقی انسانیت سے زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں “(بخاری)۔ علامہ اقبال نے اسلام سے اپنی محبت اور فہم کو اسی عشق رسول سے منسوب کیا۔ انہوں نے کہا: “مغربی دنیا نے مجھے بالکل متاثر نہیں کیا، میری آنکھیں مدینہ کی خاک سے بھر گئیں “۔ ان کا عقیدہ تھا کہ عشق رسول ﷺ وہ توانائی بخشتا ہے جو اہل ایمان کو صراط مستقیم پر گامزن کرتا ہے، معاشرے کے برے اثرات، انا کے فریب اور شیطان کے پھندوں سے بچاتا ہے۔

میری دعا ہے کہ اللہ ہمارے دلوں سے عشق رسولﷺ کو کبھی ختم نہ کرے اور ہمارے درمیان عشق رسول کے ذریعہ ایک اللہ کی عبادت،آپس میں اتحاد و اتفاق، غیر اقوام کے ساتھ اتحاد، محبت کی تعلیم، امن،سادگی، خلوص، بھائی چارگی، قوم و ملت کا ہمدرد، معاف کرنے والا، بنائے رکھے تاکہ لوگوں میں عشق رسولﷺاور انسانیت قائم رہے۔

Leave a Reply