You are currently viewing برطانیہ کی نئی وزیر اعظم کو سنگین مسائل کا سامنا ہوگا

برطانیہ کی نئی وزیر اعظم کو سنگین مسائل کا سامنا ہوگا

ہفتوں سے قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ آخر کون بنے گا برطانیہ کا نیا وزیراعظم۔اس کی ایک وجہ رشی سونک کا وزیراعظم کی دوڑ میں شامل ہونا تھا۔ چونکہ رشی سونک کے والدین ہندوستانی ہیں جس سے ایسی چہ میگوئیاں بھی ہونے لگی تھی کہ کیا یہ ممکن ہے کہ برطانیہ کا پہلا ہندوستانی نژاد وزیر اعظم رشی سونک بن جائے۔

تاہم ایگزٹ پول شروع سے ہی لیز ٹرس کی کامیابی بتا رہا تھا۔پھر بھی رشی سونک نے مقابلہ اچھا دیا اور سیاسی پنڈتوں کی اس بات کو جھٹلا دیا جس میں کہا جارہا تھا کہ لیز ٹرس کی “لینڈ سلائڈ”جیت ہوگی۔ جس سے لیز ٹرس کو تھوڑا دھکا ضرور لگا ہے۔ خارجہ سیکریٹری لیز ٹرس کو گورننگ کنزرویٹو پارٹی کا رہنما نامزد کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ لیز ٹرس برطانیہ کی تیسری خواتین وزیراعظم بھی بن گئی۔وہ ایک ایسے وقت برطانیہ کے اگلے وزیر اعظم کے طور اقتدار سنبھال رہی ہیں جب ملک کو عام زندگی کے بحران،ہڑتال اور ریسیشن کا سامنا ہے۔اس کے علاوہ روس اور یوکرین کی جنگ کے بعد روس نے انرجی اور گیس کی سپلائی پر پابندی لگا دی ہے۔جس سے گیس کی قیمت دس گنا سے بھی زیادہ ہوچکا ہے اور مہنگائی کے خلاف تحریک چلانے والے گروپ نے کہا ہے کہ گیس کی قیمت بڑھنے سے اب لوگوں کو یہ چننا ہے کہ “ہیٹنگ یا ایٹنگ”۔ یعنی آپ کو گھر گرم رکھنا ہے یا پیٹ بھرنا ہے۔سچ تو یہی ہے کہ پچھلے کچھ مہینوں میں جس طرح گیس اور انرجی کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہے اس سے تو برطانیہ کی آدھے سے زیادہ آبادی کا جینا حرام ہوچکا ہے۔

بورس جانسن کی جگہ لینے کی دوڑ میں سب سے آگے، لیز ٹرس 2015کے انتخابات کے بعد کنزرویٹیو کی چوتھی وزیراعظم بن گئی۔اس عرصے کے دوران ملک بحران سے بحرانوں کی طرف گامزن رہا۔ کئی لوگوں نے تو اس دوران یہ بھی کہا کہ کنزرویٹیو پارٹی کو لیڈر کے انتخاب کو ملتوی کر کے ملک کے بحران سے نمٹنا چاہئے۔لیکن یہاں تو معاملہ اس جمہوری نظام کا ہے جس کو ساری دنیا میں برطانیہ  بڑی شان سے پیش کرتا ہے۔

47سالہ لیز ٹرس نے برطانیہ کے مہنگائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے تیزی سے کام کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ہفتے کے اندر توانائی کے بڑھتے ہوئے بلوں سے نمٹنے اور مستقبل میں ایندھن کی فراہمی کو محفوظ بنانے کا منصوبہ لے کر آئیں گی۔اتوار 4ستمبر کو ایک ٹی وی انٹرویو میں بات کرتے ہوئے لیز ٹرس نے ان اقدامات کی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا جو بقول ان کے لاکھوں لوگوں کو یقین دلائیں گے جنہیں ڈر ہے کہ وہ سردیوں کے قریب آتے ہی اپنے گیس یا انرجی کے بل ادا نہیں کر پائیں گے۔انہوں نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ ان کا توانائی کا منصوبہ 100بلین برطانوی پونڈ سے تجاوز کر سکتا ہے۔ اور قیاس کیا  جارہا ہے کہ نئی حکومت فنڈز کے لیے مزید قرض لینے کی متحمل ہوسکتی ہے۔ تاکہ مہنگائی سے پریشان لوگ اور کاروبار کی مدد کی جائے۔

نئی وزیراعظم لیز ٹرس نے اپنی قائدانہ مہم کے دوران اشارہ کیا کہ وہ ٹیکس میں اضافے کو ختم کر کے اور دیگر محصولات کو کم کر کے کنونشن کو چیلنج کریں گی جن کے بارے میں کچھ ماہرین اقتصادیات کہتے ہیں کہ اس سے افراط زرمیں اضافہ ہوگا۔اب چاہے کوئی کچھ بھی کہے نئی وزیراعظم لیز ٹرس کو حکومت چلانے کے لئے دانتوں تلے لوہے کے چنے چبانے پڑے گے۔لیز ٹرس نے بورس جانسن کی جگہ لی ہے۔ بورس جانسن کو جولائی میں اپنے استعفیٰ کا اعلان کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ کیونکہ مہینوں کے اسکینڈلزکے بعد ان کی انتظامیہ کی حمایت ختم ہوگئی تھی اورکئی وزراء نے انہیں زبردستی ہٹانے کے لیے استعفیٰ دے دیا تھا۔جس کے بعد بورس جانسن الگ تھلگ پڑ گئے تھے اور ان کے پاس سوایاستعفیٰ کے اور کوئی راستہ نہیں تھا۔

منگل 6ستمبر کو بورس جانسن حسبِ روایت ملکہ الیزبتھ سے ملاقات کے اسکاٹ لینڈ گئے اور باضابطہ اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔اس کے بعد وہ لیز ٹراس کی پیروری کرتے ہوئے ملکہ الیزبتھ سے نئی حکومت بنانے کے لئے کہا۔بورس جانسن نے ٹویٹر پر کہاکہ  “میں جانتا ہوں کہ اس کے پاس زندگی کے بحران سے نمٹنے، ہماری پارٹی کو متحد کرنے اور ہمارے ملک کو متحد کرنے اور ہموار کرنے کے عظیم کام کو جاری رکھنے کا صحیح منصوبہ ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام کنزرویٹیو سو فی صد لیز ٹرس کے ساتھ جٹ جائے”۔بورس جانسن کا یہ ٹویٹ کئی معنوں میں اس لئے اہم تھا کیونکہ پچھلے کچھ مہینے میں ان کی لیڈر شپ میں کنزرویٹیو کی مقبولیت دن بدن گھٹتی جارہی تھی۔

 بورس جانسن نے کنزرویٹیو پارٹی کی قیادت کرتے ہوئے 2019 کے عام انتخابات میں حزب اختلاف کی لیبر پارٹی کو ہرا کر ایک زبردست کامیابی حاصل کی جس کے نتیجے میں بالآخر برطانیہ کی یورپی یونین سے مکمل علیحدگی ہوئی۔ تاہم ان پر ووٹروں کے درمیان حمایت میں کمی کا الزام لگایا گیا ہے اور پارٹی نے حالیہ ضمنی انتخابات میں کافی نشستیں کھو دی ہیں۔ کچھ کنزرویٹیو علاقوں میں بھی ہار ہوئی جس سے پارٹی اور ایم پی میں بورس جانسن کی مقبولیت کی کمی کا احساس ہونے لگا تھا۔بورس جانسن جب سے وزیراعظم بنے ہیں انہیں کافی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ اہے۔ جس میں کووڈ 19کی وجہ سے لاک ڈاؤن سے لے کر بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حال ہی میں روس کا یوکرین پر حملہ کافی اہم ہیں۔ اس کے علاوہ بورس جانسن کو سیاسی چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ بشمول ان باتوں کے حال ہی میں اسکاٹش نیشنل پارٹی کی جانب سے اسکاٹ لینڈ کی آزادی پر ریفرنڈم کے لیے زور دیا جارہا ہے۔

بورس جانسن تیسرے کنزرویٹیو رہنما ہیں جنہیں ان کی پارٹی نے گزشتہ سات سالوں میں جبری عہدے سے ہٹایا ہے۔ ڈیوڈ کیمرون نے برطانیہ کی یورپی یونین کی رکنیت کے سوال پر ریفرنڈم کروانے کا اعلان کیا تھااورریفرنڈم کے ہارنے کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔اس کے بعد تھریسا مے نے بریکسٹ ووٹ کے بعد برطانیہ کو پورپی یونین سے نکالنے کی تین سال کی کوشش اور ناکامی کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔  خیر اب برطانیہ کو ایک اور نیا وزیراعظم مل گیاہے اور لوگ بڑی بے صبری سے اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ نئی وزیراعظم انرجی بل کو جلد از جلد کم کریں۔ نئی وزیراعظم لیز ٹرس لوگوں کا اعتماد جیتے کے لئے ٹیکسوں میں کمی اور انرجی بل کے بڑھتے ہوئے اخراجات پر روک لگا سکتی ہیں جیسا کہ انہوں نے مسلسل اپنی تقریر میں کہا ہے۔ اس سے لیز ٹرس کو یہ فائدہ ہوگا کہ انہیں وقت سے قبل عام انتخاب کرانے کا موقع مل جائے گا۔ جس کے بعد وہ دوبارہ پانچ سال کے لئے وزیراعظم بن سکتی ہیں۔ جیسا کہ ان کے دوست بورس جانسن نے بھی کیا تھا۔

انگریزی میں ایک کہاوت ہے ’نئی بوتل میں پرانی شراب‘۔ خیر مجھے تو لیز ٹرس کا وزیراعظم بننا ایسا لگ رہا ہے کہ پرانی شراب کو نئی بوتل میں بھر دیا گیا ہے۔ لیز ٹرس کا انتخاب آبادی کے ایک فی صد کنزرویٹیو ممبران نے اپنے ووٹ کے ذریعہ کیا ہے۔ جس سے وہ اب کنزرویٹیو پارٹی کی نئی لیڈر اور برطانیہ کی وزیراعظم بن گئی ہیں۔تاہم انہیں کہیں نہ کہیں یہ بات ستارہی ہوگی کہ وہ عام لوگوں کی لیڈر بن کر وزیراعظم بنیں۔ جس کے لیے ممکن ہے کہ وہ الیکشن کا اعلان قبل از وقت کر دیں تاکہ دوبارہ پانچ سال کے لئے وزیراعظم بن سکیں۔یعنی پرانی شراب ایک نئی بوتل میں۔

Leave a Reply