You are currently viewing برطانیہ کو ملی یورپی یونین سے آزادی

برطانیہ کو ملی یورپی یونین سے آزادی

دسمبر2020 کو یورپی یونین سے برطانیہ کوباضابطہ علیحدگی ہونے کے بعد ایک نئے عہد کا آغاز ہوگیا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ برطانیہ کی آدھی آبادی کو یورپی یونین سے آزادی مل گئی۔

دراصل میں نے اس لیے’آدھی آبادی‘ لکھا کیونکہ چار سال قبل جب سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے برطانیہ کو یورپ میں رہنے اور باہر ہونے پر لوگوں کی رائے لینے کے لیے ایک ریفرنڈم کروایا تھا تو اس میں آدھے لوگوں نے حمایت اور آدھے لوگوں نے مخالفت کی تھی۔یہ ریفرنڈم 2016 میں ہوا تھااور جس میں آدھے سے تھوڑے سے زیادہ لوگوں نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ خاص کر اسکاٹ لینڈ اور ناردن آئرلینڈ کے لوگوں نے یورپی یونین کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔تاہم  تب سے برطانیہ میں مسلسل’بریکسٹ‘ ایک بحث بنی ہوئی ہے۔

 23 جون 2016کو برطانیہ میں یورپ کے ساتھ رہنے اور چھوڑنے کے سوال پر سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ریفرنڈم کر وایا تھا۔ جس میں 52%فی صد لوگوں نیبر یکسٹ(یورپین یونین چھوڑنے والوں کا گروپ) کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔ تب سے برطانیہ میں سیاسی اورمعاشی طور پر ایک زلزلہ آیا ہوا ہے جو کچھ حد تک تو تھم گیا ہے لیکن اب بھی بر یکسٹ کا بھوت گاہے بگاہے کسی نہ کسی بہانے نمودار ہو تا رہتاہے جس سے سیاستداں سے لے کر عام آدمی تک سب  پریشان ہیں۔تاہم جب سے بورس جونسن وزیراعظم بنے ہیں انہوں نے دھیرے دھیرے برطانیہ کو یورپی یونین سے علیحدہ کرنے کا کام شروع کردیا ۔

چند سال قبل برطانیہ کی ہائی کورٹ نے حکومت کو یہ آرڈر دیا ہے کہبر یکسٹ کی کاروائی کی، پارلیمنٹ سے منظوری لی جائے۔اس فیصلے میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ بر یکسٹ کے سلسلے میں پارلیمنٹ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ برطانیہ کو یورپ چھوڑنے کی تاریخ کب اور کس طرح مقرر کرنی چاہئے۔یہ کیس جینا میلر ایک انوسٹمنٹ منیجر نے بر یکسٹ کی کاروائی اور حکومت کے خلاف دائر کیا تھا۔جس کے بعد یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے تمام معاملات اب بنا پارلیمنٹ کی ووٹنگ کے طے نہیں ہوتے۔

اب بھی حالات اس حد تک ساز گار نہیں ہوئے  کیونکہ کورونا سے بد حال لوگ فی الحال برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے پر کچھ رائے قائم کرنے سے قاصر ہیں۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جونسن اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کسی طرح برطانیہ کے لوگوں اور دنیا والوں کو یقین دلائیں کہ برطانیہ یورپ سے نکل کر بھی ایک مستحکم اور مضبوط معیشت والا ملک بن جائے گا۔تاہم دھیرے دھیرے اب لوگ اس بات کے انتطار میں بیٹھے ہیں کہ چلو اب آنے والے دنوں میں دیکھا جائے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ یوں تو برطانیہ کی سیاسی صورتِ حال کا اندازہ لگانا کافی مشکل ہے کیونکہبر یکسٹ کے بعد تمام سیاسی پارٹیاں ریفرنڈم کے نتیجے سے برہم ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ جن میں ایک وجہ معیشت ہے جس سے بزنس کمیونٹی کافی نروس ہیں۔

 اس کے علاوہ ایک طبقہ اس بات سے پر امید ہے کے  بر یکسٹ سے ملک کی حالت بہتر ہوگی اور امیگریشن پر کنٹرول ہوگا۔یہ بات بھی سچ ہے کہ برطانیہ میں یورپ سے آکر بسنے والوں لوگوں کی تعداد دن بدن بڑھنے لگی تھی جس سے لوگوں کا غصہ بڑھنے لگا تھا۔ اور لوگ یورپی یونین کی ’فریڈم آف موومنٹ‘(یعنی یورپ کے تمام ممالک کے باشندے برطانیہ بنا روک ٹوک کے آ جا سکتے ہیں)کی سخت مخالفت کرنے لگیں۔ یوں بھی اب تک عام طور  سے یہی دیکھا گیاہے کہ برطانیہ کے بریکسٹ حامیوں کا غصہ صرف اسی بات پر تھا کہ یورپ کے دیگر ممالک کے لوگ برطانیہ بنا روک ٹوک کے کیوں آرہے ہیں۔ اور پورا بریکسٹ بھی اسی بنا پر زیر بحث رہا۔ باقی باتیں خانہ پوری کی تھیں۔ جیسا کہ تجارت، یورپی قانون، اور دیگر لوازمات  جو کہ صرف بحالتِ مجبوری کی جارہی تھیں۔اس کے علاوہ پچھلے ایک سال سے وزیراعظم پارلیمنٹ میں بس ایک ہی بات پر بحث و مباحثہ کرتے ہوئے پائے گئے کہ یورپی یونین کے ساتھ تجارتی مذاکرات کر لیے جائیں گے جو کہ برطانیہ کے حق میں ہوگا۔اس دوران برطانیہ یورپی یونین کے تجارتی قوانین کے تحت کاروبار کرتا رہا اور ساتھ ہی ساتھ یورپی یونین کے لیڈر مستقبل کی اقتصادی شراکت داری کے بارے میں مذاکرات بھی کرتے رہے۔

آخر کار کرسمس کے موقعہ پر وزیر اعظم بورِس جونسن نے ٹیلی ویژن پر انگوٹھا دکھاتے ہوئے کہا کہ  وہ  یورپی یونین سے مذاکرات کرنے میں کامیاب ہوگئے۔اور یہ برطانیہ کے لیے ایک کرسمس تحفہ ہے۔ہمارے جیسے لاکھوں لوگوں کو بورس جونسن کے انگو ٹھے کو دیکھ کر دو باتوں کا احساس ہوا۔ ایک تو یہ کہ یہ ایک اچھی خبر ہے دوسرا انگوٹھا دکھانا یعنی ہم نے تمہیں الو بنا دیا۔خیر جب اوکھلی میں سردیا ہے توموسلوں سے کیا ڈرنا۔ تجارتی مذاکرات مکمل ہوتے ہی کورونا کی دوسری لہر سے بے حال اور خوف زدہ لوگوں کو وزیراعظم کے انگوٹھے سے اس بات سے کچھ حد تک تو راحت ملی کہ  چلو کچھ تو اچھی خبر آئی۔ یوں بھی  سخت لاک ڈاؤن کی وجہ سے کرسمس تو پھیکا پڑ چکا تھا اور اس پھیکے کرسمس کے موقع پر جب برطانیہ اور یورپی یونین میں تجارتی مذاکرات مکمل ہوگئے تو لوگوں کو کچھ راحت نصیب ضرور ہوئی ہے۔ بعد میں برطانوی پارلیمان کی منظوری کے بعد اب اس تجارتی معاہدے نے برطانیہ میں قانون کا درجہ حاصل کر لیا۔

نئے انتظامات کے تحت برطانوی پیدوار کنندگان کو یورپی یونین کی داخلی منڈیوں تک ٹیکس فری رسائی حاصل ہوگی۔ ان تجارتی مذاکرات کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ سے یورپ جانے والی مصنوعات پر یورپ میں کوئی درآمدی ٹیکس نہیں ہوگا۔ مگر اس کا مطلب یہ ضرور ہے کہ یورپی ممالک جانے والے لوگوں اور برطانوی کمپنیوں کو مزید کاغذی کارروائی کی ضرورت پڑے گی۔تاہم اس حوالے سے غیر یقینی یہ  بھی ہے کہ برطانوی معیشت کے بڑے حصے یعنی بینک اور خدمات کے شعبے کا مستقبل کیا ہوگا۔ جو کہ اب بھی زیر بحث ہے۔

اسی دوران اس خبر سے بھی لوگوں میں حیرانی ہوئی جب وزیراعظم بورِس جونسن کے والد نے فرانسیسی شہریت کی درخواست دے دی۔ 80سالہ سٹیلے جونسن نے کہا کہ 2016میں انہوں نے بریکسٹ ریفرنڈم میں یوروپی یونین کے ساتھ رہنے پر ووٹ دیا تھا۔ظاہر سی بات ہے باپ نے سوچا کیوں نہ زندگی کے آخری حصہ اب فرانس میں گزار دیا جائے۔ تاہم فرانس اور برطانیہ آنا جانا یوں ہے، جیسے آپ صبح جائے اور شام کو لوٹ آئے۔  اسی بہانے ممکن ہو کہ بیٹے بورِس جونسن کو پھرکبھی یورپی یونین میں دوبارہ شامل ہونے کی ہمدردی جاگ جائے جو کہ فی الحال شاید ایک ناممکن بات ہے۔

 چار برس  پہلے برطانیہ کا یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کا جو ریفرنڈم کرایا گیا تھا اور اس کے حمایتی جو خواب دیکھ رہے تھے،آخر کاران کا یہ خواب 31دسمبر 2020کو پورا ہوگیا۔یعنی برطانیہ پہلی جنوری 2021سے یورپی یونین کے ماتحت کوئی کام نہیں کرے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ برطانیہ جب پورے طور پر کورونا سے پاک ہوگا تو اس کی معیشت اور حالات یورپی یونین سے نکلنے کے بعد بہترہوئے یا بد تر۔ اب یہ تو آنے والے دن ہی بتائے گا۔فی الحال ہم اعتبار، اعتماد اور امید ہی کرسکتے ہیں۔

Leave a Reply