برطانیہ کو ملی آزادی!

برطانیہ کو ملی آزادی ! یہ بات میں نے نہیں کہہ رہا بلکہ جمعرات 23 جون کے ریفرنڈم سے قبل سابق مئیر بورس جونسن اور ریفرنڈم کے بعد یو کِپ کے لیڈر نائیجل فراج نے کہی ہے۔ یہ دونوں لیڈر پچھلے تین ماہ سے برطانیہ کو یورپین یونین سے نکلوانے کی مہم چلا رہے تھے۔ لیکن جس کا ڈر تھا وہی بات ہوگئی ۔ 23 جون کے تاریخی ریفرنڈم میں یورپ سے نکلنے والوں کی جیت ہوئی ۔یورپ میں رہنے کی حمایت میں 48%فی صد ووٹ ڈالے گئے جبکہ اس کے مقابلے میں چھوڑنے کی حمایت میں 52%فی صد ووٹ ڈالے گئے۔

جمعہ 24 جون کی صبح جب تمام نتائج سامنے آگئے تو ایسا لگا جیسے پورے یورپ میں سیاسی زلزلہ آگیا ہو۔ اور آتا بھی کیوں نہیں کیونکہ اس ریفرنڈم نے پوری دنیا کے لوگوں کو حیرانی میں ڈال دیا کہ برطانیہ یورپین یونین سے باہر ہو گیاہے۔ معروف لیڈر اور بزنس مین جو برطانیہ کی یورپین یونین میں رہنے کی حمایت کر رہے تھے، انہیں اس نتیجے سے سخت دھچکا پہنچا ہے۔نتیجے کے بعد پورے ملک میں ایک مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے اور وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے استعفیٰ کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی کشتی کو بطور کیپٹن ایک ترقی یافتہ سمت کی طرف لے جانے کی ذمہ دارای سنبھالی تھی اور میں اس کشتی کو کسی دوسری سمت میں نہیں لے جا سکتا ۔وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے مزید کہا کہ میں اکتوبر میں وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹ جاؤنگا اور اب اُن لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے جنہوں نے برطانیہ کو یورپین یونین سے الگ کرنے کی مہم چلائی تھی ۔عام آدمی کو وزیر اعظم کے استعفیٰ سے سخت حیرانی ہوئی لیکن سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا ہونا لازمی تھا کیونکہ اب پورا نظام اور ملک ایک نئی سمت کی طرف جارہا ہے اور ایسے میں وزیر اعظم کے لئے عہدہ پر برقرار رہنا دشوار ہوتا۔

2015 کے عام چناؤ میں ڈیوڈ کیمرون نے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ اگر ان کی پارٹی نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی تو وہ 2016میں برطانیہ میں ریفرنڈم کرائینگے ۔یوں بھی ڈیوڈ کیمرون کے پاس الیکشن جیتنے کا اور کوئی راستہ بھی نہیں تھا ۔کیونکہ اس سے قبل یورپین پارلیمنٹ کے الیکشن میں برطانیہ سے یو کِپ پارٹی کو زیادہ تر سیٹوں پر کامیابی ملی تھی اور لوگوں میں یورپین یونین میں شامل رہنے پر کافی ناراضگی تھی۔
یوکِپ پارٹی کے لیڈر نائجل فراج نے پچھلے کچھ برسوں سے اس بات کی مہم چلا رکھی تھی کہ برطانیہ کو یورپین یونین میں رہنے سے سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہے۔ امیگریشن ایک اہم معاملہ تھا، جس سے زیادہ تر لوگ ناراض تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ریفرنڈم میں پرانی نسل کے لوگوں نے احتجاج کے طور پر برطانیہ کے یورپین یونین چھوڑنے کی حمایت میں اپنا ووٹ دیا ہے۔

لیکن برطانیہ کے دو اہم یونین یونٹ ، اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئیرلینڈ میں ریفرنڈم کے نتائج حیران کن تھے۔ اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئیرلینڈ میں لوگوں نے یورپین یونین کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا ہے جس پر اسکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر نیکولا اسٹرجن نے کہا کہ اسکاٹ لینڈ میں ایک بارپھر اس بات پر ریفرنڈم ہونا چاہئے کہ کیا اسکاٹ لینڈ برطانیہ میں رہے گا یا اس سے الگ ہو کر ایک آزاد ملک بنے گا؟ 2014کے اسکاٹش ریفرینڈم میں لوگوں نے اسکاٹ لینڈ کو برطانیہ میں رہنے کی حمایت میں ووٹ دیا تھا لیکن نکولا اسٹرجن نے موقعہ کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس بات کا اعلان کر دیا کہ اسکاٹ لینڈ کی آزادی کے لئے دوبارہ ریفرینڈم کرانا ضروری ہے۔ اسی طرح شمالی آئیرلینڈ کے ڈپٹی فرسٹ منسٹر مارٹن میکگینس نے کہا ہے کہ اس صورتِ حال میں ناردن آئیر لینڈ میں بھی آزادی کے لئے ریفرنڈم کرانا چاہئے۔

یورپین یونین کی سب سے طاقتور اور اہم لیڈر جرمن چانسلر انجیلا مرکیل نے کہا کہ برطانیہ کے ریفرنڈم سے ہمیں بہت مایوسی ہوئی ہے۔ یورپین چیف نے اعلان کر دیا کہ برطانیہ کو جلد از جلد یورپین یونین سے باہر ہونے کے مذاکرات شروع کر دینا چاہئے۔لیکن سابق لندن مئیر اور وزیر اعظم کی دوڑ میں سب سے آگے رہنے والے بورس جونسن کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں جلد بازی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ لوگوں نے اپنی رائے دے دی ہے اور ہمیں ایک بہترین موقعہ ملا ہے۔ اب ہم اپنے قانون کے مطابق ملک کو چلائیں گے۔ اپنی سرحدوں کو خود کنٹرول کریں گے اور اپنے ٹیکس کو ملک کی فلاح و بہبود کے لئے صرف کریں گے۔

اس ریفرنڈم کے نتیجے کے بعد پونڈ کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں کافی کم ہوگئی ہے جبکہ اس سے پہلے 1985میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ اس وقت بھی پونڈ میں کافی گراوٹ ہوئی تھی۔ تاہم بینک آف انگلینڈ کے گورنر مارک کارنی نے کہا کہ بینک کے پاس کافی دولت ہے جو برٹش لوگوں کو مسلسل اس بات کی مدد کرے گا تاکہ وہ اپنے نجی مصارف اور کاروبار کے لئے ادھار لے سکتے ہیں۔

آپ کو بتاتے ہیں یورپین یونین کیا ہے۔ یوروپین یونین یورپ کے 28 ملکوں کا اتحاد ہے جن کی آپس میں سیاسی اور اقتصادی شراکت داری ہے۔اس ادارے کے قیام ہونے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اگر یہ تمام مما لک آپس میں تجارت کریں گے تو اس سے آپس میں جنگ ہونے کا امکان نہیں رہے گا۔ بعد میں یہ اتحاد ترقی پاکر ایک ’سنگل مارکیٹ ‘ بن گیا جس میں لوگ بنا کسی روک ٹوک کے سفر اور اشیا خرید و فروخت کرسکتے ہیں۔یورپین یونین کی اپنی کرنسی ہے جسے ’یورو ‘کہا جاتا ہے اور جسے 19ممالک استعمال کرتے ہیں۔یورپین یونین کی اپنا پارلیمنٹ بھی ہے ۔ تمام ممالک کو اس کے قوانین کو ماننا پڑتا ہے۔ ان میں ماحول، ٹرانسپورٹ، صارفین کا حق اور موبائیل فون کے چارج وغیرہ اہم ہیں۔برطانیہ یورپین یونین کا دسواں ملک ہے جو سب سے زیادہ ممبر شپ فیس ادا کرتاہے ۔ یہ رقم 1638.8bn ارب پونڈ ہے۔لیکن اس کے بدلے برطانیہ کو بھی مختلف پروجیکٹ کے لئے یوروپین یونین سے پیسہ ملتا ہے۔

ریفرنڈم کے نتیجے کے بعد زیادہ تر لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ اب یورپ میں نہیں رہا؟جب کہ ایسا فوری طور پر نہیں ہونے والا ہے۔ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ برطانیہ کو پورے طور پر الگ ہونے میں لگ بھگ دو سال لگ سکتے ہیں۔ اس وقت تک بہت سارے محکموں میں یورپین یونین کے قوانین رائج رہیں گے۔اس کے علاوہ اگر برطانیہ چاہے تو وہ یورپین یونین سے بہت سے معاہدے کر سکتا ہے ۔ علیحدگی کے نتیجے میں جو یورپین لوگ بنا ویزا برطانیہ میں کام کر رہے ہیں ،ممکن ہے ان لوگوں کو مستقبل میں ورک پرمٹ ویزا پر کام کرنا پڑے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ برطانوی لوگوں کا پاسپورٹ جو مشترکہ طور پر یورپین یونین سے منسلک ہے، اس کا یا تو رنگ بدل جائے یا وہ صرف برطانیہ کا پاسپورٹ کہلائے ۔

ریفرینڈم سے پہلے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اگر برطانیہ یورپین یونین سے باہر ہوگیا تو آنے والے دنوں میں لوگوں کی پنشن پر اس کا بُرا اثر پڑیگا۔ تاہم ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر ملک کی معاشی حالات بہتر ہوگئی تو ممکن ہے اس کا اثر اُس حد تک نہ ہو جیسا کہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

برطانیہ کے اس تاریخی ریفرنڈم میں 52%فی صد لوگوں نے اس بات کی حمایت کی کہ برطانیہ کو یورپین یونین سے الگ ہوجانا چاہئے۔ جن میں کنزرویٹیو پارٹی ، لیبر پارٹی اور یوکِپ پارٹی کے سیاستدان اور حامی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یورپین پارلیمنٹ نے حد سے زیادہ اختیارات حاصل کر لئے ہیں ، جس سے برطانیہ بہت سارے معاملے میں بے بس اور ناکارہ ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ یورپین یونین کو ادا کی جانے والی فیس بہت ذیادہ ہیجبکہ اس کے عوض میں یورپین یونین سے کم پیسہ آتا ہے۔ مشرقی یورپ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ برطانیہ میں داخل ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے عام برٹش لوگوں میں غصہّ پایا جارہا ہے۔یورپین یونین کا ایک اہم اصول آزادنہ نقل و حرکت ہے جسے برطانیہ چھوڑنے کے حامیوں نے ایک آفت بتا یا ہے۔

اس کے بر عکس وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے ساتھ کئی نامور سیاستدان اور بزنس مین نے برطانیہ کے یورپین یونین میں رہنے کی حمایت کی تھی۔ ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا کہ برطانیہ کو یورپین یونین کے ساتھ رہ کر بہت فائدہ ہورہا تھا اور اس سے تجارت اور دیگر شعبوں میں ترقی کا موقعہ بھی مل رہا تھا۔ اس کے علاوہ ڈیوڈ کیمرون یورپی یونین کے ساتھ امیگریشن کے معاملہ پر معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ان کا خیال تھا اس طرح لوگوں کی ناراضگی کم ہو جائے گی۔

یورپی یونین کے سوال پر یہ برطانیہ کا تیسرا ریفرنڈم تھا۔ پہلا ریفرنڈم 1975میں ہوا تھا جس میں برطانیہ کے لوگوں کو یہ موقعہ دیا گیا تھا کہ’ کیا برطانیہ کو سنگل مارکیٹ میں شامل ہونا چاہئے‘ اور جس کی لوگوں نے حمایت کی تھی۔دوسرا 2011میں متبادل ووٹنگ نظام Alternative Vote System کے لئے تھا۔ تیسرا 2016میں ہوا کہ کیا ’برطانیہ کو یورپین یونین میں رہنا چاہئے‘۔

23جون کے ریفرنڈم کا برطانیہ اور یورپ کے علاوہ پوری دنیا پر اثر محسوس کیا گیا ہے۔ اس ریفرنڈم کا سب سے زیادہ اثر براہ راست عام آدمی پرپڑاہے۔ زیادہ تر لوگ یا تو نروس ہیں یا انہیں سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اب اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ کئی سوال ایسے ہیں جن کے بارے میں حمایتی اور مخالفین نے جواب تو دیا ہے لیکن لوگوں کو اب بھی اس بات کا خوف ہے کہ آخر کس کی بات سچ ہے ۔ اس کے علاوہ اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ یورپ میں ایک بار پھر فاشسٹ طاقتیں اپنا سر اٹھائیں گی۔ اب تو آنے والا وقت ہی ان تمام باتوں کا جواب دے گا۔ فی الحال برطانیہ کے لوگ ایک بار پھر اپنے عظیم ملک کے اتحاد اور خوشحالی کے لئے کوشش کر رہے ہیں تاکہ عام آدمی کا اعتماد بحال ہو اور برطانیہ دنیا میں ایک عظیم ملک کے طور پر قائم رہے۔

Leave a Reply