You are currently viewing برطانوی تاریخ کی مختصر المدت برطانوی وزیراعظم

برطانوی تاریخ کی مختصر المدت برطانوی وزیراعظم

جمعرات 20اکتوبر کودوپہر کے بارہ بج رہے تھے۔ لندن میں حسبِ معمول بارش ہورہی تھی اور موسم کا موڈ کافی خراب تھا۔ میں آج بھی گھر سے ہی کام کر رہا تھا۔ لندن میں ہمارے رفیق شاہد چودھری اور دلی کے ہونہار آئی ٹی کنسلٹنٹ عامر خان سے فون پرباتیں ہورہی تھیں اور مختلف امور پر تبادلہ خیال بھی ہورہا تھا۔

 اسی دوران شاہد چودھری نے مجھ سے پوچھاکہ برطانیہ کی سیاست کو کسی کی نظر لگ گئی ہے فہیم بھائی۔میں نے کہا حضور چائے کے وقت تک انتطار کریں، محترمہ لیز ٹرس استعفیٰ دینے والی ہیں۔ شاہد چودھری صاحب نے پرجوش ہو کر کہا اگر ایسا ہوا تو میری طرف سے ڈنر ڈن۔  دوپہر 1:15پر اچانک بی بی سی اور دنیا کی تمام ٹیلی ویژن پر دکھایا جانے لگا کہ برطانوی وزیراعظم کی رہائش گا ہ نمبر ٹین داؤننگ اسٹریٹ کے باہر لیکٹرن (چھوٹی سی ٹیبل،مائکروفون لگا ہو) لا کر رکھا جارہا ہے۔ ٹیلی ویژن کے کیمرے نمبر ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ کے دروازے پر وزیراعظم لیز ٹرس کا بے صبری سے انتطار کرنے لگی اور سیاسی پنڈت اپنے اپنے طور پر اپنی رائے دینے لگے۔بس پھر کیا تھا جس کا ڈر تھا وہی بات ہوگئی۔ ٹھیک 1:30بجے وزیراعظم لیز ٹرس نمبر ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ سے  اپنے شوہر کے ساتھ باہر نکلی اور مختصر طور پر اپنا استعفیٰ نامہ پڑھ دیا۔تھوڑی دیر بعد شاہد چودھری صاحب کا فون آیا اور انہوں نے برجستہ کہا کہ آپ تو  نجومی نکلے اور آپ کی بات تو بالکل درست نکلی۔

حیرت انگیز طور پر وزیراعظم بننے کے صرف 44دن بعد ہی لیز ٹرس نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنا عہدہ چھوڑ رہی ہیں۔ اب تک سب سے کم مدت کے وزیراعظم جارج کیننگ تھے، جو اگست 1827میں انتقال کر گئے۔انہوں نے صرف 119دن دفتر میں گزارے تھے۔ویسے جب سے لیز ٹرس وزیراعظم بنی ہیں ان کی منی بجٹ اور مایوس رویوں نے ان کی لیڈر شپ پر سوالات اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ حال ہی میں ٹیکس میں کٹوتی کے ناکام بجٹ نے مالیاتی منڈیوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جس کی وجہ سے ان کی اپنی کنزرویٹو میں بغاوت ہوگئی تھی۔

لیز ٹرس نے ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہر ایک بیان میں کہا کہ” ہم نے کم ٹیکس والی، زیادہ ترقی والی معیشت کے لیے ایک وژن ترتیب دیا ہے جو برکزٹ کی آزادیوں سے فائدہ اٹھائے گی”۔تاہم اب لیز ٹریس کی باتوں سے لوگ متاثر نہیں ہونے والے ہیں کیونکہ برکزٹ کے بعدبرطانیہ معاشی طور پر ہچکولے کھا رہا ہے اوراب تک چار وزیراعظم برکزٹ کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ برطانیہ کی تاریخ میں ایسا پہلی بار دیکھا جا رہا ہے۔

23ستمبر کو چانسلر(وزیر خزانہ) کواسی کوارٹینگ نے ایک نام نہاد منی بجٹ کا اعلان کیا، جس نے برطانیہ کی بانڈ مارکیٹوں کے لیے ایک ہنگامہ خیز دورشروع کر دیا۔ اس میں  قرض کی مالی اعانت سے چلنے والی ٹیکس کٹوتیوں کو آگے بڑھایاجس کے نتیجے میں انہیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ پہلی بار پاؤنڈ ڈالر کے مقابلے میں کافی کمزور ہوگیا۔جس کے بعد لیز ٹرس کے چانسلر کواسی کوارٹنگ کو امریکہ کا دورہ مختصر کر کے برطانیہ واپس آنا پڑا اور استعفیٰ بھی دینا پڑا۔ اس کے بعد نئے چانسلر جیریمی ہنٹ نے زیادہ تر پالیسیاں تین ہفتے بعد تبدیل کردیں۔ لیکن اس کے باوجود لیز ٹرس کے خلاف ان کے ہی پارٹی کے ایم پی ان کے استعفیٰ کی آواز اٹھانے لگے۔لیز ٹرس کے استعفیٰ کے اعلان کے فوراً بعد ڈالر کے مقابلے میں پاؤنڈ 0.4بڑھ گیا، جو کہ 1.1273پر ٹریڈ کر رہا تھا۔ یعنی کہ پونڈ  اسی سطح پر پہنچ گیا جو لیز ٹرس کے مارکیٹ منتقل کرنے والے بجٹ سے پہلے تھا۔

کنزرویٹیو پارٹی کے اراکین کی بیلٹ میں رشی سونک پر واضح کامیابی حاصل کرنے کے بعد محترمہ ٹرس نے بورس جانسن کی جگہ وزیراعظم بنی تھی۔اس کے دو دن بعد ہی ملکہ الزبتھ دوم کا انتقال ہوگیا تھا اور قوم سوگ کے دور میں داخل ہوگئی اور معمول کی سیاست معطل ہوگئی۔لیکن ہفتہ کے اختتام پر جو مرحوم ملکہ کی آخری رسومات کے ساتھ شروع ہوا۔ محترمہ ٹرس کی سیاسی موت کے بیج بوئے جا چکے تھے اور اس وقت کے چانسلر کواسی کوارٹینگ کے منی بجٹ نے اس بات کی نشاندہی کر دی کہ  لیز ٹرس کا اب چل چلاؤ ہے۔1975میں آکسفورڈ میں پیدا ہونے والی  ٹرس کے والد ریاضی کے پروفیسر تھے اور ان کی والدہ ایک نرس تھیں اور بائیں بازو کی حامی تھیں۔ ایک نوجوان لڑکی کے طور پر لیز ٹرس اپنی والدہ کے ساتھ نیو کلیر تخفیف اسلحہ کی مہم کے لیے مارچوں میں حصہ بھی لیا تھا اور لندن کے مغرب میں نصب کرنے کی اجازت دینے کے فیصلے کی شدید مخالفت کی تھی۔

بورس جانسن کی جگہ لینے کی دوڑ میں سب سے آگے، لیز ٹرس 2015کے انتخابات کے بعد کنزرویٹیو کی چوتھی وزیراعظم بنی تھیں۔اس عرصے کے دوران ملک بحران سے بحرانوں کی طرف گامزن رہا۔ کئی لوگوں نے تو اس دوران یہ بھی کہا کہ کنزرویٹیو پارٹی کو لیڈر کے انتخاب کو ملتوی کر کے ملک کے بحران سے نمٹنا چاہئے تھا۔لیکن یہاں تو معاملہ اس جمہوری نظام کا ہے جس کو ساری دنیا میں برطانیہ  شان و شوکت سے پیش کرتا ہے۔

بریکزٹ کے بعد برطانوی سیاست میں جو بھونچال آیا ہے وہ اب تک تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ ڈیوڈ کیمرون نے برطانیہ کی یورپی یونین کی رکنیت کے سوال پر ریفرنڈم کروانے کا اعلان کیا تھااورریفرنڈم  میں ہارنے کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔اس کے بعد تھریسا مے نے بریکسٹ ووٹ کے بعد برطانیہ کو پورپی یونین سے نکالنے کی تین سال کی کوشش اور ناکامی کے بعد استعفیٰ  دیا تھا۔   بورس جانسن تیسرے کنزرویٹیو رہنما تھے جنہیں ان کی پارٹی نے گزشتہ سات سالوں میں جبری عہدے سے ہٹایا۔اس کے بعد مہینوں کے لیڈر شپ انتخاب کے بعد لیز ٹرس وزیراعظم بنی اور محض 44دنوں میں انہیں بھی  استعفیٰ دینا پڑا۔

برطانوی لوگ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ایک بار جب کوئی وزیراعظم اپنی پارٹی کا اعتماد کھو بیٹھتا ہے تو ان کے لیے اپنی قانونی حیثیت کو برقرار رکھنا عملی طور پر ناممکن ہوجاتا ہے۔ حالیہ پولز نے دکھایا کہ لیز ٹرس کی حمایت اور مقبولیت 10%دس فی صداور کنزرویٹیو ووٹروں میں 12%فی صد تک گر چکی ہے۔پچھلے کچھ دنوں سے لیز ٹرس نے استعفیٰ دینے کے مطالبات کی مزاحمت کی اور یہاں تک کہہ دیا کہ اگلے عام انتخاب میں اپنی پارٹی کی قیادت کرے گی جو 2025میں ہونے والے ہیں۔ لیکن کہتے ہیں سیاست میں کوئی گارنٹی نہیں یعنی کون کب پلٹ جائے۔

برطانوی سیاست دان  اخلاقی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ہمیشہ یا تو اپنا استعفیٰ دے دیتے ہیں یا وہ سیاست سے سنیاس لے لیتے ہیں۔ جو کہ ہندوستان، پاکستان اور دیگر ممالک میں  کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیز ٹریس کی پارٹی کے ایم پی اور بیک بینچ کے ایم پی نے ہی لیز ٹریس کی پالیسی اور لیڈر شپ پر سوال اٹھا یا تھا جوکہ جمہوریت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اگر ہم ہندوستان اور پاکستان کی بات کریں تو وہاں اپنے لیڈر کی کسی پالیسی یا اس لیڈرکے خلاف اگر کسی ممبر نے بات کی تو بس پہلے تو اسے پارٹی سے نکالا جائے گا یا پھر اس کی جان خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ جس سے ان ممالک کی کمزور جمہوریت کا احساس ہوتا ہے۔

لیز ٹرس نے ایک بار کہا تھا کہ” میں کوشش کرتی ہوں کہ میں جتنا واضح اور سیدھا ہوسکے اسے پیش کر وں۔مجھے لگتا ہے کہ لوگ سیاست دانوں سے تنگ آچکے ہیں “۔ویسے فی الحال تو لگتا ہے کہ لیز ٹرس سے ان کے ہی ایم پی تنگ آچکے ہیں تبھی تو انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔خیر برطانیہ کو پھر ایک نئے وزیراعظم کی تلاش ہے جسے ڈوبتے ہوئے ٹیٹانک جہازکو بچانا ہے۔

Leave a Reply