You are currently viewing ایک قطرہ خون اوردھوکہ دہی

ایک قطرہ خون اوردھوکہ دہی

آئے دن لوگوں سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ فلاں نے مجھے دھوکہ دے دیا۔ چاہے کاروبار ہو یا شادی بیاہ یا پھر روزگار ہو۔ گویا ہمارے معاشرے میں دھوکہ دہی ایک عام مسئلہ ہے جس سے ہم سب دوچار ہو رہے ہیں۔ لیکن مایوسی تو اس وقت زیادہ ہوتی ہے جب دھوکہ دینے والا سماج میں اعلیٰ عہدے پر براجمان ہو اور  شیخی بگھارے۔

اگر ہم اپنے معاشرے میں نظر ڈالتے ہیں تو دھوکہ دہی ایک عام سی بات ہے۔ کبھی کبھی دھوکہ دے کر لوگ اسے بیوقوف بنانا سمجھتے ہیں جو کہ ایک شرمناک بات ہے۔ آئے دن ہمیں خبروں کے ذریعے اطلاع ملتی  ہے کہ بینک سے لے کر چھوٹے بڑے پیمانے پر کوئی دھوکہ دہی کر کے فرار ہوگیا۔ لیکن قصور وار کبھی پکڑا نہیں جاتا جو کہ ایک تشویش ناک بات ہے۔       حال ہی میں امریکہ میں دھوکہ دہی کا ایک کیس سامنے آیا ہے جس نے اچھوں اچھوں کے ہوش اڑا دیے ہیں۔ یہ خبر کئی دنوں تک دنیا بھر میں نمایاں رہی اور جسے دنیا بھر میں حیرانی سے دیکھا اور سنا گیا۔ الزبتھ ہومز جب 19 سال کی تھیں تو انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کا خیال ہے کہ’ خون کے ایک قطرے سے دنیا بدل سکتی ہے‘۔ دنیا کی سب سے کم عمر ارب پتی خاتون جسے فوربس میگزین اور کئی اور میگزین نے اپنا سر ورق پر شائع کرکے دنیا میں متعارف کروایا تھا۔ فوربس میگزین کے مطابق  الزبتھ ہومز کی مالیت 4.5 بلین ڈالر تھی جس سے وہ سب سے کم عمر خود ساختہ خاتون ارب پتی بن گئیں۔

الزبتھ ہومز، جن کی عمر 2014میں تیس سال تھی اور دنیا کے دولت مند لوگوں میں ان کا مقام سب سے اوپر تھا۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی سے  ڈراپ آؤٹ ہونے والی اس خاتون نے بیماری کی تشخیص میں ایک انقلاب برپا کرنے کے لیے 9بیلین ڈالر کی مالیت کی کمپنی قائم کی تھی۔ اب آپ سوچئے کہ جب اس خاتون نے اتنی بڑی کمپنی قائم کی تو سب یہی سوچ رہے تھے کہ یہ خاتون کوئی معمولی نہیں ہے، یا یہ خاتون قابلِ احترام ہے، یا یہ خاتون اتنی کم عمر میں اتنا بڑا کام کر رہی ہے۔ بھائی اس کا جواب نہیں ہے۔

لیکن بات دھیرے دھیرے جب آگے بڑھتی ہے تو سن کر یقین ہی نہیں ہوتا کہ کیا واقع اس خاتون نے ایسا کیا۔ دراصل الزبتھ ہومز نے خون کے چند قطروں کے ساتھ بیماریوں کی تشخیص کر دے گی۔ تب تو ہم سب نے کہا، واقعی یہ تو کمال ہوجائے گا۔ اب آپ سوچئے آج  چھوٹی بڑی بیماریوں کے لیے نہ جانے کتنی قسموں کے ٹیسٹ کرواتے ہیں تب جاکر مناسب بہتر علاج ہوتا ہے۔ لیکن اس ٹیسٹ کے لیے ہزاروں، اور لاکھوں روپے خرچ بھی کرنے پڑتے ہیں۔ الزبتھ ہومز کی کمپنی تھیرانوس نے وعدہ کیا کہ اس کا ایڈیسن ٹیسٹ بغیر سوئیوں کی پریشانی کے کینسراور ذیا بیطیس  مرض کا پتہ لگا سکتا ہے۔ الزبتھ ہومز کی بورڈ میٹنگ میں ہنری کسنجر سے لے کر جنرل جیمز میٹس جیسے بڑے بڑے لوگ بیٹھے تھے۔ جنہیں کیا پتہ تھا کہ الزبتھ ہومز انہیں دن میں خواب دکھا رہی۔ ایک ایسا خواب جو شاید خواب ہی تھا۔ لیکن 2015میں یعنی ایک سال کے اندر ہی الزبتھ ہومز کی کمپنی پر شک ہونے لگا تھا۔ اس نے جس ٹیکنالوجی کا ذکر کیا وہ بالکل کام نہیں کرتی تھی اور 2018تک اس نے جس کمپنی کی بنیاد رکھی تھی وہ منہدم ہوگئی۔ الزبتھ ہومز کو امریکہ کے کیلیفورنیا میں ایک جیوری نے دھوکہ دہی کے چار الزامات پر مجرم قرار دیا ہے۔ جن میں انہیں 20سال سے زیادہ کی قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔

مقدمے کی سماعت کے دوران الزبتھ ہومز نے اپنے سابق بوائے فرینڈ اور کاروباری پارٹنر رمیش بلوانی (سنی) پر مبینہ جرائم کے وقت جذباتی اور جنسی استحصال کا الزام لگایا۔ جس سے اس کی ذہنی حالت خراب ہوئی۔ 56سالہ مسٹر بلوانی پر فروری میں شروع ہونے والے مقدمے کی سماعت میں دھوکہ دہی کے انہی الزامات کا سامنا ہے۔ جبکہ مسٹر بلوانی نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور ان دعوؤں کو اشتعال انگیز قرار دیا ہے۔

الزبتھ ہومز کی کمپنی تھیرانوس پر 700ملین ڈالر کے فراڈ کا الزام ہے۔ اگر آپ انٹر نیٹ پر سرچ کریں تو دیگر کمپنیوں کی طرح تھیرانوس بھی ایک عمدہ کمپنی کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ جس میں محترمہ الزبتھ ہومز کی کہانی بہت دلچسپ  ہے۔ اس کے والد سرکاری اداروں کے لیے کام کرتے تھے۔ اکثر امدادی کاموں کی نگرانی کرتے تھے اور وہ دنیا کو بہتر بنانے کی خواہش رکھتے تھے۔

انیس سال کی عمر میں الزبتھ ہومز نے کمپنی کو شروع کرنے کا ارادہ کرتے ہی اسٹینفورڈ یونیورسٹی سے دستبرداری اختیار کرلی اور ایک ڈرگ ڈیلیوری پیج کے لیے جو انفرادی مریض کے خون کی قسم کے مطابق خوراک کو ایڈجسٹ کرسکتا ہے اور پھر ڈاکٹروں کو وائرلیس طریقے سے اپ ڈیٹ کر سکتا ہے۔ جبکہ یہ پیج کبھی بھی مارکیٹ میں نہیں آیا جس پر تھیرانوس کا پورا پلان بنایا گیا تھا۔ یہ ایک ایسی مشین تھی جو انگلی سے خون کے صرف چند قطروں کے ذریعے مختلف بیماریوں کا ٹیسٹ کر سکتی تھی۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ الزبتھ ہومز نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ یہ بات اس کے دماغ میں کیسے آئی، جب وہ چھوٹی تھی تو بچپن میں اسے سوئیوں سے نفرت تھی۔

الزبتھ ہومز نے وعدہ کیا تھا کہ خون کی جانچ کو ایک انقلاب بتایا تھا اور کہا کہ تھیرانوس  کمپنی امریکہ میں آنے والے دنوں میں 200 بلین ڈالر کی بچت ہوگی۔ اب آپ ہی بتائیے کون نہیں چاہے گا کہ ایسا کوئی آلہ یا ترتیب نکالی جائے جس سے اربوں کی بچت ہو۔ لیکن کسے پتہ تھا کہ الزبتھ ہومز ایک جھوٹی اور نااہل خاتون ہے جو سبھی کے آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے۔ ان تمام باتوں سے پردہ فاش کرنے والا وال اسٹریٹ جنرل کا ایک صحافی جان کیریرو تھا۔ اس نے صبر و تحمل سے تھیرانوس کے ملازمین سے بات کی جنہوں نے کمپنی کے بارے میں مختلف کہانی سنائی۔ 2015میں جنرل کی طرف سے اس کمپنی کی کہانی شائع ہونے کے بعد امریکی مالیاتی ریگولیٹر، سیکورٹیز اینڈ ایکسچنج کمیشن نے تحقیقات کا آغاز کیا۔ جس کے بعد سینٹر فار میڈیکئیر سروسز نے تھیرانوس کا لائسنس منسوخ کردیا۔ اس کے بعد کمپنی نے اپنی لیبز کو بند کرنا شروع کر دیا اور اپنے چالیس فیصد ملازمین کو فارغ کردیا۔ اس کے علاوہ الزبتھ ہومز کے ساتھ ان دولت مندوں کا بھی پیسہ ڈوب گیا جنہوں نے اس کی کمپنی میں سرمایہ لگایا تھا۔

االزبتھ ہومز ایک قطرہ خون سے کینسر اور ذیابطیس کی تشخیص کا جو خواب دنیا کو دکھا کر ارب پتی بنی تھی اسے اب بہت جلد قید کی زندگی گزارنی ہوگی۔ اربوں ڈالر کا فراڈ کرنے والی الزبتھ ہومز نے ایک قطرے خون کو ایک آسان عمل سمجھ کر نہ جانے کتنے رئیسوں کو ٹھگا تھا۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ دنیا میں دھوکہ دہی کرنے والوں کو اس کیس سے یہ سبق حاصل ہوگا کہ دھوکہ چھوٹا ہو یا بڑا انجام برا ہی ہوتا ہے۔

Leave a Reply