You are currently viewing ایک اور برس بیت گیا

ایک اور برس بیت گیا

کیسے کہوں کہ نیا سال مبارک ہو؟ بلکہ مجھے تو یہی پتہ نہ چلا کہ 2020 کیسے گزر گیا۔ سال کے شروع ہی سے کرونا وائرس کے پھیلنے اور اورلاکھوں کی تعداد میں لوگوں کے مرنے سے انسان اس قدر سہم گیا کہ  بتا نہیں سکتا۔برطانیہ سمیت دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وبا سے لوگوں میں جوخوف و ہراس بڑھا ہے اس سے ہم سب اب تک باہر نہیں آ پائے ہیں۔

اس کے علاوہ کورونا وائرس کی وجہ سے انسان کا ذہنی تناؤ اتنا بڑھ گیا ہے کہ ہماری روز مرہ کی زندگی ہی تبدیل ہو گئی۔جہاں لوگوں کو اپنی جان کی پڑی ہے تو وہیں بے روزگاری اورسماجی دشواری نے پریشانی میں اور اضافہ کر دیاہے۔ تاہم اگست کے مہینے سے کچھ حدتک کورونا کے گھٹنے سے ایک امید سی بنی تھی۔ لیکن ابھی دو مہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ پھر دوسری لہر نے پوری دنیا میں ایک بار پھر خوف و ہراس اور مایوسی کی لہر دوڑا دی ہے۔کورونا کی ایک نئی قسم پانے سے برطانیہ کے سائنسداں اور حکومت کے ہوش اڑ گئے ہیں۔اب تو کرسمس کورونا کی بھینٹ چڑھ چکی ہے اور برطانیہ  میں نئے سال کی تقریب بھی کھٹائی میں پڑ گئی۔پھر بھی کچھ منچلے حکومتی پابندی کے باوجود چھپ چھپ کر جشن منا رہے ہیں اور پولیس انہیں گرفتار بھی کر رہی ہے۔

پھر بھی اللہ کی ذات پر بھروسہ تو ہے اس لیے کہتے ہیں کہ نیا سال مبارک ہو۔ یوں تو نیا سال دنیا بھر میں منایا جاتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔تاہم ہر سال کی طرح اس سال نئے سال کا جشن ویسا دیکھنے کو نہیں ملا جیسا کہ ہر سال ہوتا ہے۔ ہر سال لندن میں دریائے تھیمز کے کنارے آتش بازی کی زبردست نمائش کی جاتی ہے جسے لاکھوں لوگ دیکھنے کے لیے ٹکٹ خریدتے ہیں۔۔ بڑی تعداد میں ہزاروں لوگ اپنے قریبی دوست اور رشتہ داروں کے ہمراہ اس نظارے کو دیکھنے کے لئے لندن کے معروف بگ بین کے قریب جمع ہوتے ہیں اور گلے لگ کر ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک باد پیش کرتے ہیں۔

عام طور پر 31دسمبر کی رات سے پہلی جنوری کی صبح تک لندن ٹرانسپورٹ مسافروں سے کوئی کرایہ وصول نہیں کرتی  جسے لندن مئیر کی طرف سے ایک تحفہ سمجھا جاتا ہے۔لندن کا معروف اور تاریخی بگ بین جیسے ہی اپنی گرج دار آواز کے ساتھ رات کے بارہ بجنے کا اعلان کرتا ہے لندن ویل سے آتش بازی کا مظاہرہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس وقت لوگ اپنی محبت اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں اور نئے سال کو کس طرح گزارے گے، اس کا وعدہ کرتے ہیں۔ نئے سال کی آمد کا جشن لندن کے علاوہ بیجنگ، سڈنی، نیویارک، پیرس اور دبئی میں بھی دیکھا جاتا ہے۔ جہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگ ایک مخصوص  جگہ پر جمع ہو کر آتش بازی کا  مظاہرہ دیکھتے ہیں۔

آئیے سال 2020 کا مختصر طور پر سیاسی اور سماجی پسِ منظر میں ایک جائزہ لیتے ہیں۔ یوں تو 2020 لوگوں کے لئے ایک مایوس کن سال رہا۔ دنیاکورونا وائرس کی لپیٹ میں سسکتی رہی اور ہر دن ہم اسی آس میں بیٹھے رہے کہ اب کورونا کا خاتمہ ہوگا۔دنیا کی معیشت سست اور ٹھپ ہوگئی اور بے روزگاری نے کئی گھروں کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔برطانیہ نے قرض لینے کا ریکارڈ توڑ دیا ہے اور پورے سال لاک ڈاؤن کی وجہ سے بزنس بند ہونے پر حکومت فرلو اسکیم کے تحت لوگوں کو پیسے بانٹ رہی ہے تاکہ ان کا کسی طرح گزارا ہو۔

نومبر 2020 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہار سے دنیا کے امن پسند لوگوں کو  راحت ملی۔ اس بات کا تو ہم سب کو علم ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف لینے کے بعد پوری دنیا کی امن کو خطرہ لاحق ہوگیا۔ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ رویے سے لوگوں کا جینا حرام ہو چکا تھا۔ان کے بیانات اور ٹوئٹ کو دیکھنے کے بعد ہر امن پسند آدمی سہم سا گیاتھا۔ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ بھی کہاں ماننے والے الیکشن میں ہار کے باوجود اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہوئے امریکی الیکشن کو ایک دھاندلی بتاتے ہوئے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔اب تو سپریم کورٹ نے بھی ٹرمپ کی شکایت کو  مسترد کر دیا ہے۔ دراصل اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی صدر کو نہ تو امریکہ کی پرواہ ہے اور نہ ہی وہ ایک تہذیب یافتہ صدر ہیں بلکہ ان کے اوٹ پٹانگ بیانات سے تو ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اپنا دماغی توازن کھو دیا ہے۔خیر نئے صدر کی آمد سے کیا تبدیلی آئے گی یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

2020میں برطانیہ کے نئے وزیر اعظم بورس جونسن کورونا وائرس سے بیمار ہو کر ہسپتال پہنچ گئے اور صحت یاب ہو کر واپس بھی آ گئے۔ تاہم برطانیہ میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد لگ بھگ 60000سے زیادہ ہوگئی ہے۔کورونا ویکسین کافی تعداد میں لوگوں کو دیے جارہے ہیں لیکن کورونا سے کیسے چھٹکارا پایا جائے اس کا کسی کو کوئی علم نہیں ہے۔اب تو کورونا کی دوسری لہر نے ایک بار پھر برطانیہ کے لوگوں میں مایوسی پیدا کر دی ہے اور انسان امید اور نا امیدی میں الجھ کر اپنے دن گزار رہا ہے۔ بورس جونس کے وزیراعظم بنتے ہی  بریکسٹ زیرِ بحث رہا۔دراصل وہ الیکشن اسی بنیاد پر جیتے تھے۔ آخر کار بورس جونسن نے یورپین یونین سے تجارتی معاہدہ کر ہی لیا۔کیونکہ 31دسمبر کو برطانیہ کو یوروپین یونین چھوڑنا ہے۔اس کے بعدکچھ چیزیں ویسی ہی رہیں گی لیکن کچھ چیزیں مکمل طور پر بدل جائیں گی۔جیسے یورپی یونین میں برطانیہ کے ارکان اپنی نشستیں کھو دیں گے۔ یورپی یونین کے اجلاس میں برطانیہ شامل نہیں ہوگا۔ برطانوی پاسپورٹ کا رنگ بدل جائے گا۔ بریگزٹ کا یادگاری سکہ جاری ہوگا۔تاہم کچھ اہم چیزیں اسی طرح قائم رہیں گی جیسے برطانیہ اوریورپی یونین کے درمیان تجارت بغیر کسی اضافی چارج کے جاری رہے گی، ڈرائیونگ لائسنس اور پالتو جانوروں کے پاسپورٹ استعمال میں رہیں گے، یورپین ہیلتھ انشورنس کارڈ کا استعمال پورے یورپ میں جاری رہے گا، یورپی یونین میں رہنا اور کام کرنا جاری رہے گا۔

2020ہندوستان کے لیے ایک مایوس کن سال رہا ہے۔ عام لوگوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ کورونا وائرس سے لوگ اب بھی خوف زدہ ہیں۔ نریندر مودی کے لیے کچھ دشواریاں ضرور بڑھی ہیں لیکن وہیں انہیں کئی ریاستی الیکشن میں مقامی پارٹیوں کے ساتھ کامیابی بھی نصیب ہوئی ہے۔ حال میں شروع ہوئے کسان احتجاج نے دنیا بھر میں ہندوستانی وزیر اعظم کی ہٹ دھرمی پر سوال اٹھا یا ہے۔ جب کہ ہندوستان کی معیثت دھیمی ہوئی ہے۔اب بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی پوری طاقت سے بنگال پر نظرلگائے بیٹھی ہے کیونکہ جلد ہی مغربی بنگال کا ریاستی الیکشن ہونے والا ہے۔

 2020میں چین اور امریکہ کے تعلقات میں کافی گراوٹ ہوئی ہے۔اس کی  وجہ امریکی صدر ٹرمپ کا بار بار چین پر یہ الزام لگانا کہ کوروناوائرس کا پھیلاؤ چین نے کیا ہے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تناؤکافی بڑھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کا چین کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی کافی خراب ہے۔ تاہم چین دنیا کے کئی ممالک میں اپنا کاروبار کامیابی سے پھیلا رہا ہے جس کی وجہ سے امریکہ اور ہندوستان گاہے بگاہے چین کی پالیسی پر نکتہ چینی کررہے ہیں۔

میں نے 2020کوکورونا سے پریشان اور مایوس کن سال محسوس کیاہے۔ جس سے ہم سب اب تک پریشان ِ حال ہیں۔  ہم امید رکھتے ہیں کہ انشااللہ کورونا کا خاتمہ ہوگا اور ایک بار پھر ہم اپنی عام زندگی کی طرف لوٹے گے۔اسی امید پر نیا سال مبارک ہو۔

Leave a Reply