You are currently viewing انالیٹیکا اور فیس بُک کی جاسوسی
ST PETERSBURG, RUSSIA - NOVEMBER 16, 2016: Glasses on a reflective surface in front of a computer screen showing Facebook logos. Sergei Konkov/TASS (Photo by Sergei KonkovTASS via Getty Images)

انالیٹیکا اور فیس بُک کی جاسوسی

ST PETERSBURG, RUSSIA – NOVEMBER 16, 2016: Glasses on a reflective surface in front of a computer screen showing Facebook logos. Sergei Konkov/TASS (Photo by Sergei KonkovTASS via Getty Images)

دو ہفتے قبل میں نے روس کے جاسوس کے حوالے سے ایک کالم لکھا تھا، جس میں برطانیہ اور روس کے درمیان جاسوسی کے تنازعہ پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ اسی کالم میں میں نے ایک پیراگراف یہ بھی لکھا تھا کہ حال ہی میں میرا تجربہ فیس بُک کے چند ان لوگوں کے تئیں مشکوک تھا جو چوری چھپے میری پوسٹ پر نظر رکھتے تھے ۔ میرے کئی مدّاحوں نے مجھے اس بات پر بتایا کہ میری بات میں بہت حد تک صداقت  ہے۔ کیونکہ میں نے اپنی بات دلیل کے ساتھ پیش کی تھی۔ تاہم میری پوسٹ اور کالم کو پڑھ کر کئی لوگ چوکنّا بھی ہو گئے۔

لیکن حیرانی تو مجھے تب ہوئی کہ میرے کالم کی اشاعت کے ایک ہفتے بعد ہی دنیا بھر میں اس خبر سے کھلبلی مچ گئی کے کیمبرج کی (Analytica)انالیٹیکا کمپنی جو ڈاٹا تحلیلات کرتی ہے اور فیس بُک نے مل کر کروڑوں لوگوں کی ذاتی تفصیلات کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو الیکشن جتوانے کے لئے استعمال کیا تھا۔ 17مارچ 2018 کواس بات کا سب سے پہلے انکشاف ’نیو یارک ٹائمز‘ ، ’ دی گارڈئین‘ اور’ دی آبزرور ‘ اخبارات نے کیا۔ ان اخبارات نے انالیٹیکا کمپنی اور فیس بُک پر الزام لگایا تھا کہ انالیٹیکا کمپنی نے فیس بُک کے استعمال کرنے والے پچاس ملین لوگوں کی ذاتی معلومات کو بنا اجازت انالیٹیکا کمپنی کو فراہم کیا تھا۔ 2016میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن مہم کی ٹیم نے کیمبرج کی انالیٹیکا کمپنی کو اس کام کے لئے خطیر رقم ادا کی تھی۔  ابھی یہ خبر دنیا بھر کے سیاستدانوں کے لئے درد سر بنی ہوئی تھی کہ دو روز بعد برطانیہ کی چینل 4 نے اپنے انڈر کور رپورٹر کے ذریعہ انالیٹیکا کمپنی کے چیف ایگزیکیوٹیو کو یہ کہتے ہوئے دکھایا کہ ان کی کمپنی کس طرح فیس بُک کے ساتھ مل کر فیس بُک استعمال کرنے والوں کا ڈاٹا چرا کر الیکشن اور دیگر کاموں کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔

انالیٹیکا کمپنی کے بواس الیزینڈر نکس نے اس ویڈیو میں یہ بھی بتایا کہ کس طرح سے ان کی کمپنی حریف پارٹیوں کے خلاف جھوٹی مہم چلا کر ان کی پارٹیوں کو جتوانے میں مدد پہنچاتی ہے۔ مثال کے طور پر سیاستدانوں کے لئے بازاری عورت کا انتظام کرنا اور کیمرے میں رشوت لیتے ہوئے دکھانے جیسے کئی واقعات ہیں۔ تاہم انالیٹیکا کمپنی نے ان باتوں جھوٹ بتایا ہے اور کہا کہ ویڈیو میں ترمیم کی گئی ہے۔ اور اسے توڑ مروڑ کر دکھایا گیا ہے۔ 2014میں فیس بُک نے ایک  کوئیز پروگرام کی شروعات کیا تھا جس کو کیمبرج یونیورسٹی کے ماہرِ تعلیم الیکزانڈر کوگن نے تیار کیا تھا۔ تاہم کیمبرج یونیورسٹی کا انالیٹیکا کمپنی سے کوئی تعلق نہیں۔ فیس بک نے ہزاروں لوگوں کو اس گیم میں حصّہ لینے کی دعوت دی۔ جس کے ذریعہ فیس بُک نے حصّہ لینے والوں کے ساتھ ان کے دوستوں کا بھی ڈاٹا حاصل کر لیا۔ اس طرح ہزاروں لوگوں نے اپنی ذاتی تفصیلات اس کوئیز گیم کے ذریعے فیس بُک کو فراہم کر دی۔ انالیٹیکا کمپنی کے ایک سابق ملازم کا الزام ہے کہ فیس بُک پر 270.000 لوگوں نے کوئیز گیم میں حصّہ لیا تھا اور ان لوگوں کے ساتھ ساتھ ان کے دوستوں اور رشتہ داروں کی ذاتی تفصیلات بھی  حاصل کر لی گئی تھیں۔  اس طرح لگ بھگ پچاس میلین لوگوں کا ڈاٹا حاصل کیا گیا۔ وہ سب کے سب امریکہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس کے بعد ڈاٹا کو انالیٹیکا کمپنی کو بیچ دیا گیا اور جس کے ذریعہ ان لوگوں کو ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں  ویڈیو یا پیغامات کو بھیجا جاتا تھا۔ انالیٹیکا کمپنی نے البتہ اس بات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ان کی کمپنی کا ٹرمپ کے الیکشن سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

فیس بُک نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان کو اس بات کی جانکاری نہیں تھی کہ ان کا ڈاٹا انالیٹیکا کمپنی ان مقاصد کے لئے استعمال کرے گی۔ فیس بُک نے یہ بھی کہا کہ جب انہیں اس بات کا علم ہوا تو کوئیز گیم کو فیس بُک سے ہٹا دیا گیا۔ فیس بُک کے مالک مارک جوکربرگ پانچ دنوں تک غائب رہنے کے بعد نمودار ہوئے اور انہوں نے اپنی صفائی میں کہا کہ انہیں ان باتوں کا علم نہیں تھا ۔ فیس بُک اس واقعہ کی چھان بین کر رہا ہے اور میں ان باتوں کا جواب دینے کے لئے تیا ہوں۔ دنیا بھر کے ممالک اور خاص کر امریکہ ، برطانیہ، ہندوستان سمیت یورپ نے مارک جوکربرگ کو طلب کیا ہے اور انہیں اپنے ایم پی کے سامنے پیش ہونے کے لئے کہا ہے تاکہ اس بات کا پتہ لگایا جائے کہ فیس بُک کا اس معاملے میں کیا رول رہا ہے۔ ہندوستان کے وزیر اعظم پر بھی شک کیا جارہا ہے کہ شاید انہوں نے لوگوں کے ڈاٹا کو چرا کر اپنی پارٹی کو جتوانے کے لئے استعمال کیا ہو۔

اس بات کا انکشاف ایک سیکورٹی ریسرچر الیٹ الڈرسن نے کیا ہے کہ وزیر اعظم کی ذاتی موبائل سے لوگوں کے ڈاٹا کو بنا اجازت امریکی کمپنی’ کلیور ٹیپ‘ کو بھیجا جارہا ہے۔ اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے اس کے جواب میں ایک طنزیہ ٹویٹ بھی کیا کہ ’ شکریہ ہندوستانی میڈیا جو آپ اتنی اہم خبر کو دفنا رہے ہیں‘۔ اگر دیکھا جائے تو ہندوستان میں 2014کے الیکشن سے لے کر جتنے بھی چھوٹے بڑے الیکشن ہوئے ہیں ان کے نتائج یا تو چونکا دینے والے ہیں یا پھر آدمی اس سوچ میں غرق ہو جاتا ہے کہ آخر کیوں بی جے پی کو فتح نصیب ہو رہی ہے۔ اگر تھوڑی دیر کے لئے مان لیا جائے کہ وزیر اعظم مودی اپنے موبائل کے ذریعہ لوگوں کے ڈاٹا کو کسی کمپنی کو اپنے مقصد کے لئے فراہم کر رہے ہیں تو اس میں حیرانی کی کوئی بات نظر نہیں آرہی ہے۔ مجھے کیمبرج کی انالیٹیکا کمپنی اور فیس بُک کی سازش سے کوئی حیرانی نہیں ہے کیونکہ اگر دیکھا جائے تو 9/11 کے واقع کے بعد ہم اور آپ سبھی پر کسی نہ کسی ذریعے سے تمام ممالک کی سیکورٹی ایجنسیاں نظر رکھ رہی ہیں۔ جس سے اب نکلنا ناممکن ہے۔ کیونکہ یہ ایک ضروری اور اہم کام ہے۔

لیکن جس طرح سے جھوٹے اور دھوکے باز سیاستدان اس کا استعمال کر رہے ہیں اس سے کہیں نہ کہیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ جمہوریت کا دم اب گھُٹ رہا ہے ۔ جس سے نقصان ان لوگوں کو ہورہا ہے جو دھاندلی، جھوٹ اور مکّاری کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ انالیٹیکا کمپنی اور فیس بُک پر کوئی پابندی لگے گی کیونکہ دونوں براہ راست یا بالواسطہ طور پر کسی نہ کسی کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ البتہ ہمارے جیسے معصوم لوگوں کا جینا دو بھر ہو جائے گا جو صراطِ مستقیم پر چلنے کے عادی ہیں اور ڈھلتی ہوئی  جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں۔

تاہم یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اردو صحافت کی اہمیت شاید اب اتنی نہ رہی ہو جس کی رپورٹنگ کو پڑھ کر حکومت یا پولیس اس کے خلاف کوئی کاروائی کرے۔ اگر میری بات انگریزی اخبار میں شائع ہوتی تو شاید ہم بھی خبروں کی سرخیوں میں ہوتے اور اردو دوست فخریہ ہماری باتوں کو یاد کرتے۔ تاہم مجھے اس کا کوئی ملال نہیں ہے۔ خوشی تو مجھے اس بات کی ہے کہ ہمارے قارئین میرے کالم کے ذریعہ اپنی معلومات میں
اضافہ کر رہے ہیں اور مجھے دعائیں دے رہے ہیں۔

Leave a Reply