You are currently viewing اللہ رحیم اور کریم ہے

اللہ رحیم اور کریم ہے

April 19

اپریل کو برطانیہ میں گڈ فرائی ڈے کی تعطیل تھی۔ اس موقعہ کا فائدہ اٹھا کر میں نے زمانے بعد اپنے قریبی عبادت گاہ ’موڈرن اسلامک سینٹر ‘ میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی کا رادہ کیا۔ تیار ہو کر ساڑھے بارہ بجے نماز کے لئے روانہ ہوئے۔ رینس پارک سے موڈرن کی دوری لگ بھگ بیس منٹ کی ہے۔ گڈ فرائی ڈے کی وجہ سے پارکنگ کی پابندی پر رعایت تھی۔ اس لئے آسانی سے گاڑی کو ایک رہائشی علاقے میں پارک کر کے موڈرن اسلامک سینٹر کی طرف چل پڑا۔ تھوڑی دیر کے بعد موڈرن اسلامک سینٹر میں داخل ہوئے تو وہاں کام کرنے والے دو محنتی نوجوان وٹّو اور امجد میاں سے ملاقات ہوئی۔ دونوں نے میرا محبتوں سے استقبال کیا ۔ اندر جیسے ہی داخل ہوا تو عبادت گاہ کو گڈ فرائی ڈے کی وجہ سے نمازیوں سے کھچا کھچ بھرا پایا۔کسی طرح آخری صف میں جگہ ملی اور ہم وہی بیٹھ گئے۔ عبادت گاہ کا داہنہ حصّہ ضعیف لوگوں کے کرسیوں سے بھرا ہؤا تھا۔
موڈرن اسلامک سینٹر کا قیام چند سال قبل آیاہے۔ اس سے قبل مقامی لوگوں کی کوششوں سے ایک چھٹی سی جگہ کو کرایے پر لے کر نماز اور بچوں کے لئے دینی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ دھیرے دھیرے جب لوگوں کو اس بات کا علم ہوا کہ موڈرن کے علاقے میں نماز کا سلسلہ شروع ہو اہے تو بھیڑ بڑھنے لگی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جمعہ کی دو جماعتیں ہونے لگیں۔ اسی دوران ایک میمن کاروباری نے اپنے طور پر ایک شراب خانے کو جو بند ہوگیا تھا خرید کر اس جگہ کو موڈرن اسلامک سینٹر بنانے کا ارادہ کیا۔ مقامی لوگوں کے تعاون اور میمن صاحب کی سخاوت سے شراب خانے کو عبادت گاہ بنا دیا گیا۔ جس سے مقامی لوگوں کو نماز پڑھنے کی سہولت مل گئی۔
اس جگہ کو پہلے ’کراؤن پب‘ کہتے تھے جو کہ ایک تاریخی جگہ تھی۔برطانیہ میں ایک مخصوص شراب پینے کی جگہ ہوتی ہے جسے (Pub) ’پب‘ کہا جاتا ہے۔ اس شراب خانے میں ایسے لوگ شراب پینے جاتے تھے جو نسلی بھید بھاؤ کے حمایتی تھے۔ اس شراب خانے کے اوپر ’نائٹ کلب ‘ بھی کافی عرصے تک نوجوانوں کے عیاشی کا اڈہ تھا۔
جمعے کی نماز سے قبل امام بلال پٹیل نے خطبے میں نیوزی لینڈ میں حال ہی میں انتہا پسند کے ہاتھوں مارے گئے مسلمانوں کے حوالے سے کئی اہم باتیں بتائیں۔ امام پٹیل برطانیہ کے لیسٹر علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں انگریزی اور اردو زبان پر عبور حاصل ہے۔ قرآن کی تلاوت کے ساتھ ساتھ دینی معاملے میں بھی ماہر ہیں۔ امام پٹیل نے جذباتی انداز میں نمازیوں کو یہ بتایا کہ ’ہم کس قدر دوسروں کے بارے میں اپنی رائے قائم کر دیتے ہیں‘ ۔ اما م پٹیل کا اشارہ نیوزی لینڈ میں مرنے والے ان مسلمانوں کی طرف تھا جو مسجد میں دورانِ نماز مارے گئے تھے۔ جس کے بعد بہت سارے لوگوں نے فیس بک پر یہ لکھنا شروع کر دیا کہ’ یہ سارے لوگ جنّتی ہیں‘۔امام بلال پٹیل کا کہنا تھا کہ ہم کسی کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں ۔ کیونکہ اللہ بڑا ڑحیم اور کریم ہے تو اسے پتہ ہے کہ کون جنّتی ہے اور کو ن گنہہ گار ہے۔ امام بلال پٹیل نے یہ بھی بتایا کہ بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو کبھی سجدے میں سر نہیں جھکاتے لیکن ان کا ایک کام اللہ کو اتنا پسند آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کو جنّت نصیب کر دیتا ہے۔
دراصل امام بلال پٹیل اس بت کی وضاحت کررہے تھے کہ بہت سارے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ نماز پڑھتے ہوئے دیگر غلط کاموں کو انجام دے کر جنّت میں داخل ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں۔ایسا دیکھا بھی جاتا ہے کہ ہم کسی داڑھی رکھے ہوئے انسان خواہ وہ کردار میں جیسا بھی ہو اس کو مذہبی مان کر کئی بار دھوکہ بھی کھا جاتے ہیں۔ حالانکہ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہر داڑھی رکھے ہوئے انسان برا ہوتا ہے۔ لیکن ہم اپنے اندر ایک رائے قائم کرنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہو کر ایسی باتوں سے گمراہ ہو جاتے ہیں۔
اسلام میں ایمان اور نیت کو ہمیشہ ترجیح دی جاتی ہے۔ مثلاً کوئی نماز یا دینی فریضہ بنا نیت کے شروع نہیں کیا جا سکتا ہے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے توقع کی جاتی ہے کہ اللہ ہماری عبادت اور دینی فرائض کو قبول فرمائے گا۔ اس کے باجود کسی کو یہ نہیں پتہ کہ کیا واقعی اللہ اس کی عبادت کو قبول کرتا ہے یا اس کے عوض میں اسے آسانیاں نصیب ہوتی ہیں۔
اگر تھوڑی دیر کے لئے ہم اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم ہر گھنٹے نہیں تو روزانہ کئی غلطیاں کرتے ہیں جس کا ہمیں علم ہوتے ہوئے بھی لاپرواہ بن جاتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتیں ایسی ہیں جو ہم روزمرہ کی زندگی میں اکثر اس سے دوچار ہوتے رہتے ہیں۔ ستم تو یہ بھی ہے کہ ہم اپنی اصلاح نہ کر کے دوسروں کے بارے میں ہمیشہ رائے قائم کرتے رہتے ہیں۔ تبھی تو ہم کسی کو نماز پڑھنے کی تاکید تو کرتے ہیں لیکن خود فجروقت سے پڑھنے کی بجائے نیند کو ترجیح دیتے ہیں۔ دوسروں کو حج کے فرائض انجام دینے کی تلقین کرتے ہیں جبکہ خود حج کے بعد مال ہڑپ کرنا یا اس خوش فہمی میں رہنا کہ اللہ نے ہماری تمام غلطیوں کو معاف کر دیا ہے۔اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔ ممکن ہے کہ اللہ ان عبادات کی وجہ سے خوش ہو کر اس بندے کو معاف کر دیتا ہے اور اس کے لئے جنت میں اعلیٰ مقام مہیا کر دے۔
انسان چاہے جتنا بھی پرہیز گار یا عبادت گزار کیوں نہ ہو رہتا وہ انسان ہی ہے۔ تبھی فطرتاً وہ آئے دن غلطیاں کرتا رہتا ہے۔ کبھی چھوٹی چھوٹی غلطیاں تو کبھی ایسی غلطیاں جس کو وہ اپنی انا اور ہٹ دھرمی کا اصول مانتا ہے۔ اسلام میں صاف صاف طور پر غلط اور صحیح کے بارے میں بار بار ہدایت دی گئی ہے۔ تاہم غلط ہونے یا غلطی کرنے پر توبہ مانگنے کا بھی موقع دیا گیا ہے۔ اسلام میں یہی خوبیاں ہیں جو انسان کو غلط راستے سے صحیح راستے پر لانے کا ایک عمدہ ذریعہ ہیں۔
میں نے نماز میں اس بات کو محسوس کیا ہے کہ سجدہ ہمیں اس بات کا درس دیتا ہے کہ ہم چاہے جتنے طاقت ور ،دولت مند یا گنہہ گار ہوں سجدہ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرتا ہے۔ کیونکہ ہم نے سجدہ کر کے اپنی انا ، گھمنڈ اور طاقت کو سجدے کے ذریعہ اپنے اندر سے نکال پھینکا ہے۔
موڈرن اسلامک سینٹر میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی اور امام بلال پٹیل کے خطبے سے آج مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ ہم دوسروں کے بارے میں جو رائے قائم کرتے ہیں اس سے ہمیں گریز کرنا چاہیے۔ کیونکہ ہمیں اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ وہ انسان کون سے نیک کام کرتا رہتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔اس کے علاوہ دوسروں کے خد وخال کو دیکھ کر اپنے ذہن میں کوئی رائے قائم نہیں کرنی چاہئے۔ اسی لئے ہم اور آپ اکثر دھوکہ کھا جاتے ہیں اور اس سے سبق حاصل کرنے کی بجائے پھر ویسے ہی غلطیاں دہراتے رہتے ہیں۔
برطانیہ میں مسلمانوں کے لئے عبادت کی جگہ تقریباً ہر علاقے میں موجود ہے۔ جو کہ ایک خوش آئیند بات ہے۔ برطانیہ تمام مذہب کے لوگوں کو اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنی مذہبی ضروریات کو پورا کرے۔ اسی لئے ہسپتال وغیرہ میں بھی نماز پڑھنے کا انتظام ہوتا ہے۔
لیکن ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ ہم صرف عبادت کر کے کسی خوش فہمی میں رہنے کی بجائے ان کاموں کو بھی انجام دیں جو انسانیت کے لئے بہت اہم ہیں۔

Leave a Reply