You are currently viewing استنبول یونیورسٹی میں کانفرنس اور ترکش باتھ

استنبول یونیورسٹی میں کانفرنس اور ترکش باتھ

دنیا کے مقبول ترین شہر استنبول جانا ہر کسی کا خواب ہوتا ہے۔ یوں تو میں استنبول پہلے چار دفعہ جا چکا ہوں۔ اس کا آغاز بھی 2015 میں اس طرح ہؤا جب استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردو نے اپنا سو سالہ جشن منایا تھا۔ میری خوش نصیبی تھی کہ مجھے اس تقریب اور عالمی کا نفرنس میں برطانیہ سمیت ہندوستان اور اپنے محبوب شہر کلکتہ کی نمائندگی کرنے کا موقعہ ملاتھا۔اس کے بعد  مجھے استنبول شہر سے ایسا عشق ہو اکہ ہر سال کسی نہ کسی بہانے استنبول کا دیدار ہو جاتاہے۔

پچھلے مہینے استنبول یونیورسٹی کی دعوت پر مجھے اس بار پھر دورہ کرنے کا موقعہ نصیب ہوا۔ اس بار استنبول یونیورسٹی مشرق کے دو عظیم شعرا  علامہ محمد اقبال اور عاکف ار سوائے کے حوالے سے ترکی کی جنگِ آزادی کے سوسالہ جشن میں مجھے دعوت دی۔ سچ پوچھئے تو اردو کانفرنس میں جانے سے میں کتراتا ہوں۔ اس کی ایک وجہ کانفرنس کا بے معنی ہونا اور دوسرا ڈیلی گیٹ یا مندوبین کا غیر معیاری ہونا۔ لیکن بھائی راشد کے اصرار اور محبت نے اس کانفرنس میں شرکت کے لئے مجبور کر دیا کیونکہ یہ کانفرنس ترکی کی جنگِ آزادی اور دو عظیم شاعروں کی یاد میں تھی۔

اتوار 28اپریل کی رات دس بجے ترکش ائیرلائنز کی فلائٹ سے استنبول کے لئے روانہ ہوا۔ گھر سے  لندن کے  ہیتھرو ائیرپورٹ کے ٹرمینل 2 پر کوئی چالیس منٹ میں پہنچ گیا۔ ہیتھرو ائیر پورٹ دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ مصروف ترین ائیر پورٹ ہے۔ ہیتھرو ائیر پورٹ ہمیشہ کی طرح مسافروں سے بھرا ہوا تھا۔سیکورٹی وغیرہ کے چیک کے بعد کچھ وقت ڈیوٹی فری شاپس میں گزارا۔  اس کے بعد پرواز کے ذریعے  استنبول  روانہ ہوئے  اور کانفرنس میں شرکت کرنے کے متعلق سوچنے لگے۔ نہ جانے کب آنکھ لگ گئی کہ کسی نے یہ پوچھ کر جگا دیا کہ’آپ کیا کھائیں گے‘۔ لندن سے استنبول لگ بھگ ساڑھے تین گھنٹے کا سفر ہے۔جس کی وجہ سے اس میں نیند سونا، کھانا اور دیگر لوازمات کے لئے وقت کافی نہیں ہوتا۔
ترکی وقت کے مطابق صبح کے پونے چار بجے ہمارا جہاز استنبول کے نئے ائیر پورٹ پر وقت سے آدھے گھنٹے قبل لینڈ کر گیا۔ استنبول کا نیا  ائیر پورٹ واقعی ایک بڑا ائیر پورٹ دِکھ رہا تھا۔یہ دنیا کا سب سے بڑا ائیر پورٹ بھی ہے۔ کافی دور چلنے کے بعد سیکورٹی سے باہر نکل کر ایک بس پر سوار ہو کر’تقسیم‘کی طرف روانہ ہوگیا۔دراصل راشد میاں نے مجھے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ نئے ائیر پورٹ سے ٹیکسی کافی مہنگی پڑے گی اور میٹرو کی سہولت ابھی دستیاب نہیں ہے۔ تاہم بس سروس کافی آرام دہ اور آسان تھی جس کے ذریعہ ہم چالیس منٹ میں ’تقسیم‘ پہنچ گئے۔تقسیم سے ایک ٹیکسی پر سوار ہو کر پروفیسر راشد کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔
پروفیسر راشد سے میری پہلی ملاقات 2015میں ہوئی تھی جب استنبول یونورسٹی نے عالمی اردو کانفرنس  منعقد کی تھی۔  پروفیسر راشد کا تعلق ہندوستان کے صوبہ یوپی سے ہے۔ ان کے گھر والے اب بھی لکھنؤ میں آباد ہیں۔ پروفیسر راشد کی اعلیٰ تعلیم ہندوستان کی معروف جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے ہوئی ہے۔ انہیں اردو کے علاوہ فارسی، ترکی اور انگریزی زبان پر بھی عبور حاصل ہے۔ محنتی تو ہیں ہی لیاقت اور صلاحیت میں بھی اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ میں نے راشد میاں کی مقبولیت ان کے ترکی طلبائکے درمیان دیکھی جو ان سے بے حد محبت کرتے ہیں۔
تھوڑی دیر آرام کر کے میں پروفیسر راشد کے ساتھ استنبول یونورسٹی نکل گیا۔ راستے میں ترکی ناشتہ اور ترکی چائے سے بھی لطف اندوز ہوا۔ کانفرنس کا اہتمام استنبول یونورسٹی کے معروف تاریخی مدرسہ احمدحسن پاشا میں کیا گیا تھا۔ کانفرنس کے پہلے دن ترکی زبان میں تمام مقالے پڑھے گئے۔ جن میں ترکی پروفیسر خاص کر انکارہ یونیورسٹی سے تشریف لائی ہوئی  صدر شعبہ اردو محترمہ آسمان اور پروفیسر داؤد کا نام قابل ذکر ہے۔اس کے علاوہ ہمارے راشد میاں نے بھی ترکی زبان میں اپنا مقالہ پڑھا جسے سامعین نے کافی پسند کیا۔
کانفرنس کا دوسرا دن بیرون ممالک سے آئے مندوبین کے مقالے پڑھنے کا تھا۔ جس میں جرمنی سے تشریف لائی عشرت معین سیما،ڈنمارک سے تشریف لائی صدف مرزا،  اسپین سے رانا  اور برطانیہ سے تشریف لائی مہہ جبیں غزل انصاری اور احسان شاہد چودھری اور راقم الحروف تھے۔ میرے مقالہ کا عنوان تھا’اقبال کا سفر رومان سے قرآن تک‘۔ اس کانفرنس میں عشرت معین سیما اور رانا صاحب کے علاوہ باقی مقالے بوجھل اور غیر معیاری محسوس ہوئے۔ مجھے محسوس ہوا شاید ان لوگوں نے اس کی تیاری نہ کی ہو یا ان کا اعتماد امید سے زیادہ تھا۔
کانفرنس کو کامیاب بنانے میں جن لوگوں نے اپنا قیمتی وقت صرف کیا ان میں شعبہ اردو کے صدر  خلیل طوقار، پروفیسر جلال صوئیدان، زکائی کارداس اور آرزو کا نام قابلِ ذکر ہے۔ڈاکٹر خلیل طوقار اپنی طبعیت کی ناسازی اور سفر کی تھکان کے باوجود اس کانفرنس کو کامیاب بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ ی۔اس کے علاوہ شعبہ اردو کے محسن اور خدیجہ نے بھی نمایاں رول نبھایا تھا۔
استنبول یونیورسٹی کی کانفرنس کے خاتمے کے بعد تمام مہمان اپنی اپنی منزل کو رخصت ہوگئے لیکن ہم پروفیسر راشد کی نجی دعوت پر مزید چند دنوں کے لئے  ٹھہر گئے۔ کبھی میں اور راشد میاں استنبول کی تاریخی گلیوں کی سیر کرتے تو کبھی استنبول کی اہم علاقوں کی رونق سے لطف اندوز ہوتے۔ اس طرح استنبول کی ہماہمی اور ثقافت سے میں نے بھر پور لطف اٹھایا۔
استنبول سے واپسی میں محض ایک دن رہ گیا تھا۔ میں نے پروفیسر راشد سے گزارش کی کہ بھائی مجھے ترکش باتھ لینا ہے۔ راشد میاں نے اپنے اثر ورسوخ سے پتا لگایا کہ شہر کے کن علاقوں میں ترکش باتھ اعلیٰ اور عمدہ دستیاب ہے۔آخر کار راشد میاں کے گھر کے قریب ہی ایک ترکش باتھ کا پتہ مل گیا۔ میں راشد میاں کے ہمراہ ترکش باتھ لینے نکل پڑا۔ راستے بھر ذہن میں خوشی کا ایک عجیب سماں سا بندھا ہوا تھا۔ پچھلے چار سفر میں ترکش باتھ نہ لینے کا کافی ملال تھا جو خواہش  راشد میاں کی وجہ سے  ہورہی تھی۔ میں  سوچ کے تانے بانے بن رہا تھا کہ ایک عمارت کے پاس پہنچ کر راشد میاں نے حمام پہنچنے کا اعلان کر دیا۔ عمارت کے اندر داخل ہوتے ہی پورا ماحول مختلف پایا۔ کئی لوگ تولیہ لپیٹے اوپر نیچے ٹہل رہے تھے۔ مجھے اس وقت اردو کا محاورہ ’حمام میں سب ننگے ہیں‘ یاد آگیا۔
میں راشد میاں کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے چینجنگ روم پہنچ گیا۔ راشد میاں کی ترکی زبان کی وجہ سے گفتگو کرنے میں زیادہ دقّت نہیں ہوئی۔ ہم نے ایک ہاف پینٹ پہنی اور حمام میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے پانی کے گرنے کے شور سے حمام میں موجودگی کا احساس ہوا۔ پورا حمام سنگِ مرمر سے سجا ہوا تھا۔ کئی چھوٹے چھوٹے کمروں میں لوگوں کے نہانے کا انتظام تھا۔ حمام کے بیچ میں ایک چبوترا تھا جس پر بیٹھتے ہی گرمی کااحساس ہوتا تھا۔ میں اور راشد میاں حمام کے چھوٹے کمرے میں داخل ہو کر گرم اور ٹھنڈے پانی سے نہا رہے تھے کہ کسی نے آواز دی کہ باہر آجائے۔ باہر آتے ہی ایک جگہ ایک آدمی کو لیٹا پایا جس کے اوپر ایک موٹا تگڑا آدمی پوری قوت سے جسم پر صابن سے مالش کر رہا تھا۔ میں بھی ایک کونے میں بیٹھ گیا اور نہانے کے لطف سے فرحت محسوس کررہا تھا کہ اچانک ایک پہلوان جیساآدمی میرے سامنے آیا اور کہنے لگا ’میرا نام حاجی یونس‘  ہے۔ اسے دیکھتے ہی مجھے خوف سا محسوس ہوا۔ مرتا کیا نا کرتا۔ اب تو میں اس کے حوالے تھا۔ پھر اس نے اپنے مضبوط ہاتھوں سے میرے جسم پر صابن ملنا شروع کیا تو میرے منہ سے کبھی ’اوہ‘ تو کبھی’آہ‘ کی چینخ نکلتی۔ لیکن حاجی یونس کو میری آہ اور اوہ سے کیا لینا دینا، انہیں تو آج ایک معصوم جسم ملا تھا جسے جی بھر کے رگڑ دیا۔ اللہ کی پناہ کچھ دیر کے لئے ایسا محسوس ہوا کہ ہم ترکش باتھ نہیں بلکہ ذبح ہونے آئے ہیں۔
راستے بھر راشد میاں کی اس بات سے تسلی ملتی رہی کہ فہیم بھائی اب آپ اتنا اچھا محسوس کریں گے کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ مجھے راشد میاں کی بات سے خوشی تو محسوس ہورہی تھی لیکن میں کیسے راشد میاں کو بتاؤ ں کہ جس حاجی نے میرے جسم کو رگڑا ہے وہ حاجی کم اور پاجی زیادہ لگ رہا تھا۔ترکی باتھ کی خواہش سے مجھے علامہ اقبال کا یہ شعر بار بار یاد آرہا تھا:
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
اس طرح استنبول کا یہ سفر ایک بار پھر ایک یادگار سفر بن گیا۔ جہاں میری ملاقات کئی نئے لوگوں سے ہوئی تو وہیں میرا پیار  استنبول شہر سے اور بھی گہرا ہوگیا۔

Leave a Reply