اساتذہ کو اسکول میں بندوق رکھنے کا مشورہ

اساتذہ کو بھی بندوق رکھنا ہوگا۔ بھائی یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ یہ بیان دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا ہے۔ ویسے بھی ٹرمپ صاحب اس سے پہلے بھی ایسے اوٹ پٹانگ بیان دے چکے ہیں۔ مثلاً میکسیکو کی سرحد پر دیوار کھڑی کرنے کی بات یا مسلمانوں کو امریکہ آنے پر پابندی یا یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی ماننا۔ اس طرح کے بیان دینے کی ایک وجہ شاید ڈونلڈ ٹرمپ کا دماغ کام نہیں کرتا ہے یا وہ بولنے سے قبل سوچتے نہیں ہیں کہ انہیں کیا بولنا چاہئے اور کیا نہیں بولنا چاہئے۔

ویسے یہ مسئلہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ کا ہی نہیں ہے بلکہ اگر آپ نظر دوڑائیں تو دنیا کے بیشتر سیاست داں آج کل ایسے ہی اوٹ پٹانگ بیانات دے رہے ہیں۔ جس سے عام آدمی تھوڑی دیر کے لئے حیران و پریشان ہوجاتا ہے کہ ان لوگوں کو کیسے لوگوں نے لیڈر منتخب کیا ہے۔ تھوڑے دن قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے پوچھا گیا کہ ہندوستان میں روزگار اتنے نہیں فراہم کئے گئے جتنا کہ انہوں نے حکومت میں آنے سے قبل کہا تھا۔ تو وزیر اعظم نریندر مودی کے جواب سے ہندوستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ان کے جواب کا نہ صرف مذاق اڑا یا گیا بلکہ لوگوں نے حیرانی بھی جتائی کہ آخر ہندوستان جیسے عظیم ملک کے وزیر اعظم نے کیسا مضحکہ خیز جواب دیا۔ نریندر مودی نے کہا کہ ایک پکوڑے بیچنے والا بھی روزگار پر ہے اور پیسے کما رہا ہے۔  مجھے ان کی بات سے حیرانی سے زیادہ دکھ ہوا کیونکہ نریندر مودی نے صرف سوال کا جواب ہی غلط نہیں دیا بلکہ انہوں نے عظیم ملک ہندوستان کا نام بھی خراب کیا۔ بھلا آپ ہی بتائیے کہ ایک پکوڑے بیچنے والے اور حکومت کے روزگار فراہم کرنے کی بات میں کتنا فرق ہے۔ خیر میں نے اس مثال کو یہاں اس لئے لکھا تاکہ آپ کو پتہ چلے کے دنیا کے عظیم ممالک میں کیسے کیسے لوگ لیڈر بن بیٹھے ہیں۔ جن کا پس منظر دیکھا جائے تو وہ یا تو جرم کی دنیا کے بادشاہ تھے یا دولت مند تھے یا چائے بیچنے کا فن جانتے تھے۔ یوں بھی میں کسی پیشے یا پس منظر پر یقین نہیں کرتا ہوں ۔ لیکن جب ایسے لیڈروں کی اوٹ پٹانگ باتیں سنتا ہوں تو مجھے افسوس کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ان لوگوں کے دماغ میں بھس کیوں بھرا ہؤا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اپنے اس بیان سے لوگوں کے اندر خوف کا ماحول اور بڑھا دیا ہے۔ دراصل واقعہ یہ ہے کہ حال ہی میں فلوریڈا کے پارک لینڈ اسکول میں ایک سابق طالب علم نیکولاس کروز نے  بندوق سے گولی چلا کر 17طلاب علموں کی جان لے لی۔2012 میں ایسا ہی ایک واقعہ کنیکٹی کٹ میں ہوا تھا جب 26طالب علموں کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ کروز نے اسکول میں داخل ہونے کے بعد آگ والے الارم کو بند کرکے گولی چلانا شروع کردی۔ پولیس نے گولی چلانے والے کروز کو گرفتار کر لیا ہے ۔  اسکول کی ایک طالبہ نے بتایا کہ کروز کی اپنی محبوبہ کے نئے عاشق سے لڑائی کی تھی جس کی وجہ سے چند ماہ قبل اسے اسکول سے نکال دیا گیا تھا۔ تاہم ابھی کروز نے کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ پولیس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے اور اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہی ہے کہ کروز نے آخر کیوں اتنے طالب علموں کی جان لے لی۔ کہا جارہا ہے کہ کروز نے AR-15 بندوق قانونی طور پر خریدی تھی اور اسے اپنے گھر میں چھپا کر رکھا تھا۔ پڑوسیوں اور دوستوں کا کہنا ہے کہ کروز اکثر مرغیوں کو  بندوق سے مارتا رہتا تھا ۔

امریکہ میں گولیوں کا چلنا اور لوگوں کی جان لینا ایک عام سے بات ہوگئی ہے۔ ہر مہینے نہیں تو کم سے کم ہر سال ایسے واقعات ہو رہے ہیں جہاں ایک آدمی اپنی بندوق سے کئی لوگوں کی جان لے رہا ہے۔ اس کی کئی وجوہات  ہیں مثلاً ذہنی خرابی، رشتے کی دشواری، بے روزگاری وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس کے علاوہ امریکہ میں بندوق کی آسانی سے دستیابی بھی ایک اہم وجہ  ہے۔ لگ بھگ 40%فی صد امریکی بندوق کے مالک ہیں۔ 2016 میں 11,000ہزارامریکی لوگوں کوکسی نہ کسی وجہ سے گولیوں سے مار ڈالا گیا تھا۔ امریکہ دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جہاں عام لوگوں کے پاس سب سے زیادہ بندوقیں ہیں۔ 1982کے بعد امریکہ میں بڑے پیمانے پر 90 سے زائد شوٹنگ ہوئی ہیں۔ 2014میں  33,594 لوگوں کی جانیں گولی لگنے سے ضائع  ہوئی تھیں۔ جن میں 21,386 لوگوں نے گولی مار کر خود کشی کی تھی۔ 11,008لوگوں کی جانیں بنا کسی وجہ کی لی گئیں۔ تاہم  2017میں لاس ویگس میں 58 لوگوں کی جانیں بڑے پیمانے پر لی گئی تھیں۔ امریکہ میں ایک بندوق کی قیمت لگ بھگ 1500ڈالر ہے۔ جبکہ ایک پستول کی قیمت لگ بھگ 200ڈالر ہے۔ امریکہ میں بندوق رکھنے کے قانون سے عوام میں مختلف رائے پائی جاتی ہے۔ زیادہ تر امریکی بندوق کی پابندی کے خلاف ہیں تو اہیں بہت سارے امریکی بندوق کے قانون میں سختی لانے کی بھی مانگ کر رہے ہیں۔ تاہم امریکہ کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں میں بھی بندوق رکھنے کے قانون میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ڈیموکریٹ بندوق رکھنے کے قانون میں سختی لانا چاہتی ہے تو وہیں ری پبلیکن بندوق قانون میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کرنا چاہتی ہے۔

پچھلے کئی برسوں سے جب بھی بڑے پیمانے پر کوئی شوٹنگ ہوئی ہے تو اس میں امریکہ کا ہی نام ہمیشہ پایا گیا ہے۔ مختلف تنظیموں کے ذریعہ اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ امریکیوں کو بندوق یا پستول رکھنے کا شوق ہے۔ لیکن وہیں اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے کہ پورا امریکہ بندوق کلچر سے تباہ ہورہا ہے۔ مختلف ریسرچ اور تجزیہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں بندوق رکھنا یا تواپنی جان کی حفاظت کرنا ہے یا پھر امریکی بندوق یا پستول رکھنا اپنی شان سمجھتے ہیں۔ اب امریکی چاہے جو سمجھیں لیکن فلوریڈا میں 17طالب علموں کو گولی سے مارے جانے کے واقعہ نے ایک بار پھر امریکیوں کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا بندوق یا پستول رکھنے کے قانون میں سختی لانی چاہئے۔ لیکن وہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی احمقانہ بات سے بھی لوگوں میں بے چینی بڑھ گئی ہے ۔ جس میں انہوں نے اساتذہ کوبندوق یا پستول اسکول لے کر جانے کا مشورہ دیا ہے۔

میں ان 17طلب علموں کی جان لینے کی سخت مذمت کرتا ہوں اور ان کے والدین کے غم میں برابر کا شریک ہونا چاہتا ہوں۔ لیکن وہیں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کی بھی مذمت کرنا چاہتا ہوں جس میں انہوں نے اساتذہ کو بندوق اٹھانے کی بات کہی ہے۔ دنیا جب سے قائم ہوئی ہے علم سیکھنا اور سکھانا سماج کی ایک اہم ذمّہ داری رہی ہے۔علم نے ہمیشہ اسلحہ پر سبقت پائی ہے اور دنیا کو علم کے ہی ذریعہ امن کا پیغام پہنچایا ہے۔ مجھے امید ہے کہ امریکہ سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں علم، بندوق اور پستول کو مات دے گی اور لوگوں میں امن کا بول بالا ہوگا۔

Leave a Reply