اردو زبان کی حرمین میں موجودگی اورعمرہ کی سعادت

الحمداللہ اردو زبان کو یہ سعادت نصیب ہے کہ حرم شریف میں لاکھوں عازمین کی خدمت انجام دے رہی ہے۔ حرم شریف میں کئی زبانوں میں عازمین کی آسانی اور سہولت کے لئے جگہ جگہ اطلاعات فراہم کی گئی ہیں۔ اردو زبان کی موجودگی کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ عمرہ اور حج کرنے کے لئے ہر سال آتے رہتے ہیں۔ ویسے بھی بر صغیر کے زیادہ تر عازمین اردو بولنے والے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اردو زبان کو جاننے والے یورپ، امریکہ ، افریقہ اور دیگر ممالک کے لوگ بھی ان مقدس مقامات مین آتے ہیں۔

جون کے مہینے میں میں نے ایک خواب دیکھا جس میں میں نے خود کو سفید سنگِ مرمر کے فرش پر چلتے ہوئے پایا تھا۔ اس وقت یہ بات سمجھ میں نہیں آئی لیکن ایسا سفید سنگِ مرمر میں نے ٹیلی ویژن پر صرف حرم شریف میں ہی دیکھا تھا۔ کئی روز بعد اپنے ایک قریبی عزیز شاہد چودھری سے اس خواب کا ذکر کیا تو انہوں نے برجستہ کہا کہ ’آپ کا بلاوا آیا ہے‘۔ میں نے چودھری صاحب کی بات  سنی ان سنی کر دی۔ نومبر کے مہینے میں ایک دن میں اپنے ایک قریبی دوست بھائی عرفان کو فون کیا اور عمرے پر جانے کی خواہش ظاہر کی۔ بھائی عرفان نے مجھ سے چند دنوں کی مہلت مانگی اور وعدہ کیا کہ وہ ہمارے عمرے کے سفر کا تمام بندوبست کر دیں گے۔ 10دسمبر کی شام میں اپنی بیگم ، بیٹی اور خوش دامن کے ساتھ لندن کے معروف ہیتھرو ائیر پورٹ کی جانب چل پڑا۔ 10دسمبر سے قبل ہماری کیفیت ایسی تھی کہ ہم اپنی بیقراری کا اظہار لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے۔ جوں جوں دن قریب آتا گیا ہماری بیقراری میں اضافہ ہوتا گیا۔ اعصابی کیفیت الگ طاری تھی اور ذہن میں ملے جلے کئی سوالات ابھر رہے تھے۔ کئی لوگوں نے اپنے اپنے طور پر احرام پہننے کی صلاح دی تو وہیں میں نے یو ٹیوب کی ویڈیو کے ذریعہ بھی احرام کو پہننے کا طریقہ سیکھ لیا۔

ہیتھرو ائیرپورٹ کے ٹرمینل چار سے سعودی ہوائی جہاز پر سوار ہوگیا اور اپنی سیٹ پر بیٹھا اسی بات کو سوچ رہا تھا کہ اب میں مکّہ اور مدینہ جا رہا ہوں۔ راستے بھر عمرہ کے حوالے سے ایک کتاب خرید رکھی تھی جس کا بغور مطالعہ کرتا رہا۔ تین گھنٹے کے بعد پائیلٹ نے اعلان کیا کہ میقات سے ہم گزر رہے ہیں جنہیں احرام پہننا ہے وہ پہن لے۔  اعصابی صورتِ حال میں جب میں جہاز کے پیچھے نماز پڑھنے کی جگہ پہنچا تاکہ احرام پہن لوں تو جہاز کے اسٹاف نے مجھے بیت الخلاء میں جانے کا مشورہ دیا۔ مجھے جہاز کے عملہ کی اس حرکت سے کافی مایوسی ہوئی لیکن میں کر بھی کیا سکتا تھا۔ کسی طرح احرام کو پہن کر دو رکعت نفل نماز پڑھی اور عمرہ کی نیت کرکے اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔

چند گھنٹے بعد پائیلٹ نے جدّہ ائیر پورٹ پر جہاز اترنے کا اعلان کیا تو پورے جسم میں ایک روحانی کیفیت طاری ہوگئی۔ ائیرپورٹ پر سیکورٹی اور ویزا کی جانچ کے بعد باہر نکل گیا۔ سامنے ہی میرے اسکول کے دوست بھائی قیوم باہیں پھیلائے میرے استقبال کے لئے کھڑے تھے جن سے میری اٹھائیس سال بعد ملاقات ہوئی تھی۔ قیوم کا تعلق کلکتے سے ہے اور پچھے کئی برس سے سعودی میں نوکری کر رہے ہیں۔ میں نے قیوم کو اسکول کے دنوں کی بات یاد دلائی اور ہم دونوں کچھ پرانی باتوں کے بعد ائیر پورٹ کے ایک کونے میں چلنے لگے۔ تبھی ہمارا ڈرائیور مجھے مخاطب کرکے مجھے گاڑی کی طرف چلنے کی درخواست کی۔ قیوم نے مجھ سے اجازت مانگی اور مکّہ میں ملنے کا وعدہ کرکے اپنی گاڑی کی طرف روانہ ہو گئے۔ جاتے جاتے قیوم نے کہا کہ فہیم آپ بالکل نہیں بدلے ہیں۔ میں نے اپنے دوست قیوم کی طرف مسکرا کر دیکھا اور اپنی عاجزی پر فخر کر نے لگا۔  دو گھنٹے بعد ہماری گاڑی مکّہ معظمہ میں داخل ہوئی تو ہمیں کعبہ کے اونچی اونچی میناروں کا دیدار کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ اس وقت ہم اپنی کیفیت کا اظہار چند لفظوں میں نہیں کر سکتے ہیں۔ ڈرائیور نے ایک عالیشان ’انجم ‘ ہوٹل کے باہر گاڑی لگا دی اور ہمیں چیک اِن کے لئے ہوٹل کے اندرجانے کو کہا۔

ہوٹل میں سامان رکھ کر جیسے ہی نیچے آیا محمدعارف ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ عارف میاں مکّہ کے کونارڈ ہوٹل میں بحیثیت منیجر کام کرتے ہیں اور میری گزارش پر انہوں نے چھٹّی لے رکھی تھی۔ یوں تو عارف میاں سے میری پہلے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن عارف میاں کی نرم گفتگو اور سادگی نے ہم دونوں کو فوراً ہی بلا تکلّف کر دیا۔ عارف میاں عمرے کے لئے ہماری رہنمائی کر رہے تھے اور ہم ان کی تمام ہدایات کو بغور سن رہے تھے۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد ہم حرم شریف میں داخل ہو چکے تھے اور ایک مخصوص گیٹ سے ان تمام لوگوں کے ساتھ اندر داخل ہوئے جو عمرہ کرنے کے لئے دنیا بھر سے تشریف لائے تھے۔ پہلی بار اپنی آنکھوں سے خانہ کعبہ کو دیکھا تو آنکھیں نم ہو گئیں اور میں دنیا سے غافل ہو گیا۔ عارف میاں کی رہنمائی میں ہم لوگوں نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور پھر سعی کر نے کی غرض سے صفا و مروہ کا رخ کیا ۔

صفا و مروہ کے درمیان سات چکر لگانے کو سعی کہا جاتا ہے۔ سعی کی ابتدا صفا سے اور انتہا  مروہ پر ہوتی ہے۔ صفا اور مروا کے درمیان حضرت ہاجرہ علیہ السلام نے اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لئے پانی کی تلاش میں سات چکر لگائے تھے۔ اُس زمانہ میں صفا مروہ پہاڑیوں کے درمیان ایک وادی تھی جہاں سے ان کا بیٹا نظر نہیں آتا تھا۔ لہذا وہ اس وادی میں تھوڑا تیز دوڑی تھیں۔ حضرت ہاجرہ علیہ السلام کی اس عظیم قربانی کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرماکر قیامت تک آنے والے تمام مرد حاجیوں کو اس جگہ تھوڑا تیز چلنے کی تعلیم دی۔ سعی کا ہر چکر تقریباً 395 میٹر لمبا ہے۔ یعنی سات چکر کی مسافت تقریباً پونے تین کیلو میٹر بنتی ہے۔

الحمداللہ ان تمام ارکان کے بعد ہم نے خانہ کعبہ میں ظہر کی نماز پڑھی اور باہر نکل آئے۔ سامنے ہی کئی سیلون دکھے جو عمرہ کرنے والوں کا حلق کرتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ہم ہوٹل واپس آکر نہائے دھوئے اور پھر خانہ کعبہ عبادت کے لئے پہنچ گئے۔ بیشتر نمازیں ہم نے خانہ کعبہ میں پڑھیں لیکن مجھے سب سے زیادہ روحانی سرور فجر کی نماز میں ہوئی۔ ہم جب بھی نماز کے لئے خانہ کعبہ جاتے تو ہمارے ساتھ لوگوں کا ہجوم خانہ کعبہ کی طرف جاتا ہوا دکھتا ۔ جن میں دنیا بھر کے لوگ ہوتے۔

روزانہ فجر کی نماز کے بعد میں کعبہ کے سامنے بیٹھ جاتا اور نم آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتا۔ میں اپنی انا، تکبّر، غصّہ، زیادتی، نام آواری، بدکلامی، سنگ دلی، سختی،غیبت اور منافقت پر آنسو بہاتا اور اللہ تعالیٰ سے اپنی گناہوں کی معافی مانگتا۔ اس موقعہ پرمیں نے تمام لوگوں کے لئے سلامتی اور دنیا میں امن کی بھی دعا مانگی۔ یا اللہ میری دعاؤں کو قبول فرما۔آمین

Leave a Reply