You are currently viewing آزادی اظہار کی حدود

آزادی اظہار کی حدود

زندگی میں کبھی کبھار کچھ معاملات، واقعات یا مسائل ایسے ہوجاتے ہیں کہ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی ان اصولوں یا دباؤ کے تحت اپنے ضمیر کا سودا کر لیتے ہیں۔ جبکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ اس سے ہماری نجی پہچان یا اپنی شخصیت پر کافی گہرا اثر پڑتا ہے لیکن ہم اسے بالائے طاق رکھ کراپنی زندگی گزارنے لگتے ہیں۔

مثلاً گھر کے کوئی معاملات ہوں یا رشتہ داروں کے ساتھ تنازعہ یا کاروبار یا سیاست میں بے ایمانی یا مذہب کے نام پر گمراہ کن باتیں ہوں۔ گویا کہ ہر طرح سے کہیں نہ کہیں ہم آئے دن ایسی باتیں سنتے ہیں جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ تو اصولوں سے لاچار ہو کراور کبھی ضمیر کا سودا کر کے ہم یا تو خود کو بیچ ڈالتے ہیں یا موقع سے فائدہ اٹھا کر بھاری رقم اور شہرت کی خاطر سودا کر بیٹھتے ہیں۔جس کے بعد ایک خاص فرد،شخصیت، مذہب، سیاسی پارٹی وغیرہ کے خلاف یا حمایت میں لکھ کر یا بات کہہ کر یا تو شہرت کما لیتے ہیں یا جان جوکھم میں ڈال دیتے ہیں۔

اگر میں اپنی بات کروں تو تیس برس سے قلم کو ہاتھ میں لئے اب تک نہ ہی توکوئی سودا کر پایا اور نہ کسی ادارے یا شخصیت کی ماتحتی میں ان کے من مطابق لکھنے یا لکھوانے کا کوئی کام کیا۔ تاہم ایسے کئی مواقع آئے جب مجھ سے کہا گیا کہ آپ کو فلاں شخص یا فلاں معاملات کے بارے میں کچھ نہیں لکھنا چاہیے۔اس سے آپ کی دشواریاں بڑھ سکتی ہیں۔جس سے مجھے کافی تکلیف ضرور ہوئی لیکن میرا حوصلہ کبھی پست نہیں ہوا۔موجودہ دور میں اردو کالم نگاری میں زیادہ تر لکھنے والے سیاست اور مسلمان کے علاوہ اور کسی موضوع پر لکھنا ضروری ہی نہیں نہیں سمجھتے ہیں۔شاید انہیں اپنے ملک کی سیاست اور مذہبی واقعات کے علاوہ دنیا کے کوئی اور مسائل دکھتے ہی نہیں ہیں۔

فریڈم آف اسپیچ ایک ایسی طاقت ور بات ہے جس سے دنیا بھر کے لکھنے والوں میں اتفاق بھی ہے اور اختلاف بھی ہے۔ چاہے لکھاری مغرب کا ہو یا مشرق کا ہو۔ لیکن یہ سچ ہے کہ فریڈم آف اسپچ کی وجہ سے لکھنے والو ں کا اعتماد کافی بڑھا ہے تو وہیں آئے دن اس پر ایک اوربحث بھی چھڑی ہوئی ہے۔کیونکہ فریڈم آف اسپیچ کا کوئی دائرہ حدود نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے آئے دن کسی نہ کسی ادیب کے خلاف مظاہرے ہوتے رہتے ہیں یا کبھی کبھی ان پرجان لیوا حملہ بھی ہوتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے تحت آزادی اظہار یہ حق ہے کہ آپ جو چاہیں جس کے بارے میں چاہیں، جب چاہے، چاہے وہ صحیح ہو یا غلط کہہ سکتے ہیں۔ آزادی اظہار ہر طرح کی معلومات اور خیالات کو تلاش کرنے، حاصل کرنے اور فراہم کرنے کا حق ہے۔ آزادی اظہار اور آزادی اظہار کا حق ہر قسم کے خیالات پر لاگو ہوتا ہے۔ تاہم بعض حالات میں آزادی اظہار اور اظہار رائے پرپابندی لگائی جاسکتی ہے۔ ’شیطانی آیات‘کا تنازعہ، جسے سلمان رشدی افئیر بھی کہا جاتا ہے۔ 1988میں برطانیہ میں سلمان رشدی کے ناول کی اشاعت پر دنیا بھر کے مسلمانوں کا شدید رد عمل ہوا تھا۔ مسلمانوں نے سلمان رشدی پر توہین  مذہب یا کفر کا الزام لگایا اور 1989میں ایران کے آیت اللہ روح اللہ خمینی نے مسلمانوں کو رشدی کو قتل کرنے کا فتویٰ جاری کیا۔ ایرانی حکومت نے 1998تک رشدی کے خلاف فتوے کی حمایت کی تاہم جب ایرانی صدر محمد خاتمی کی جانشینی حکومت نے کہا کہ وہ سلمان رشدی کے قتل کی مزید حمایت نہیں کرتی۔ تاہم فتویٰ اپنی جگہ برقرار ہے۔انگریزی مصنف حنیف قریشی نے ا س فتوے کو دوسری جنگ عظیم کے بعد کی ادبی تاریخ کا سب سے اہم واقعہ قرار دیا۔

اس کے بعد مغربی ممالک میں بحث چھڑ گئی اور آئے دن آزادی اظہار خیال پر تبادلہ خیال ہونے لگا۔ آزادی اظہار کی ایک بنیادی مغربی قدر کی نشاندہی کی ہے کہ کسی کو مارا نہیں جانا چاہیے یا کسی سنگین نوعیت کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔لیکن اگر کوئی حضرت محمد ﷺ کے خلاف کچھ کہے تو سچ کہوں میں اسے قطعی آزادی اظہار نہیں مانتا۔ بلکہ میں آزادی اظہار میں حدودبنانے کی حمایت میں ہوں۔ تاکہ کوئی بھی کسی مذہب اور اس کے پیغمبر کو آزادی اظہار کی آڑ میں ایسی باتیں نہ لکھے جس سے اس کے ماننے والوں کے جذبات بری طرح مجروح ہو۔

12اگست کو 75سالہ سلمان رشدی کا تعارف مغربی نیو یارک کے چوٹا کوا انسٹی ٹیوشن میں سینکڑوں سامعین کے ساتھ فنی آزادی کے موضوع پر گفتگو کرنے کے لیے کیا جارہا تھا کہ ایک شخص اسٹیج پر پہنچا اور ناول نگار سلمان رشدی پر دھاوا بول دیا۔دیکھا گیا کہ حملہ آور بار بار سلمان رشدی کے سینے اور گردن پر ضربیں لگا رہا تھا۔ ہال میں موجود سامعین دنگ رہ گئے اور زور زورسے چینخ رہے تھے۔فوراً ہی حاضرین نے رشدی سے اس شخص کو الگ کرنے میں مدد کرنے لگے۔ نیو یارک اسٹیٹ پولیس کے ایک دستے نے حملہ آور کو گرفتار کر لیا۔ پولیس نے مشتبہ شخص کی شناخت کر لی ہے۔کئی گھنٹوں کی سرجری کے بعد سلمان رشدی کو وینٹی لیٹر پر تھے۔ ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ ان کاکلیجہ اور ایک آنکھ بری طرح زخمی ہوگیا ہے۔

سلمان رشدی  ممبئی کی ایک مسلم کشمیری خاندان میں پیدا ہو اتھا۔14 سال کی عمر میں اعلیٰ اور اچھی تعلیم کے لیے  رشدی کو برطانیہ بھیجاگیا۔سلمان رشدی ایک طویل عرصے سے اپنے چوتھے ناول “شیطانی آیات “کے لیے جان سے مارنے کی دھمکیوں کا سامنا کررہا ہے۔مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اس کتاب میں توہین آمیز عبارتیں ہیں۔ 1988میں اس کی اشاعت کے بعد بہت سے ممالک میں اس پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ ہندوستان شیطانی آیات پر پابندی لگانے والادنیا کا پہلا ملک تھا اس کے بعد پاکستان نے بھی اس کی پیروی کی۔  اس کے بعد مختلف دیگر مسلم ممالک کے ساتھ جنوبی افریقہ نے بھی شیطانی آیات پر پابندی لگادی۔

لیکن سلمان رشدی واحد شخص نہیں تھا جسے شیطانی آیات کتاب پر دھمکی دی گئی تھی۔ شیطانی آیات کا جاپانی مترجم جولائی 1991میں ٹوکیو کے شمال مشرق میں ایک یونیورسٹی میں مقتول پایا گیا تھا۔ پولیس نے بتایا کہ مترجم ہیتوشی ایگاراشی جو تقابلی ثقافت کے اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر کام کرتا تھااسے کئی بار چاقو مارا گیا اور سوکوبایونیورسٹی میں ان کے دفتر کے باہر دالان میں چھوڑ دیا گیا۔اس کا قاتل کبھی نہیں مل سکا۔ اسی مہینے کے شروع میں اٹلی مترجم ایٹور کیپریولو کو میلان میں ان کے اپارٹمنٹ میں چاقو سے وار کیا گیا تھا، حالانکہ وہ اس حملے میں بچ گئے تھے۔ اسی طرح ناروے کے مترجم ولیم نیگورڈ کو 1993میں اوسلو میں ان کے گھر کے باہر گولی مار دی گئی تھی اور وہ بھی بچ گئے تھے۔

بہت سے یورپی ممالک میں توہین رسالت کو ختم کردیا گیا جہاں ان کے آباؤ اجداد نے زمانے تک چرچ کی عظمت کی سخت سزاؤں کا سامنا کیا۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انہیں یہ لفظ کیوں پسند نہیں ہے۔ پھر بھی یہ دیکھنا ہوگا کہ حضرت محمد ﷺ نہ صرف مقدس ہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے بہت اعلیٰ اور اہم بھی ہیں۔ مسلمانوں کی توہین کرنا، ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا اور اسلام کو بدنام کرنا محض الفاظ نہیں ہیں۔ بلکہ وہ انتہائی ناپسندیدگی، نفرت اور جذبات کو بھی متحرک کرتے ہیں جو بالآخر نفرت انگیز جرائم کا باعث بنتے ہیں۔

جیسا کہ فرانس کے صدر میرکل نے کہا کہ  ’اظہار رائے کی آزادی کی اپنی حدود ہوتی ہیں۔ وہ حدود وہیں شروع ہوتی ہیں جہاں سے نفرت پھیلتی ہے‘۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ جب آزادی اظہار رائے اسلام مذہب اور اس کے رسول پر کیچڑ اچھالتا ہے تو میرکل جیسے مغربی سیاستدان اور لوگ اظہار رائے کی آزادی کی حدود بھول جاتے ہیں اور کیچڑ اچھالنے والوں کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

Leave a Reply