You are currently viewing یوم خواتین اور ایک مصری شاعرہ کا ذکر

یوم خواتین اور ایک مصری شاعرہ کا ذکر

8

مارچ انٹرنیشنل ویمنز ڈے یعنی عالمی خواتین کے دن کے طور پر پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔یہ دن خواتین کے حقوق کو اجاگر کرنے کے حوالے سے عالمی اداروں کی طرف سے مختص کیا گیا ہے۔

 اس کا مقصد سماج میں خواتین کی اہمیت اور ان کے حقوق سے آگاہ کرنا اورعام لوگوں میں اس حوالے سے شعور کو بیدار کرنا ہے۔اس کے علاوہ خواتین پر تشدد کی روک تھام کے اقدامات کے لیے ترغیب دینا بھی ہے۔ اس دن کئی ممالک میں تعطیل ہوتی ہے تو کہیں کہیں “احتجاج ” بھی دیکھنے کو ملتا ہے،تو بعض ممالک میں اس دن نسوانیت کا جشن بھی منایا جاتا ہے۔عورت تاریخ کے ہر دور میں مرد کے تابع رہی ہے اورآج کل عورت مرد سے کسی معاملے میں پیچھے نہیں ہے۔ جس سے ہم اور آپ انکار نہیں کر سکتے ہیں۔ تاہم اب بھی ہمارے معاشرے میں آئے دن ایسی باتیں سننے کو ملتی رہتی ہیں جس سے کلیجہ منہ کو آ تا ہے۔ثقافتی اور علاقائی طور پر عورتوں کا ہمیشہ استحصال ہوا ہے۔بد قسمتی سے آج بھی عورت کو سماج کا ایک کمزور جز مانا یا سمجھا جاتا ہے۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق اللہ نے عورت کو دنیا کی ایک خوبصورت اور نایاب تحفہ کے طور پر بھیجا ہے۔اسلام سے قبل عورت کو بوجھ اور سماج کا حقیرحصہ سمجھا جاتا تھا۔ عورت محض بچے پیدا کرنے اور خاوندکی غلام سمجھی جاتی تھی۔ عربی معاشرے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں عورت کا نہ تو کوئی مقام تھا اور نہ ہی اسے عزت بخشی جاتی تھی۔ زمانہ جاہلیت میں بچیوں کو زندہ دفن کر دینے کا عام رواج تھا۔ اسلام نے مختلف حیثیتوں میں عورت کے حقوق متعین کیے۔ ماں کے قدموں تلے جنت کا تصور دیا۔ خاوند کو اپنی بیوی کے آرام و آسائش کا پورا خیال رکھنے کا حکم دیا۔ حق ِوراثت دیا تاکہ عورت معاشی ضروریات کے لیے کسی کی محتاج نہ ہو۔ قرآن نے عورتوں کے نام سورۃ النساء بیان کیا اور دنیا(زمانہ) کی ایک پاکیزہ عورت کی شان میں سورۃ مریم کا ذکر کیا: اور بے شمار آیات میں عورتوں کی عزت و احترام، ا ن کے حقوق اور انسانی زندگی میں ان کا نمایاں مقام بیان کیا ہے۔ سورۃ آل عمران میں جب حضرت مریم (حضرت عیسیؑ کی ماں) کا ذکر آتا ہے تو وہ ہمارے سامنے ایسی عورت کی شکل میں آتی ہیں جس کی ایمان اور عظمت تمام عورتوں کے لیے ایک بہترین مثال ہے۔ قرآن نے حضرت مریم کی پاکیزگی کی گواہی دی ہے۔

 برطانیہ میں عورتوں کے مساوات اور حقوق کے لیے بے شمار اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ پچھلے بیس برسوں میں کام کاج سے لے کر زندگی کے ہر شعبوں میں عورتوں کو برابری کا درجہ دیا گیا ہے۔ میں نے اپنے تیس برسوں کی ملازمت میں عورتوں کو فعال اور با اختیار پایا ہے۔خواہ وہ کسی طرح کا کام ہو،ہر شعبے میں عورتوں کو اپنے طور پر با اختیار اور با وقار پایا ہے۔ تاہم برطانیہ میں اب بھی کئی شعبوں میں عورتوں کی نمائندگی کی کمی محسوس کی جارہی ہے جس پر سیاسی پارٹیاں اور غیر سرکاری تنظیمیں سنجیدہ ہیں اور آئے دن اس مسئلے پر بحث ہوتی رہتی ہے۔

انٹرنیشنل ویمنس ڈے کے موقع پر آئیے آج ہم آپ کو ایک ایسی خاتون سے متعارف کراتے ہیں جن کا تعلق مصر سے ہے اور وہ قاہرہ کی عین شمس یونیورسیٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ ان کا نام ولاء جمال سعد احمدالعسیلی ہے۔ آپ اردو زبان کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور پہلی اردو شاعرہ جن کی مادری زبان عربی ہے۔ آپ ایک با اختیار عورت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باصلاحیت خاتون ہیں۔  ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی سے میری ملاقات اور جان پہچان ہوئے چار سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ فروری 2019میں ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی سے میری پہلی ملاقات ہندوستان کی راجدھانی دہلی میں ہوئی تھی۔ کم گو اور شرمیلی تو وہ ہیں ہی لیکن جب اردو بولتی ہیں توسننے والوں کے کانوں میں رس گھول دیتی ہیں۔ ایک استاد، ایک محقق،  شاعرہ اور ایک ادیبہ کے علاوہ ڈاکٹر ولاء جمال کو گانے کا بھی بے حد شوق ہے۔ ظاہر سی بات ہے اگر ایک خوبصورت زبان کا بولنے والا کوئی خوبصورت خوش گلو شاعرہ ہو تو سونے پر سہاگا ہوجاتا ہے۔اس کے علاوہ ڈاکٹر ولا جمال کانفرنس اور مشاعروں میں بھی غیرملکی مہمان کی حیثیت سے بھی سبھوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہیں۔

 2019 میں ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی کی نظر ہم پرتب پڑی جب ہم دیگر مصری اور ہندوستانی ڈیلیگیٹ کے ساتھ جہاز پر سوار ہوکر دہلی سے کلکتہ ایک کانفرنس میں شرکت کی غرض سے روانہ ہورہے تھے۔دورانِ سفر ڈاکٹر ولاء جمال کے اندر مجھے جاننے کی خواہش  پیدا ہوئی  اور انہوں نے اپنی ساتھی سے میرا تعارف جاننا چاہا اور پوچھا کہ ’یہ صاحب کون ہیں‘۔ ان کی ساتھی نے انہیں بتایا کہ ’یہ فہیم صاحب ہیں اور لندن سے تشریف لائے ہیں‘۔لیکن میرا باقاعدہ تعارف ڈاکٹر ولاء جمال سے زمین سے 35000فٹ اوپر ہوا جو کہ ایک دلچسپ بات ہے۔ کلکتہ پہنچ کر میری باقاعدہ ملاقات ڈاکٹر ولاء جمال سے کانفرنس میں ہوئی اوروہیں ان کے متعلق مزید جانا اور یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ ڈاکٹر ولاء جمال کو اردو زبان سے بے حد محبت ہے۔بقول ڈاکٹر ولاء جمال ’میں اردو سے بہت پیار کرتی ہوں‘۔ لیکن ان سے ملنے کے بعد مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ ڈاکٹر ولاء جمال کے اندر ایک جذبہ اور شوق بھی چھپا ہوا تھا جس کا علم شاید انہیں بھی نہیں تھا اوریہ جذبہ اور شوق اردو شاعری کا تھا۔ جس کا اعتراف بعد میں لوگوں نے بھی کیا۔

 شروعات میں ڈاکٹر ولاء جمال نے مجھے لندن اپنی کچھ نظمیں بھیجیں جسے پڑھ کر میں کافی محظوظ ہوا۔ ڈاکٹر ولاء جمال کی شاعری میں جذبات اور پیار کا ایک ایسا سنگم دِکھا ئی دیتا ہے جسے پڑھنے کے بعدہر انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ ولاء جمال کی شاعری ہمارے لیے لکھی گئی ہیں۔ لفطوں کا بہترین تال میل اور اظہار محبت کا خوبصورت امتزاج جسے پڑھنے کے بعد قاری ولاء جمال کی شاعری کا شیدائی ہونے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ فروری 2019میں ولاء جمال جنہوں نے محض چند نظمیں لکھی تھیں اور جو اس بات سے ناواقف تھیں کہ ان کے اندر ایک باحس اردو شاعری موجودہیں۔ محض چھ ماہ میں ان کی نظموں کا مجموعہ ’سمندر ہے درمیاں‘ اشاعت کی منزل سے گزر کر قارئین کے ہاتھوں میں تھا۔

 اس طرح ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی اردودنیا کی پہلی عربی خاتون شاعرہ کا شرف حاصل کیا۔ جو کہ ہم محبان اردو کے لیے فخر کی بات ہے۔2020 میں ڈاکٹر ولاء جمال کومیں نے پہلی بار ڈھاکہ یونیورسٹی کے عالمی مشاعرے میں نظم پڑھتے ہوئے سنا تھا۔ میرے ساتھ ساتھ ہال میں موجود سامعین نے انہیں خوب داد  دیں۔ جس کی ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی حق د ار بھی ہیں۔ ڈاکٹر ولاء جمال کا کہنا ہے کہ ’ایک عورت، بیوی اور ماں ہو کر اسلامی معاشرے میں لکھنا پڑھنا نہایت دشوار کن بات ہے۔ پھر بھی انہوں نے کبھی ہار نہیں مانی اور اردو زبان سے محبت اور پیار نے انہیں ’سمندر ہے درمیاں‘ شائع کرنے کا خواب پورا کر دیا‘۔

 انٹرنیشنل ویمنز ڈے کے موقعے پر میں دنیا کی تمام عورتوں کو مبارک باد دیتا ہوں کہ اپنے اپنے طور پر انہوں نے اپنی کامیابی اور ترقی کو، جدوجہد اور اپنی صلاحیت سے حاصل کیا۔ وہیں سماج میں بڑھتی ہوئی تشدد اور ظلم کے خلاف آواز بھی اٹھایا۔ تاہم مجھے اس بات کا اب بھی افسوس ہے کہ ہم کہیں نہ کہیں سماجی، ثقافتی اور دیگر خاندانی روایات کے دباؤ میں آج بھی عورتوں کو کمزور سمجھ کر اس کو اس کے حق سے محروم رکھا ہے۔ جو کہ نہایت ہی شرمناک پہلوہے۔ آئیے ہم اور آپ اس بات کا عہد کریں کہ عورتوں کو اس کے حق سے محروم نہ رہنے دیں گے اور سماج میں عورتوں پر ظلم اور ناانصافی کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کریں گے۔ آخر میں علامہ محمد اقبال کے اس شعر سے اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ:

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے ز ندگی کا  سوز دروں

Leave a Reply