You are currently viewing کیوں نقاب یا حجاب پہننا جرم ہے!

کیوں نقاب یا حجاب پہننا جرم ہے!

ہم نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے، ہمیں مرد اور عورت کپڑے میں ملبوس ہی اچھے اور تہذیب یافتہ لگے ہیں۔ بطور مسلمان ہم نے بچپن سے ہی خواتین میں پردے کے رواج اور اس کے استعمال سے خود میں اور خواتین میں حیا اور خوشی پائی ہے۔

اماں تو کبھی بنا برقعہ باہر جاتی ہی نہیں تھیں اور ہم بھی ہمیشہ سلیقے سے ہی کپڑے پہن کر نکلا کرتے تھے۔ بہنوں پر سختی تو نہیں تھی لیکن انہیں ہم نے کبھی بنا دوپٹہ سر ڈھانکے باہر جاتے نہیں دیکھا تھا۔ گویا اسی طرح ہمارے جان پہچان کے لوگوں سے لے کر زیادہ تر خاندان کی خواتین میں ہمیشہ یہ رواج پایا جاتا رہا۔ تاہم یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ جوں جوں وقت گزرا اور مغربی ثقافت کا اثر جب مشرقی تہذیب اور ثقافت پر پڑنے لگا تو بہت ساری لڑکیوں نے دوپٹہ پہننا ضروری نہیں سمجھا جس سے بڑے بزرگوں نے اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کیا۔

ویسے ہندوستان سمیت کئی ممالک میں اب بھی ہندو، عیسائی یہودی، سکھ، بودھ، جین اور دیگر مذاہب میں سر تا پاؤں کو ڈھکنے کے لیے اپنے مذہبی عقیدے کے تحت کپڑا پہننا لازمی سمجھا جاتا ہے۔ اگر صرف ہندوستان کی مثال دوں تو اس کا رواج آج بھی کئی ریاستوں میں عام ہے۔ جیسے راجھستان، یوپی اور بہار وغیرہ کی ہندو عورتوں میں سر یا چہرے کو چھپانا یعنی ساڑی کے آنچل سے سر چھپانا کا فی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ عیسائی مذہب کی نن آج بھی سر تا پیر ساڑی پہنتی ہیں جس سے ان کاجسم اور سر پورا ڈھکا ہوتا ہے۔ اورہم مدر ٹریسا کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ انسانیت کی دیوی جس نے مغربی آرائش اور لباس کو ترک کر کے اپنی پوری عمر کلکتے کی گلیوں اور سڑکوں پر لاچار اور بے حال لوگوں کی دیکھ بھال میں اپنی زندگی صرف کر دی۔

مدر ٹریسا سے میری ملاقات 1985میں این سی سی(نیشنل کیڈٹ کورپ) کی ایک تقریب میں ہوئی تھی۔ سفید ساڑی میں ملبوس، سر پورا ڈھکا ہوا اور آپ صرف ان کی شکل دیکھ سکتے تھے۔ یہی مدر ٹریسا کا لباس تھا جس پرہمیں نہ کبھی اعتراض ہوا اور نہ پریشانی ہوئی۔ ویسے مجھے آج تک کسی مذہب اور عقیدے کے لوگوں کے لباس سے نہ تو کوئی تکلیف ہے اور نہ پریشانی ہے۔

اگر آپ مجھ سے پوچھے گے کہ کیا مجھے عورت بنا لباس کی اچھی لگتی ہے یا کپڑے میں ملبوس تو میرا جواب تو یہی ہوگا کہ عورت ہو یا مرد مجھے دونوں لباس میں ملبوس ہی اچھے لگتے ہیں۔ تاہم مغربی ممالک نے عورتوں کو اتنا با اختیار کیا ہے کہ اب مغربی ممالک میں عورت جیسا بھی لباس پہنے اسے وہ اپنا حق سمجھتی ہے۔ اس میں کوئی خرابی بھی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ فیشن ڈیزائن اور سماج میں با اختیار اور مساوات نے عورتوں کو اپنی مرضی کے لباس پہننے اور پسند کرنے کا پورا اختیار دے رکھا ہے۔ جو ایک حد تک تو بہت درست ہے کیونکہ اس سے عورتوں کو سماج میں برابری کا درجہ ملتا ہے جو کہ اس کا انسانی حقوق بھی ہے۔

منگل 8 فروری کو سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہوئی جس میں حجاب پہنے ہوئے مسلمان طالب علم کو ریاست کرناٹک کے ایک کالج میں انتہا پسند دائیں بازو کے ہندو ہجوم کی طرف سے ہراساں کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ مسکان خان جب اپنے کالج پہنچی تو انہیں زعفرانی اسکارف پہنے مردوں نے گھیر لیا اور جے شری رام کا نعرہ لگانے لگے، جن میں کالج کے کم اور بہت سے باہر کے لوگ تھے۔ وائرل ویڈیو میں دکھایا گیا کہ جب مسکان نے مظاہرین کا سامنا کیا تو مسکان بھی پلٹ کر’اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے کالج کی طرف بڑھنے لگی۔ جس کے پیچھے پیچھے زعفرانی ہجوم بھی چلنے لگے۔ حیرانی تو یہ ہوئی کہ زعفرانی غنڈوں کو اس بات کی بھی شرم نہ محسوس ہوئی کہ وہ سارے مرد ایک واحد لڑکی کو جے شری رام کا نعرہ لگا کر خوفزدہ کرنا چاہ رہے تھے۔ یہ لوگ اس رام کا نام لے رہے تھے، جس رام کی ہندو مذہب میں پوجا کی جاتی ہے اور جس نے اپنی پتنی سیتا کو چھڑانے کے لیے راون سے لڑائی بھی کی تھی۔ جس کی یاد میں ہر سال دسہرہ کا تہوار منایا جاتا ہے۔

 اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد دنیا بھر میں لوگوں نے اس کی مذمت کی اور ایک بار پھر ہندوستان کی آبرو کو زعفرانی غنڈوں نے تار تار کر دیا۔ نوبل انعام یافتہ اور سر گرم کارکن ملالہ یوسفزئی نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ’لڑکیوں کو حجاب میں اسکول جانے سے انکار کرنا خوفناک ہے‘۔

مسکان خان کے احتجاج اور بہادری کو پوری دنیا نے دیکھا اور سبھی اس بات سے حیران ہیں کہ ہندوستان کے ان نوجوانوں کو کس شیطان نے بہکا دیا ہے جو آئے دن مذہب کی آڑ میں ملک کی عظمت اور سلامتی کواپنے ناپاک ارادوں اور حرکتوں سے دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ جہاں بیگم حضرت محل سے لے کر بی اماں والدہ علی برادران، امجدی بیگم زوجہ محمد علی جوہر، نشاط النساء بیگم زوجہ موہانی، زلیخا بیگم زوجہ مولانا آزاد، بنگال کی کماری پریتی لت ادادیکر، سروجنی نائیڈو، ارونا آصف علی، کستوربا گاندھی، راج کمار سورج کلا سہائے اور کماری امرت کور، مدر ٹریسا کے علاوہ بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی جیسی عظیم ہستیوں نے کبھی بھی فرقہ پرست عناصرسے ہار نہ مانی اور خواتین کا مرتبہ بلند رکھتے ہوئے، آزادی کی خاطر ان کے خلاف ہمیشہ آوز بلند کی۔  اور ان کی نفرت، زیادتی اور فرقہ پرستی کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا۔

برطانیہ کے اخباروں، ٹیلی ویزن اور ریڈیو پر آئے دن یہ بحث ہوتی رہتی ہے کہ نقاب پہننے پر پابندی لگا دی جائے؟ اس بحث کی کئی وجوہات ہیں جس میں کئی سال قبل ایک اہم واقعہ برمنگھم کے ایک کالج کا ہے جس نے یہ نوٹیفکیشن جاری کیا تھا کہ مسلم خواتین جو نقاب پہنتی ہیں انہیں سیکوریٹی کے تحت کالج میں نقاب پہننے پر پابندی لگا دی گئی۔ اس کے بعد لبریل ڈیموکریٹ پارٹی کے ایک ایم پی کے اس بیان سے یہ معاملہ اور طول پکڑ گیا جب اس نے اپنی پارٹی کا نفرنس سے پہلے یہ کہہ ڈالا کہ مسلم عورتیں جو نقاب پہن کر اسکول، ہسپتال اور ایسے ادارے میں جہاں وہ کام کرتی ہیں اور جہاں چہرے کا ظاہر ہونا ضروری ہے ایسے اداروں میں ان عورتوں پر برطانوی حکومت کو پابندی عائد کر دینی چاہئے۔ پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے یہ معاملہ ہر شعبے میں بحث کا موضوع بن گیا اور ہر کوئی اس پر اپنی اپنی رائے دینے لگا۔ ویسے بھی کچھ برسوں سے مسلم معاشرے سے جڑی کوئی بھی خبر ہو وہ یورپ کے علاوہ پوری دنیا میں فوراً زیر بحث بن جاتی ہے۔ لیکن برطانیہ میں اب بھی ذی شعور لوگوں کا ماننا ہے کہ برطانیہ میں مذہب کی آزادی ہونی چاہئے اور ہر مذہب کے لوگوں کو اپنے اپنے طور پر اپنی مذہبی زندگی گزارنے کا کا حق ملنا چاہئے۔

لیکن میڈیا کا ایک گروپ بار بار اس بحث کو اجاگر کر رہا ہے کہ کیوں مسلم عورتوں کو نقاب پہننا چاہئے اور وہ نقاب جس سے صرف خاتون کی آنکھ ہی سے دیکھا جائے؟  زیادہ تر سیاستدان اور عوام اس بحث میں الجھنا ہی نہیں چاہ رہے ہیں اور وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ برطانیہ فرانس کی مثال بننا نہیں چاہتا ہے جہاں عورتوں کو نقاب پہننے پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ ویسے بھی برطانیہ کے عوام اپنے آپ کو رواداری والا ملک مانتے ہیں اور یہاں کے بیشتر لوگ مذہبی آزادی کے حق میں ہیں۔ نقاب اور حجاب کے بحث سے جہاں زیادہ تر یورپی ممالک سخت رویہ اپنا رہے ہیں وہیں برطانیہ اس معاملے میں مذہبی آزادی، ثقافتی پسند اور رواداری کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلم خواتین کو نقاب یا حجاب پہننے پر پابندی لگانے سے گریز کر رہا ہے۔ جس سے برطانیہ دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ انسانی حقوق ہر مذہب، نسل، ذات اور انسان کا بنیادی حق ہے۔

برطانیہ کی مسلم کمیونیٹی اس معاملے میں زیادہ سنجیدہ نہیں ہے کیونکہ یہاں  زیادہ تر مسلم خواتین حجاب کا استعمال کرتی ہیں اور وہ برطانیہ کے ہر شعبے میں اپنی قابلیت اور فن کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور ان کے بارے میں برطانوی عوام کا رویہ بھی نرم ہے۔ برطانیہ میں پچھلے کچھ برسوں میں حجاب پہننا مسلم عورتوں میں ایک فیشن سا بن گیا ہے۔ مسلم عورتیں جو حجاب پہنتی ہیں ان کا چہرہ نمایاں ہوتا ہے اور صرف سر ڈھکا ہوتا ہے۔ بہت ساری خواتین نقاب بھی پہنتی ہیں۔ تاہم نقاب پہننے والی خواتین کی تعداد یوں بھی برطانیہ میں کم ہیں۔ اسلامک اسکالر نقاب کو مذہب سے نہیں جوڑ رہے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ نقاب ایک کلچر اور علاقے سے جڑا ہوا ہے۔ اس لئے اس پر کوئی مذہبی رائے دینا مناسب نہیں ہوگا۔ برطانیہ میں مسلم عورتیں آزادی سے نقاب میں گھومتی پھرتی نظر آتی ہیں لیکن انہیں کئی باہر نقاب پہننے سے نسلی بھید بھاؤ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے کئی ایسے مقدمے عدالتوں میں پیش ہوئے تھے جہاں مسلم عورتوں کو نقاب پہننے پر کام میں نسلی بھید بھاؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

مسکان کو اکیلا دیکھ کر زعفرانی غنڈوں نے یہ سمجھ کر ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی کہ وہ ان کے جے شری رام کی پکار سے خوفزدہ ہوکر اپنی تعلیم کو باطل کر کے گھر واپس چلی جائے گی۔ لیکن ہوا اس کے بر عکس اور رام کا نام بدنام کرنے والے کو منہ کی کھانی پڑی جب مسکان نے دلیری سے پلٹ کر اللہ اکبر کا نعرہ لگا دیا۔ جس سے مسکان نے اس بات کو ثابت کردیا کہ وہ حجاب پہن کر بھی اپنے انسانی حقوق کے لیے احتجاج کر سکتی ہے۔ میں مسکان خان کی دلیری اور احتجاج کو ایک عورت کا بااختیار ہونا سمجھتا ہوں جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔

Leave a Reply