You are currently viewing کورونا وائرس کی دہشت اور وحشت

کورونا وائرس کی دہشت اور وحشت

کیا ہماری زندگی بدل گئی ہے؟ اس کا جواب ہاں بھی ہوسکتا ہے اور نا بھی ہوسکتا ہے۔ دیکھا جائے تو پچھلے چار مہینوں میں ہماری زندگی کئی معنوں میں جہاں بدلی ہے تو وہی ہماری زندگی میں ایک ٹھہراؤ سا بھی آ گیا ہے۔

اگر میں اپنی مثال دوں تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ میری زندگی حالات کے مد نظر ضرور بدل گئی ہے۔ چاہے روز مرہ کی بات ہو یا کام  کاج کی بات ہو یا سماجی طور پر  ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری زندگی میں ایک عجیب و غریب تبدیلی آ چکی ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ   کورونا وائرس کی وبا اور اس کا خوف ہے۔تاہم یہ بات صرف مجھ تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کے اثرات دنیا بھر کے کروڑوں انسانوں پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایسا ہونا لازمی بھی ہے کیونکہ کورونا وائرس کسی ایک ملک یا سماج یا مذہب یا نسل کو متاثر نہیں کیا بلکہ اس وبا نے پوری دنیا کو بیک وقت گھٹنوں کے بل گرا دیا ہے۔کہا جا رہا ہے کہ پچھلے سو برسوں میں ایسی کوئی بیماری یا  مسئلہ نہیں ہؤا تھاجب پوری دنیا بیک وقت الجھ کر رہ گئی ہو۔ کیا امیر، کیا غریب، کیا حکمراں تو کیا سرمایہ دار، گویا ہر طبقے کے انسان کو کورونا وائرس کی خوف نے پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔

ابتدائی دنوں میں جب کورونا وائرس چین کے بعد یورپ میں داخل ہوا تو ایسا معلوم ہونے لگا کہ اب کورونا وائرس ایک ایسا قہر بن کر ہم سب پر گرنے والا ہے جس میں ہم موت کی نیند سو جائے گے۔اٹلی کی خبروں سے لندن بیٹھے مارے خوف کے جی بیٹھا جا رہا تھا۔ روز اس بات کا ڈر لگا رہتا کہ اب لندن کی کیا حالت ہوگی۔وزیر اعظم سے لے کر طبی ماہرین اور سائنسداں کی باتوں سے جہاں کچھ امید بنتی تھی تو وہیں ان کی اُن باتوں سے دل میں خوف پیدا ہوجاتا کہ کورونا ہماری جان لے کر ہی رہے گا۔ کچھ ہفتے تو ایسا محسوس ہوا کہ میرے گھر کے باہر لوگ پتلے کپڑے میں ملبوس سڑکوں پر بے یارو مددگار، بکھرے ہوئے بال اور عجیب و غریب حالت میں چلے جا رہے ہیں۔ سچ پوچھیے تو مارے خوف کہ کھڑکیوں سے باہر جھانکتے ہوئے بھی دل میں دہشت ہونے لگی تھی۔

زندگی گزر رہی تھی لیکن کیوں کر اور کیسے گزر رہی تھی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہورہا تھا۔ کھا پی رہے تھے لیکن ذہن میں ایک بات یوں پیوست تھی کہ نا کھانے کا مزہ ملتا تھا ور نہ کسی پکوان کی خواہش ہو رہی تھی۔ بس ایک سوال ذہن میں بار بار ہتھوڑا ما ر رہا تھاکہ کیسے اور کب کورونا کا خاتمہ ہوگا تا کہ ہم اپنی زندگی کو ایک بار پھر اسی طرح جی سکیں جیسے عام دنوں میں جیتے تھے۔گاہے بگاہے دوستو ں کے فون کال اور سوشل میڈیا کی سرگرمیوں نے جہاں جینے کا حوصلہ دے رکھا تھا وہیں اس بات کی بھی امید جاگتی کہ ان شاء اللہ ہم اس عذاب سے ضرور چھٹکارا پائیں گے۔

مارچ کے مہینے میں جب برطانیہ دھیرے دھیرے کورونا وائرس  کی لپیٹ میں آنا شروع ہوا تو میرے ہسپتال نے کورونا وائرس سے مریضوں اور اسٹاف کو محفوظ رکھنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے شروع کر دیے۔ جن میں مریضوں کو ڈاکٹر اور نرس کے علاوہ اور کسی دوسرے تھیراپسٹ سے ملنے پر پابندی لگا دی گئی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مریضوں کو سب سے پہلے کورونا وائرس سے محفوظ رکھا جائے۔ اس کے علاوہ اسٹاف کی حفاظت کے لیے پی پی ای (پرسنل پروٹیکشن ایکویپمنٹ) بھی فراہم کیا جانے لگا۔ غیر طبی اسٹاف کو گھر سے کام کرنے کا احکام جاری کیا گیا۔ جس کی وجہ سے مارچ کے مہینے سے اب تک میں گھر سے کام کر رہا ہوں۔

گھر سے کام کرنے کا سلسلہ میرے علاوہ برطانیہ سمیت یورپ اور دنیا کے بیشتر ممالک کے لوگوں نے کرنا شروع کیا۔ جن میں آئی ٹی، بینک، اکاؤنٹنٹ،کال سینٹر، ملٹی میڈیا، کارپوریٹ اور دیگر ضروری سروس کے اسٹاف کے لوگ شامل ہیں۔ پھر دھیرے دھیرے تعلیمی نظام سے جڑے لوگ اور سیاستدان بھی اپنے گھروں سے پارلیمنٹ کی اجلاس میں شامل ہونے لگے۔

ان چار مہینوں میں کورونا وائرس نے جس طرح ہماری زندگی پر خوف طاری کیا تھا وہیں گھر سے کام کرنے کی سہولت نے ہماری زندگی میں ایک نیا انقلاب بھی لا ئی ہے۔ اب تو یہ بات بھی ہونے لگی ہے کہ زیادہ تر لوگ گھر سے ہی کام کرنا چاہیں گے۔ اور کیوں نہ چاہیں جب کورونا نے ہماری زندگی کو اس حد تک تبدیل کر کے رکھ دیا ہے کہ ہم ایک نئے دور اور نئی زندگی جینے کے عادی بنتے جارہے ہیں۔اس کے علاوہ کمپنیاں بھی اس بات سے متفق ہو رہی ہیں کہ ان حالات میں جس طرح لوگوں نے گھروں سے کام کر کے اپنی اپنی کمپنیوں کا کاروبار چلاتے رہے ہیں وہ ایک قابلِ ستائش بات ہے۔اور کیوں نہ ہو جہاں انسان کو جینے کے لیے روزگار کی ضرورت  ہے وہیں وہ تمام دشواریوں اور مصیبتوں میں اپنی کمپنیوں کو ہر ممکن اپنی صلاحیتوں اور ذہانت سے جاری اور ساری رکھنا چاہتا ہے۔

حالانکہ گھروں سے کام کرنا ایک عام انسان کے لیے اتنا آسان نہیں تھا جتنا کہ ہم اور آپ محسوس کرتے ہیں۔ مثلاً بچوں کا گھروں میں موجود ہونا، بیگم اگر کام نہ کر رہی ہوں تو ان کا دھیان رکھنا اور گھر کا الگ تھلگ ماحول جہاں آپ صرف اپنے کمپیوٹر اور ٹیلی فون سے ہی جڑے رہتے ہیں۔

گھر سے کام کرنے کا ہمارا تجربہ یہ رہا کہ ہم صبح وقت پر اُٹھ کر تیار ہوجاتے ہیں اور کمپیوٹر آن کر کے ای میل کے ذریعہ مواصلات میں جُٹ جاتے ہیں۔ گاہے بگاہے ٹیلی فون کی گھنٹی سے بھی بیزار رہتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اپنے کام  کاج کے ساتھیوں سے دور رہنے کی وجہ سے ایک خلا کا احساس ہوتا رہتا ہے، لیکن زوم اور مائکروسوفٹ اپلیکیشن کی سہولیت نے ہمارے الگ تھلگ ہونے کی احساس کو بہت حد تک کم کر دیا ہے۔دن بھر میں دو یا تین ویڈیو میٹنگ کے ذریعہ ہم اپنے ساتھیوں سے رابطہ رکھنے کے علاوہ ان کو دیکھ بھی پارہے ہیں۔جس سے کچھ پل کے لیے یہ محسوس ہی نہیں ہو رہا ہے کہ ہم دفتر میں موجود ہیں یا گھر سے کام کر رہے ہیں۔ اورمیں ان تمام باتوں کا سہرا انفامیشن

 ٹیکنالوجی کی سہویت کو دوں گا جس کی وجہ سے آج ہماری زندگی  خیر و عافیت سے گزر رہی ہے۔ دوسری طرف گھر سے کام کرنے سے اس بات کا بھی احساس ہؤا کہ ہم کچھ پل کے لیے د فتر کے ضوابطہ کو بھول گئے ہیں۔ مثلاً لنچ بریک لینا، گھڑی دیکھ کر دفتر سے وقت پر نکل جانا وغیرہ۔ اس کے علاوہ گھر سے کام کرنے سے یہ بھی ہواکہ پہلے ہم کبھی کبھار دفتر سے فارغ ہونے کے بعد اپنے ساتھیوں کے ساتھ ڈنر پر جاتے یا سوشل پارٹی میں شرکت کرتے جو کہ فی الحال بالکل بند ہے۔

انگریزوں میں سماجی میل ملاپ کا ایک عام چلن ہے۔ برطانیہ میں اکثر لوگ موسمِ گرما میں لمبے دن ہونے کی وجہ سے گھروں سے باہر رہنا زندگی کا سب سے بہترین لطف مانتے ہیں۔ جو کہ کورونا وائرس کی وبا، خوف اور لاک ڈاؤن کی پابندی سے لوگ بالکل ہی نہیں کر پارہے ہیں۔تاہم اب تو پارک کو لوگوں کی سیر و تفریح کے لیے کھول دیا گیا ہے جس سے اب لوگ راحت کی سانس لے رہے ہیں۔اس کے علاوہ سوشل دوری بھی ایک دشواری بنی ہوئی ہے جس سے دفاتر یا اسکول وغیرہ یہ طے نہیں کر پارہے ہیں کہ وہ کس طرح حکومت کی سوشل دوری کو برقرار رکھ پائیں گے۔ظاہر سی بات ہے کہ اگر ایک اسکول  کلاس میں تیس بچوں کے بیٹھنے کا انتظام ہے تو اس میں سوشل دوری کو برقرار رکھنے کے لیے کس طرح تمام بچوں کو ایک کلاس روم میں بٹھایا جائے۔اسی طرح یہ مسئلہ دفاتر میں بھی بنا ہوا ہے کہ جب جولائی سے حکومت لاک ڈاؤن سے مزید رعایت کرے گی تو کس طرح اسٹاف سوشل دودری رکھتے ہوئے اپنا کام کر پائے گا۔ یا کیسے کورونا وائرس سے محفوظ رکھ پائیں گے۔

ایسے نہ جانے کتنے ہی سوالات ذہن میں آرہے ہیں اور لوگ کوروناوائرس کیسز میں  کمی کے باوجود  خوحفاظتی کے سوال پر  پریشان ہیں۔ لیکن ان باتوں کے علاوہ ہم سب  پر امید ہیں کہ ان شاء اللہ کورونا وائرس کا جلد خاتمہ ہوگا اور ایک بار پھرہم بلا خوف و خطر گزاریں گے زندگی۔

Leave a Reply