You are currently viewing کوئی صورت نظر نہیں آتی۔۔۔
People bang on saucepans with spoons on their balconies demanding from former King Juan Carlos to donate 100 million dollars, he allegedly received from Saudi Arabia's late king, to the Spanish health system currently struggling to combat coronavirus, during the coronavirus disease (COVID-19) health emergency in Madrid, Spain, March 18, 2020. REUTERS/Juan Medina

کوئی صورت نظر نہیں آتی۔۔۔

People bang on saucepans with spoons on their balconies demanding from former King Juan Carlos to donate 100 million dollars, he allegedly received from Saudi Arabia’s late king, to the Spanish health system currently struggling to combat coronavirus, during the coronavirus disease (COVID-19) health emergency in Madrid, Spain, March 18, 2020. REUTERS/Juan Medina

جب سے لاک ڈاؤن  شروع ہؤا ہے تب سے برطانیہ سمیت پوری دنیا میں انسانوں کا جینا دو بھر ہوگیا ہے۔ اور ہو بھی کیوں نہ جب انسان کو کھانے پینے سے لے کر زندگی کی تمام اہم ضروریات میسر نہ ہوں تو ایسے میں بھلا کسے لاک ڈاؤن پسند آئے گا۔

حالانکہ لاک ڈاؤن کا آغاز  سب سے پہلے چین کے شہر ووہان سے ہؤا تھا جہاں سے کورونا (کوویڈ 19) کی شروعات ہوئی۔ بس جناب چین نے پورے ووہان کے شہر یوں کو کئی ہفتوں کے لیے گھر میں بند رہنے کا حکم صادر کر دیا۔ اُس وقت تو ہم لندن میں بیٹھے چین میں پھیلی کورونا وائرس کی خبر سے اتنا پریشان نہ ہوئے جب یہ وبا اٹلی سے داخل ہو کر برطانیہ پہنچ گئی۔ ہاں! قیاس آرائیاں اور سوشل میڈیا پر کورونا وائرس کے متعلق کبھی خوشی کبھی غم جیسی خبروں سے لطف اندوز ضرور ہورہے  تھے۔ لیکن صاحب کسے خبر تھی کہ بڑھے گی اور تاریکی۔ بس دیکھتے دیکھتے پورا برطانیہ لاک ڈاؤن میں گرفتار ہوگیا اور دھیرے دھیرے اس لاک ڈاؤن نے برطانیہ کے لوگوں کی نیند غائب کر دی۔ کیا دکان، کیا دفتر ہر جگہ انسان کورونا وائرس کی خوف سے اپنے دن گننے لگا۔ کسی کو شاپنگ کی پڑی تھی تو کسی کو قیامت یاد آرہی تھی۔ کیا بچہ اور کیا بوڑھا سبھی کو ایک ہی پریشانی تھی اور وہ تھی کورونا وائرس سے کیسے محفوظ رہا جائے۔

کورونا وائرس سے بچنے کے لیے لاک ڈاؤن صرف برطانیہ میں ہی نہیں شروع ہوا بلکہ دھیرے دھیرے  پوری دنیا میں کر دیا گیا ہے۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ لاک ڈاؤن کا فیصلہ کسی ایک ملک کا نہیں تھا بلکہ درحقیقت لاک ڈاؤن کا مشورہ ڈبلیو ایچ او(ورلڈ ہیلتھ آرگنائزن) کا تھا۔ جس نے دنیا کے تمام ممالک کو خط لکھ کر وارننگ دی کہ اگر تم اپنے ملک کے شہری کی حفاظت چاہتے ہو تو بس کر دو لاک ڈان! اب بھلا کون کمبخت  یہ مشورہ نہ مانتا۔ پھر کیا تھا دنیا بھر کے حکمران اپنے اپنے انداز میں لوگوں سے اپیل کی کہ تین ہفتے کے لیے لاک ڈاؤن۔ ہندوستانی وزیراعظم تو حسبِ معمول اپنے چھپن انچ کے سینے کو پھُلا کر ٹیلی ویژن پر آئے اور اعلان کر ڈالا ’بھائیو بہنو بھارت میں کل سے لاک ڈاؤن‘۔ انہوں نے تو یہ سوچا ہی نہیں کہ ان لوگوں کا کیا ہوگا جن کے پاس کھانے پینے کو اناج نہیں اور اناج خریدنے کو پیسہ بھی نہیں۔ اس کے بعدہندوستانی منسٹر اپنے اپنے گھروں میں لوڈو کھیلنے لگے تو کچھ رامائن کی پرانی سیرئیل دیکھنے لگے۔

لیکن لاکھوں لوگ جنہیں اپنے گھر جانا تھا یا جو بڑے شہروں میں لاک ڈاؤن سے پھنس گئے تھے ان کا نہ تو کوئی پُرسانِ حال تھا اور نہ ہی ان کی زخموں پر کوئی مرہم لگانے والا تھا۔لیکن پیارے مودی جی ہر ہفتے لوگوں کو تالی، پھر تھالی بجانے سے لے کر دیا جلانے کا مشورہ دینے لگے۔ آپ نے شیخ چلی کا قصہ تو ضرور پڑھا ہوگا۔ سوچے موٹا بھائی اور شیخ چلی میں کیا فرق ہے۔میں بتاتا ہوں فرق ہے، موٹا بھائی کا مذہب شیخ چلی کے مذہب سے الگ ہے۔

اس کے بر عکس برطانیہ میں لاک ڈاؤن لاگو کرنے سے پہلے وزیراعظم بورِس جونسن نے سپر اسٹور  کھلے رکھنے کی ہدایت دی۔ ضروری کام پر جانے والوں کے لیے ٹرین اور بس کو چلنے کو کہا۔ اور سب سے اہم بات یہ تھی کہ پارلیمنٹ میں کورونا وائرس کے حوالے سے باقاعدہ ایک بِل پاس ہوا جس میں کئی اہم ایکٹ نافذ کئے گئے۔ اس کے باوجود لوگوں میں افراتفری مچی رہی اور لوگ بڑی تعداد میں کھانے پینے کی اشیا جمع کرنے لگے۔ ساری باتیں کسی فلم کی طرح لگ رہی تھیں جس میں ہر طرف افراتفری مچی ہو۔ کہیں ٹوئلیٹ رول کے لیے مارا ماری تو کہیں آٹا، چاول اور دال کی خریداری کے لیے لوٹ مار۔ توبہ توبہ، ہر طرف ایک عجیب و غریب سا ماحول تھا۔

لیکن دھیرے دھیرے جب خبروں کے ذریعہ موت کی شرح کو بڑھتے دکھایا جانے لگا تو جناب ایسا لگا کہ اب لوگ گھروں سے باہر نہیں آنے والے ہیں۔ راستے سنسان ہو گئی اور فٹ پاتھ پر اگر کوئی آپ کو آتے دیکھے تو وہ راستہ بدل کر دوسری طرف چلا جاتا۔ ایسا محسوس ہوتا جیسے کورونا وائرس کے خطرناک شکل کو لوگوں نے دیکھ لیا۔ لوگ اپنے اپنے طور پر قیاس آرائیاں کرتے ہوئے پائے گئے۔کوئی اسے قیامت کی نشانی بتا رہا تھا تو کوئی ظلم و زیادتی کی سزا۔ مت پوچھیے زندگی تو کورونا وائرس کی خبر سے عذاب تو بن ہی چکی تھی کہ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی۔بس بھائی ہم تو اوروں کی طرح گھروں میں قید بس دن گن رہے۔ لیکن اللہ کی ذات پر یقین کرتے ہوئے اس بات سے بھی مایوس نہیں کہ اللہ ہی ہم سب کو اس وبامحفوظ رکھے گا۔

 ان تمام باتوں کے علاوہ کچھ باتیں ایسی بھی ہوئیں جو ہمارے اور آپ کے گمان میں بھی نہ تھیں۔مثلاً زیادہ تر شوہر کو بیوی کے ساتھ چوبیس گھنٹہ رہنا۔بیوی کے حُکم پر گھر کے کام کاج کی پوری ذمہ داری لینا۔ آفیسر سے خانساماں بننا۔ بیوی سے ہر وقت ڈانٹ سننا۔مسلسل ٹیلی ویژن دیکھنا۔ عبادت کثرت سے کرنا۔ قیامت کا خوف محسوس کرنا۔سوشل میڈیا پر مسلسل غریبوں کی امداد کا اشتہار لگانا۔ وہ دوست جو بالکل غائب تھے ان سے رابطہ ہونا۔ وغیرہ وغیرہ۔

سچ پوچھیے تو اللہ نے ہمیں کورونا وائرس کی شکل میں ایک سزا تو دی ہی ہے لیکن بہت سارے مردوں کی مردانگی کا امتحان بھی لیا ہے۔اب جو لوگ دن بھر آوارگی کرتے تھے اور اپنی بیگم سے جھوٹا پیار جتا کر گرما گرم کھانے کی فرمائش کرتے تھے ان کی تو جو حالت ہوئی ہے، اللہ رحم کرے۔ بیچارے مرد، مرتا کیا نہ کرتا۔ وہیں بیویاں بھی کم نہیں انہیں بھی کورونا وائرس سے کوئی غم نہیں۔ اور کیوں غم ہوں ایسا سنہرا موقعہ کبھی ملا ہی نہیں۔ گویا کورونا وائرس سے جب ہم سب اپنی زندگی کو محفوظ رکھنے میں دعا گو ہیں تو وہیں خواتین تو شیرنی بن کر اپنے شکار کو چبا چبا کر کھا رہی ہیں۔ یعنی جو گھر عورتوں کی مہربانی میں چلتا تھا اور مرد شیر بن کر کھاتا تھا اب وہاں اللہ کی پناہ۔ مطلب اس کمبخت کورونا وائرس نے ایسا  رول تبدیل کیا کہ لوگ اب یہی کہہ رہے کہ قیامت کا اب اور انتظار نہیں ہوتا۔

تاہم ہم جیسے بہت سارے لوگ جنہوں نے اپنی زندگی کو عملی طور پر جینے کا فیصلہ کیا ہے ان کے لیے کورونا وائرس کا لاک ڈاؤن اتنا اثر انداز نہیں ہوا جتنا ان لوگوں کی زندگی پر ہوا جو گھر میں داخل ہوتے ہی بیوی سے چائے کی فرمائش کرتے اور شیر ببر کی طرح بیٹھ کر کھانے کا انتظار کرتے۔میں نے تو کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کئی پکوان بنانا بھی سیکھ لیا۔ ویسے کھانا بنانا تو میرا شوق رہا ہے اس لیے مجھے لاک ڈاؤن کے عذاب سے اپنی بیگم سے اتنی اذیت نہیں اُٹھانی پڑی جتنی دنیا کے ان مردوں کو اُٹھانی پڑ رہی ہے جنہوں نے اپنی مردانگی کا دم بھرتے ہوئے باورچی خانہ میں جانے سے گریز کیا۔اب ایسے مرد تو کورونا وائرس سے تو خوف زدہ ہیں ہی اور ان بیچاروں پر گھر کے’تشدد‘ نے ان کی زندگی کو اور عذاب بنا رکھا ہے۔

ویسے بھی کورونا وائرس کے خوف سے جہاں دنیا بھر کے لوگ گھروں میں قید ہیں تو وہیں گھریلو تشدد سے بھی مرد اور عورت بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ یعنی عورتیں کہیں مردوں کی پٹائی کر رہی ہیں تو مرد کہیں عورتوں پر عذاب ڈھارہا۔ برطانیہ میں جب سے لاک ڈاؤن شروع ہوا ہے گھریلو تشدد کافی بڑھ گیا ہے۔ تاہم حکومت نے سخت طور پر بیان کرتے ہوئے کہا کہ گھریلو تشدد میں ملوث مجرموں کے ساتھ سختی سے نبٹا جائے گا اور انہیں متعلقہ قانون کے تحت سزا بھی دی جائے گی۔

کورونا وائرس کا خوف جس طرح شروع ہوا تھا وہ رفتہ رفتہ اب لاک ڈاؤن کی پریشانیوں میں تبدیل ہو چکا ہے۔ دنیا بھر کے لوگ کورونا وائرس کے بارے میں کم اور لاک ڈاؤن کے بارے میں زیادہ پریشان نظر آرہے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے بھی نہیں کیونکہ کورونا وائرس کا جب کوئی علاج ہی نہیں تو کیوں انسان خوامخواہ اس وبا کے پیچھے اپنا دماغ خراب کرے۔ ویسے بھی دنیا کے زیادہ تر لوگ لاک ڈاؤن کی قید سے اس قدر اکتا گئے ہیں کہ ایسا محسوس ہورہا کہ آنے والوں دنوں میں لوگوں کا صبر کا پیمانہ کسی وقت بھی لبریز ہو سکتا ہے۔ یعنی بھوک اور آزادی کی چاہ میں لوگوں کو اب لاک ڈان کی قید میں مزید رہنا ایک عذاب بنتاجارہا ہے۔ جس سے خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔

 لاک ڈاؤن کی اذیت نے ہم پر اور آپ پر جو قیامت ڈھائی ہے اس سے ہم سب دوچار اور بے حال ہیں۔ اب تک کوئی صورت بھی نظر نہیں آرہی۔میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ اللہ جلد ہماری دعا قبول کرے اور ہم سب کو ایک بار پھر چین و آزاد ی کی زندگی نصیب فرمائے۔آمین

Leave a Reply