You are currently viewing کزن میرج ایک سنگین مسئلہ ہے

کزن میرج ایک سنگین مسئلہ ہے

دنیا بھر میں ایک ارب لوگ ایسے ممالک میں رہتے ہیں جہاں رشتہ داروں کے درمیان شادی عام ہے۔ ان لوگوں میں سے تین میں سے ایک کی شادی چچا زاد یا قریبی رشتہ دار سے ہوئی ہے۔ جن میں جینیٹک امراض کی تعداد غیر متعلقہ والدین کے بچوں سے تقریباً دو گنا زیادہ ہے۔

کچھ جنوبی ایشیائی، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقی ممالک میں نصف سے زیادہ شادیاں رشتہ داروں میں ہوتی ہیں۔ پاکستان میں نصف آبادی رشتہ داروں میں شادیاں کرتے ہیں جو کہ کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہے۔ ایسا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ دیہی علاقوں میں یہ تعداد 80 فی صد ہوسکتی ہے۔ جب ہم یہ سنتے ہیں کہ کسی کی شادی اس کے قریبی رشتہ دار سے ہوئی ہے توہم خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ پرانے زمانے میں یہ بات بہت عام ہوا کرتی تھی جب بزرگوں کی ضد پروہ اپنے خاندان کے ہی کسی رشتہ دار کے بیٹے یا بیٹی کا ہاتھ مانگ لیتے تھے۔ خاندانی وقار اور روایت پر ایسی کئی شادیوں کی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ پھر جیسے جیسے زمانہ بدلتا گیااور بزرگوں کی باتوں کی اہمیت ختم ہونے لگی تو لڑکے اور لڑکیاں اپنے رشتہ داروں کو پسند کر کے شادیاں کرنے لگے۔ گویا کہ رشتہ داروں کے بیچ شادی کا چلن بدستور جاری رہا۔

  رشتہ داروں کے ساتھ شادی کا رواج زمانہ قدیم سے تمام مذاہب میں پایا جاتا رہا ہے۔ لیکن پچھلے کئی برسوں سے برطانیہ میں اس روایت کے خلاف ایک مہم چلائی جا رہی ہے۔ خاص کر پاکستانی کمیونٹی میں رشتہ داروں سے شادی نہ کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔ حکومت ہسپتال کے ڈاکٹروں کی صلاح پر پاکستانی کمیونٹی کے لوگوں کو اپنے رشتہ داروں سے شادی نہ کرنے کی تلقین کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ اسکولوں اور کمیونٹی سینٹرمیں اس بات کی جانکاری دی جارہی ہے کہ کس طرح آپس میں رشتہ داروں سے شادی کرنے کہ بعد بچّوں میں معذوری پیدا ہوسکتی ہے۔

مختلف ریسرچ اور ٹیسٹ کے بعد اس بات کا پتہ چلایا گیا کہ پاکستانی کمیونٹی میں زیادہ تر شادیاں جو اپنے رشتہ داروں سے کی گئی ہے ان میں زیادہ تر بچّے معذور پیدا ہورہے ہیں۔ تیس سالہ سائنٹفک مطالعہ سے اس بات کا پتہ چلا ہے کہ رشتہ داروں کے بیچ شادی ہونے اور اس کے بعد جب بچّہ پیدا ہوتا ہے تو اس بات کا زیادہ تر امکان ہوتا ہے کہ بچّہ پیدائشی معذور ہوگا۔جس کی وجہ سے خاندان کے افراد پر ان بچّوں کی دیکھ بھال کا تو دباؤ ہوتا ہی ہے اس کے علاوہ برطانیہ کی ہیلتھ سروس بھی اس مسئلے سے دوچار ہے۔

2015 میں لوٹن شہر میں رشتہ داروں میں شادی کرنے اور پیدائشی معذور بچّوں کے حوالے سے پاکستانی کمیونٹی کے لوگوں میں سروے کیا گیا تو 63% فی صد کیس ایسے پائے گئے جو اس مسئلے سے دو چار ہیں۔ برمنگھم، شیفلڈ اور گلاسگو جیسے شہروں میں بھی پاکستانی کمیونٹی میں ایسے بے شمار کیس پائے جارہے ہیں۔2011 کے بعد برمنگھم چلڈرن ہسپتال میں پاکستانی والدین کے بچّوں میں 43%فی صد پیدائشی معذوربچّوں کا علاج کیا جاچکا ہے۔جو کہ ایک تشویش ناک بات ہے۔ہسپتال کے افسران کا کہنا ہے کہ اس بات کا اندازہ لگا نا مشکل ہے کہ ان پیدائشی معذور بچّوں کے علاج کی خاطر کتنی رقم خرچ ہورہی ہے لیکن اتنا علم ہے کہ ان پیدائشی معذور بچّوں کے علاج کے مصارف بہت زیادہ ہیں۔ 2004میں لگ بھگ این ایچ ایس سروس کے ذریعہ دو ارب پونڈ خرچ کئے گئے تھے۔ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ اب ان پیدائشی معذور بچّوں کے علاج پر اس کے دوگنا خرچ کیا جارہا ہے۔

عائشہ خان اب تک اپنے چار سال کے بھائی کی موت کو نہیں بھلا پائی ہیں۔ اس وقت عائشہ کی عمر آٹھ سال کی تھی اور صبح صبح جب ان کی آنکھ کھلی تو انہیں یاد ہے کہ ان کا گھر لوگوں سے بھرا پڑا تھا۔ عائشہ کے چچا اسے اپنے پاس بٹھا کر دلاسہ دے رہے تھے اور اس کے تین بھائی بہن بھی اس کے ساتھ تھے۔ عائشہ کے غمزدہ ما ں اورباپ ایک کونے میں بیٹھے آنسو بہا رہے تھے۔ عائشہ نے اپنے پیدائشی معذور بھائی سرفراز کو مہینوں بعد ہسپتال سے گھر واپس آنے کا انتظار کیا تھا لیکن عائشہ کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔

عائشہ جو کہ اب 36سال کی ہیں اپنے ایک اور بھائی احمد کو ڈھائی سال کی عمر میں کھو دیاتھا۔ ان کی بڑی بہن طاہرہ سخت معذور ہیں اور ان کا بھائی قاسم جو کہ سرفراز کی موت کے بعد پیدا ہوا تھا اسے کئی صحت کے مسائل ہیں جسے چوبیس گھنٹہ دیکھ بھال کے لئے نرس کی ضرورت پڑتی ہے۔عائشہ کے پاکستانی والدین محمد اور برکت آپس میں چچا زاد ہیں۔ عائشہ کی پیدائش کیلی کے علاقے میں جہاں کی بیس فی صد آبادی پاکستانی اور مسلم ہیں۔ یہ لوگ پاکستان کے میر پور سے تعلق رکھتے ہیں۔ عائشہ نے اپنے والدین کی یہ بات کو ٹھکرا دی جب انہوں نے اس کی شادی اس کے چچا زاد بھائی سے طے کی۔ عائشہ کہتی ہیں کہ ان کے والد نے سائنٹفک رپورٹ کو ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ کہتے تھے کہ جو کچھ بھی ہوا ہے وہ اللہ کی مرضی تھی اور ہماری قسمت ہے۔ اس کا جینیٹکس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ آخر ہمارے کچھ بچّے صحت یاب کیسے پیدا ہوئے تھے۔

عائشہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی کمیونٹی سے تنقید اور طعنہ سننے کو تیار ہے۔ کیونکہ وہ اس بات پر یقین کرتی ہیں کہ رشتہ داروں میں شادی اورمعذور بچّوں کی پیدائش نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ یہ ایک تشویش ناک بات ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کو بچّے کی پیدائش سے قبل ٹیسٹ کروانا چاہئے۔ یہ زندگی اور موت کا سوال ہے۔ عائشہ نے یہ بھی کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ یہ مسلۂ صرف پاکستانی کمیونٹی کا ہے لیکن رپورٹ سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ یہ مسئلہ پاکستانی کمیونٹی میں زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ میرے گھر میں ہمارے بھائی بہن پیدائشی معذوری سے دو چار ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ ہمارے والدین تھے جو چچا زاد بھائی اور بہن تھے اورجنہوں نے آپس میں شادی کی تھی۔

 2011کے مردم شماری کے مطابق برطانیہ کی دو فی صد آبادی پاکستانی یا برٹش پاکستانی ہیں۔ ان میں آدھے لوگوں نے شادیاں اپنے رشتہ داروں میں کی ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ خاندان کی دولت اور جائداد پاس ہی رہ جاتی ہے۔

بچّوں کے ہسپتال کی رپورٹ کے مطابق پیدائشی معذوری کے علاوہ بچّوں میں ذہنی معذوری، دل یا گردے کی بیماری، جگر اور کلیجے کی بیماری، نابینا اور بہرہ ہونے جیسی بیماریاں عام پائی جاتی ہیں۔حالانکہ رشتہ داروں میں شادیاں عرب ممالک اور شمالی افریقی لوگوں میں بھی کافی پائی جاتی ہے۔ جہاں بچّوں میں معذوری اور صحت کا مسئلہ عام ہے۔ ڈاکٹر سہیل چغتائی جو کہ خود ایک پاکستانی ہیں ان کا کہنا ہے کہ جینیٹک کی اہمیت کو لوگ سمجھنا نہیں چاہتے ہیں۔ انہیں اس بات کا علم ہے کہ رشتہ داروں میں شادی خوب ہورہی ہے اور پیدائشی معذور بچّوں کی تعداد بھی کافی ہے۔ ڈاکٹر سہیل کا کہنا ہے کہ یہ زیادہ تر لوگ پاکستان سے آکر برطانیہ میں بسے ہیں۔ لیکن انہوں نے یہاں آکر بھی اپنے خیالات اور روایت کو نہیں بدلا ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔

 2013 میں ایک مطالعہ کیا گیا تھا جس میں رشتہ داروں کی شادی اور پیدائشی معذور بچّوں پر کھل کر باتیں کی گئی تھی۔ اس مطالعہ میں پایا گیا کہ قریبی رشتہ داروں میں جو شادی ہوتی ہے ان میں معذور بچّوں کی پیدائش کے امکانات بنا رشتہ داروں کی شادی کے جوڑوں سے کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ یونیورسیٹی کالج لندن کے جینیٹکس پروفیسر اسٹیو جونس کا کہنا ہے کہ ہر انسان کا ایک دوسرے انسان سے کہیں نہ کہیں کوئی تعلق ہوتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے زیادہ تر لوگوں میں ایسا ہونا ممکن ہے۔ پاکستان میں رشتہ داروں میں شادی کرنے کا رواج بہت قدیم ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ 34سال سے زیادہ عمر کی عورتیں اگر حاملہ ہوں تو معذور بچّے کے پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ برمنگھم میں اس مسئلے پر لوگوں نے بہت حد تک اپنا دھیان دینا شروع کر دیا ہے اور اس میں ہیلتھ سروس کے علاوہ مقامی امام بھی اہم رول نبھا رہے ہیں۔ اب میاں اور بیوی اپنے اولاد کی خواہش سے قبل تھلیسیمیاٹیسٹ کو کر وانا ضروری سمجھ رہے ہیں۔ تاکہ بچّے کی معذوری کو جانا جا سکے اور اس سلسلے میں ڈاکٹر کی رائے لی جا سکے۔

قریبی رشتہ داروں کی شادی لگ بھگ پوری دنیا میں عام ہے۔ خاص کر مسلمانوں  میں قریبی رشتہ داروں کے شادی کا چلن کافی زیادہ پایا جاتاہے۔ اس کے بعد چین اور جنوبی امریکہ کا نمبر آتا ہے جہاں قریبی رشتہ دار آپس میں شادی کرتے ہیں۔ مذہبی نقطہ نگاہ سے اسلام، عیسائی اور دیگر مذاہب میں قریبی رشتہ داروں کی شادی پر کوئی مما نعت نہیں ہے۔  ہمیں اور آپ کو اس بات کا علم ہے کہ قریبی رشتہ داروں میں شادیاں بہت عام ہیں اور اب بھی روایتی طور پر ایسی شادیاں ہونا اور طے پانا ضروری اور خاندانی وقار سمجھا جاتا ہے۔ لیکن کیا ہم نے جینیٹک بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کو محسوس کیا ہے کہ اس سے ایک شادی شدہ جوڑے کو کتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ جس کا عائشہ نے بڑی دلیری سے سامنے آکر احتجاج کیاہے اور لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ رشتہ داروں میں شادی نہ کریں۔

اگر ہم تھوڑی دیر کے لئے یہ مان لیں کہ یہ سب اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے تو ہم یہ کیوں نہیں مان لیتے ہیں کہ اللہ ہی نے ہم انسان کو سوچنے اور سمجھنے کے لئے ایک دماغ بھی دیا ہے۔ جس کے ذریعہ ہم اس بات کو جان پاتے ہیں کہ اگر کوئی بچّہ معذور پیدا ہو رہا ہے تو اس کی ایک وجہ جینیٹک ہے جس کی وجہ قریبی رشتہ داروں میں شادی ہے۔ اللہ ہی کے بنائے ہوئے انسانوں نے سائنٹفک مطالعہ کے ذریعہ اس بات کا پتہ بھی لگا یا ہے جس سے ہم ایک نہیں کئی جانوں کو تکلیف اور درد سے بچا سکتے ہیں۔ آئیے ہم اور آپ اس مسئلے پر سوچیں اور جذبات سے زیادہ عقل سے کام لیں۔

Leave a Reply