You are currently viewing ڈوگ کی بڑھتی ہوئی چوری اور بیچارہ کتا

ڈوگ کی بڑھتی ہوئی چوری اور بیچارہ کتا

انسان اپنی زندگی میں طرح طرح کے مسائل سے ہمیشہ گھر ا ہوتا ہے۔ کبھی وہ اپنے ارد گرد کے ماحول اور حالات سے متاثر ہوتا ہے تو کبھی اسے اپنوں کے غم ستاتے رہتے ہیں۔ کبھی غیروں کی زیادتیاں سے جینا دو بھر ہوجاتا ہے توکبھی اپنوں سے  عاجز آجاتا  ہے۔

کبھی انسانیت کا رونا روتے تو کبھی خدا سے شکایت کرتے۔ کبھی جانوروں سے پیار کرتے تو کبھی اس پر پر ظلم کرتے۔سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آخر انسان کی پریشانیاں کیوں کبھی کم یا ختم نہیں ہوتی ہیں۔ اور  انسان کس حال میں جینا چاہتا ہے۔ ان باتوں کے علاوہ اگرانسان کے ساتھ دشواریاں نہ ہوں تو پھر زندگی کیسی ہو گی۔ اگر کوئی ایسا ساتھ ہو تو اس کی رفاقت میں ہمدردی اور وفاداری ہو توساری پریشانیاں اور دشواریاں کم ہوجاتی ہیں۔ یہ رفاقت،کیااس ڈوگ کی طرح کی ہوگی،جو صرف اپنے مالک کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر اپنا وقت گزارتا ہے۔اور اس کا مالک بھی اسی پیار میں اپنے ڈوگ کا بے حد خیال رکھتا ہے۔

آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ آج ہم  کون سا انسان اور جانور کا فلسفہ چھیڑ  بیٹھے۔ دراصل آج کا کالم ایک ایسے موضوع پر ہے جس میں انسان کا وفادار ساتھی کتے کے حوالے سے ہے۔پچھلے دنوں ایک خبر نظر سے گزری کہ برطانوی (وزیرداخلہ) داخلہ سیکریٹری پریتی پٹیل نے پالتو جانوروں کی چوریوں میں حالیہ اضافے کو روکنے کے لئے سخت اقدامات پر غور کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ کورونا وبا کے دوران کتوں کی خریداری کی مانگ میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے کتوں کی قیمت 500پونڈسے بڑھ کر 2000پونڈہوگئی ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہواہے کہ کتوں کی چوری میں کافی اضافہ ہوگیا۔یہ تحمینہ لگایا گیا ہے کہ کتوں کی چوری کی وارداتوں میں لگ بھگ 250فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔جس میں مجرموں کا گروہ بھی شامل ہے۔

داخلہ سیکریٹری پریتی پٹیل نے برطانیہ کے معروف ٹاک ریڈیو  “ایل بی سی “کو بتایا کہ وہ پالتو جانوروں کی چوری کو زیادہ سنگین جرم میں اپ گریڈ کرنے کے بارے میں مشورہ کر رہی ہیں اور سخت جرمانہ لاگو کرنے کا بھی ارادہ ہے۔فی الحال کتوں یا دیگر پالتو جانوروں کی چوری میں ملوث جرائم پیشہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سات سال قید کی سزا ہے۔ جس سے لوگ مطمئن نہیں ہیں اور جانوروں کے خلاف جرم پر  سخت سزا کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 2018 میں کئی جانوروں کی چیریٹی نے حکومت سے اس بات کی مانگ کی کہ موجودہ قانون میں تبدیلی لانی چاہیے۔ تاہم حکومت نے قانون کو تبدیل کرنے کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال چوری کے ایکٹ کافی مستحکم ہیں۔لیکن سابق کنزرویٹیو رہنما سر ائین ڈنکن اسمیتھ نے نام نہاد “ڈوگ نیپنگ “(ڈوگ نیپنگ:کتے کو اس کے مالک سے لینے کا جرم ہے۔ یہ لفظ اغوا کی اصطلاح سے ماخوذ ہے)سے نمٹنے کے لیے سخت سزا کا مطالبہ پہلے ہی کر چکے ہیں۔

 قانون میں  تبدیلی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انسان پر جانور کے چوری یا کھونے کا جذباتی اثر ایک عام اور غیر جاندار چیز کے چوری یا کھو جانے سے زیادہ ہوتا ہے۔جس سے اس کی زندگی میں ایک بہت بڑی تبدیلی اور ذہنی دباؤ پیدا ہوتا ہے۔جو کہ اس کی عام صحت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ داخلہ سیکریٹری پریتی پٹیل نے ایل بی سی کے معروف پریزینٹر نیک فراری کو بتا یا کہ پالتو جانوروں کی چوری خاص طور پر لندن میں بہت عام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ “میں اس مسئلے پر کافی رائے مشورہ کر رہی ہوں اور پوری کوشش کر رہی ہوں کہ اس کی روک تھام جلد ہو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ پالتو جانوروں کی چوری کو سنگین جرم مانتی ہیں “۔ لیکن انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ ” سزا کی حد مقرر کرنا ان کا کام نہیں ہے۔تاہم،ہم یقینی طور پر اس مسئلے کو دیکھ رہے ہیں کہ جرائم کو روکنے کے لیے کس قسم کے اقدامات کیے جاسکتے ہیں “۔

پچھلے سال اکتوبر میں، لگ بھگ 300000لوگوں نے پالتو جانوروں کی چوری کے خلاف سخت سزا کے لیے ایک احتجاجی دستخط مہم بھی چلائی تھی۔  جسے بعد میں اپنے اپنے علاقے کے ایم پی کو بھیجا گیا۔جس میں ا یم پی سے پالتو جانوروں کی چوری کو ایک مخصوص جرم بنانے کی مانگ کی گئی تھی جس پر پارلیمنٹ میں بحث بھی ہوئی تھی۔ جانوروں اورخاص کر کتوں کی چیریٹی “کینل کلب “کا کہنا ہے کہ کتوں کی چوری میں 5فی صد سے بھی کم مقدمات جرم کے مجرم پائے جاتے ہیں اور 52فی صد کتوں کی چوری لوگوں کے گھروں کے باغات سے ہوتے ہیں۔  جانوروں کی ایک اور چیریٹی “آر ایس پی سی “نے لوگوں سے گزارش کی ہے کہ مالکان اپنے جانوروں کو بغیر کسی کی نگرانی کے دکانوں کے باہر یا گاڑیوں میں تنہا نہ چھوڑیں۔

آج میں نے وفادار جانور کتے کی چوری پر برطانیہ میں داخلہ سیکریٹری کی ہمدردی اور حالِ زار پر کچھ باتیں کی۔ نہ جانے کیوں مجھے کتے کی آنکھیں ہمدرددانہ دکھتیِ ہیں۔ ہمارے ہسپتا ل(رائل ہوسپٹل فار نیورو ڈِس ایبی لیٹی) میں ایک خاتون” تھیریپی ڈوگ “لے کر ہر ہفتے مریضوں کے دل بہلانے کے لیے آتی ہے۔ میں جب بھی وارڈ میں ہوتا ہوں اس تھیراپی ڈوگ کی آنکھوں کو بغور دیکھتا ہوں۔ جانتے ہیں کیوں، دراصل پورے تھیراپی کے دوران اس ڈوگ کی آنکھیں اپنے مالکن خاتون سے نہیں ہٹتیں۔اللہ نے کیسا جانور پیدا کیا ہے۔کمال کی محبت، وفاداری، اور نہ جانے کیا کیا گن اس ڈوگ میں دیے ہیں۔ کبھی کبھی میری آنکھیں ان ڈوگ کو دیکھ کر بھر آتی ہیں کہ کاش ہم انسان بھی ان ڈوگ کی طرح وفادار ہوتے؟

 گائڈ ڈوگ بھی کمال کا ہوتا ہے جو اپنے اندھے مالک کا صبح سے شام تک خیال رکھتا ہے۔اپنے مالک کا کپڑا لا کر دینا، باتھ روم میں لے جانا وغیرہ جیسے اہم کام کے لیے گائیڈ ڈوگ ہر وقت تیار رہتا ہے۔اس کے علاوہ ڈوگ کو برطانوی سماج میں ایک اہم جانور مانا جاتا ہے جو زیادہ تر گھروں میں بحیثیت ایک فیملی ممبرکی طرح زندگی گزارتا ہے۔ مجھے بھی برطانیہ میں ڈوگ یعنی کتے کی بڑھتی ہوئی چوری سے تشویش ہے اور ان ہزاروں لوگوں کے ساتھ میری ہمدردی ہے جن کا ڈوگ چوری ہوگیا ہے۔میں ان لوگوں کی ذہنی دباؤ کو بھی سمجھ سکتا ہوں جو ڈوگ کے کھو جانے سے پریشانِ حال ہیں۔مجھے امید ہے کہ جلد برطانوی حکومت ایسے سخت قدم اٹھائے گی اور قانون بنائے گی تاکہ ڈوگ کی چوری جلد از جلد رک سکے۔

لیکن ایک بات مجھے اب تک یہ سمجھ میں نہیں آئی کہ کہ اگر ڈوگ اتنا وفادار اور ایک پالتو جانور ہے تو اردو زبان میں اسے “کتا”کیوں لکھا جاتا ہے؟اور اسے کتاکیوں بنا دیا گیا؟ میں نے بر صغیر میں اکثر کتوں کو دھتکارتے یا ان پر لاٹھی برستے ہوئے دیکھا ہے۔ اس کے علاوہ جب دو لوگوں میں جھگڑا ہوتا ہے تو وہ ایک د سرے کو گالی کے طور پر کتے کی اولاد یا کتا کا بچہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ جب لوگ کافی غصے میں ہوتے ہیں اور ایک دوسرے پر زور زور سے چلاتے ہیں تو وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ “کتے کی طرح نہ بھونکنا”۔اس کے علاوہ اردو زبان میں بہت سے مستعمل محاورے کتوں سے منسوب ہیں جیسے، کتے کی موت مرنا، کتے کی دم ٹیڑھی کی ٹیڑھی رہتی ہے، اپنی گلی میں کتا بھی شیر ہوتا ہے،وغیرہ ایسے محاورے ہیں جو آج بھی اردو زبان و ادب میں منفی طور پر انسانوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

خیر ہم اسے” ڈوگ “کہے یا “کتا”، برطانیہ میں ڈوگ کی جو عزت اور وقار ہے وہ قابلِ ستائش ہے اور کیوں نہ ہو، ڈوگ کی وفاداری ہی ایسی ہے جو میں نے انسانوں میں نہیں پائی۔مجھے تو، اردو زبان میں کتا کہہ کر یا لکھ کر “کتے “کی وفاداری پر شک اوراس کی ذات کی بے حرمتی،محسوس ہوتا ہے۔ اب لفظ “کتا “بنانے والے کو ہم الزام ٹھہرائے یا ہندوستان اور پاکستان کے ان” کتوں “کو جنہیں اردوداں نے محض بھونکنے کی وجہ سے انہیں “کتا “بنا دیا۔

Leave a Reply