You are currently viewing ڈبلین میں ایک دن

ڈبلین میں ایک دن

رائل ہوسپیٹل فار نیرو ڈس ایبلیٹی  (Royal Hospital for Nero-disabilty)  لندن میں کام کرتے ہوئے لگ بھگ چار سال ہو چکے ہیں۔ان چار برسوں میں مسلسل ہماری ٹیم ہر میٹنگ میں اس بات پر رائے مشورہ کرتی کہ  کم مدت کی چھٹی پر یورپ کے کسی ملک کا دورہ کیا جائے گا۔

اس طرح بات ہوتی رہتی  اور پھر سال گزر جاتا لیکن ہم سب کسی نتیجے پر پہنچنے سے قاصر رہتے۔ گویا کہ چھٹی  کا یہ پلان ایک ایسی دشوار کن بات بن گئی کہ ہر سال ایک امید جاگتی اور پھر معاملہ  غتر بود  ہوجاتا۔ ہم اسی امید پر  خوش ہوجاتے کہ اس سال دفتر کے ساتھیوں کے ساتھ یورپ کے کسی ملک کا دورہ کر لیں گے۔ لیکن صاحب  چھٹیوں  کا پلان بنے تب تو ہم جاپاتے  یہاں تو باتیں ہوتیں اور پھر معاملہ ٹھنڈے  بکس میں ڈال دیا جاتا۔

دراصل اس  چھٹی کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے ایک اور بات اہم تھی،  وہ یہ کہ ہوائی جہاز کا کرایہ سستا ہو اور جگہ دلچسپ ہو۔ شاید اسی لئے میرے ساتھی جو اس ذمہ داری کو نبھانے کی کوشش کر رہے تھے شاید یہ بات ان کے لئے دردِ سر بنی ہوئی تھی۔اس کے علاوہ تمام لوگوں کا اس بات پر بھی اتفاق  کرنا کہ کون سا دن اور مہینہ سبھوں کے لئے آسان ہوگا۔تاہم میرے ساتھیوں نے  کئی بار  چھٹیوں کی  ڈیل ڈھونڈی ضرور لیکن دشواری یہ تھی کہ کوئی نہ کوئی ساتھی کسی نہ کسی مجبوری کے تحت دستیاب نہیں ہو پارہا تھا۔ بس جناب  چھٹی  کا معاملہ کمبخت ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا۔ گویا ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہمارے اس نیک ارادے کو نظر لگ گئی ہو۔

خیر چار سال تمام دشواریوں اور’ہاں‘ اور ’نہ‘ کے بعد آخر کار ہفتہ 6جولائی کو ہم سب آئیر لینڈ کی راجدھانی(Dublin) ڈبلین جانے کو تیار ہو ہی گئے۔تاہم اس سے قبل میرے ساتھیوں نے ڈ لین کے علاوہ (Luxembourg)لکسمبرگ کا بھی پلان ڈھوندا تھا لیکن چند مجبوریوں کے تحت لکسمبرگ جانا سبھوں کے لئے مناسب نہیں ہورہا تھا۔اس کے علاوہ ہالی ڈے پر جانے سے قبل ہمارے درمیان یہ بھی طے پایا تھا کہ ہم کسی قریب یورپی ملک جائے گے تا کہ سفر میں زیادہ وقت نہ  صرف ہو۔اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ہماری ٹیم کو دفتر کے ہالی ڈے جانے پر اتبا عرصہ کیوں لگا۔

ہفتہ 6جولائی کی صبح چھ بجے گھر سے روانہ ہوا۔ تاہم آنکھ تو میری صبح چار بجے ہی کھل گئی تھی۔ جس کی ایک وجہ سورج کا جلدی طلوع ہونا اورگھر کے پیچھے باغ میں پرندوں کا چہچہانا۔ لندن اور برطانیہ کے باسی کے لئے سورج چمکنا  صحیح معنوں ایک تہوار سے کم نہیں۔ اسی لئے انگریز انگلینڈ کے نیلے آسمان پر ہر وقت سیاہ بادلوں کے پہرے سے عاجز آکر یورپ یا ان ممالک کا سفر کرنا لازمی سمجھتے ہیں جہاں موسم خوشگوار اور دھوپ چمچماتی رہتی ہے۔

گھر سے روانہ ہو کر سب سے پہلے اپنے سیکریٹری نورین جون کو حسبِ وعدہ اپنی گاڑی میں بٹھایا اور پھر اپنے ٹیم کی لیڈر ایشلی جونس کو بھی ان کے گھر سے  لیا۔ راستے بھر ہم ڈبلین کی چھٹی اور پہلی بار دفتر کے لوگوں کے ساتھ ہالی ڈے پر جانے کی خوشی اور پلاننگ کے بارے میں بات چیت کرتے رہے۔

لندن کے پانچ ائیر پورٹ میں سے  گیٹ وک  (Gatwick Airport) اہم ائیر پورٹ ہے۔ جہاں سے لاکھوں مسافر اپنے منزل اور ہالی ڈے کے لئے دنیا کی مختلف جہازوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ہم نے آن لائن کے ذریعہ اپنی گاڑی کو سارے دن کی پارکنگ کے لئے جگہ محفوظ کر لی تھی۔تاہم گیٹ وِک ائیر پورٹ کے پاس مزید کئی ایسے پارکنگ کی سہولیات دستیاب ہیں جہاں آپ اپنی گاڑی کو پارک کر کے ہالی ڈے پر جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ گیٹ وِک ائیر پورٹ سے وکٹوریہ اسٹیشن تک کے لئے کئی ٹرین بھی چلتی ہیں۔

ہم تمام لوگ صبح سات بجے گیٹ وِک ائیر پورٹ پہنچ گئے اور سیکورٹی میں اپنی چیکنگ کروانے لگے۔جس میں بمشکل چند منٹ ہی لگے ہوں گے۔ سیکورٹی جانچ کے بعد تھوڑی دیر گیٹ وِک ائیر پورٹ کے ڈیوٹی فری شاپنگ کا لطف لیتا رہا اور گھڑی پر بھی نظر رکھے ہواتھا۔ گیٹ وِک ائیر پورٹ لوگوں سے بھرا پڑا تھا اور ان دنوں برطانیہ کے زیادہ تر لوگ ہالی ڈے کے لئے ملک سے باہر جانا لازمی سمجھتے ہیں۔

آئر لینڈ کے لئے (Ryanair)رائین ائیر جہاز ہمارے استقبال میں کھڑا تھا۔ جہاز مسافروں سے بھرا ہوا تھا اور وقت کے مطابق رائین ائیر کا جہاز ہمیں آئیر لینڈ کی راجدھانی ڈبلین کی طرف روانہ ہواگیا۔لگ بھگ ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ہمارا جہاز ڈبلین انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر اتر گیا۔ کھڑکی سے باہر نظر دوڑائی تو بارش اور بادل سے گھرے منظر دکھنے لگے۔ کہتے ہیں آئیر لینڈ میں بارہوں مہینے بارش ہوتی ہے۔

ائیر پورٹ سے باہر نکل کر ایک ٹیکسی پر سوار ہو کرہم سب سٹی سینٹر کی طرف روانہ ہوگئے۔بارش کی بوچھاڑ اور بادل سے گھرے ڈبلین کو دیکھ کر کچھ پل کے لئے مایوسی ہوئی۔لگ بھگ بیس منٹ کی سواری کے بعد ہم سب سٹی سینٹر پہنچ گئے۔ قریب ہی ٹورسٹ انفارمیشن کے آفس میں داخل ہو کر شہر گھومنے کی مزید اطلاعات  حاصل کیں  اور ہوپ آن اور ہوپ آف بس پر سوار ہو کر شہر گھومنے نکل پڑے۔بس کا اوپری حصّہ کھلا ہوا تھا لیکن ڈبلین کی بارانِ رحمت نے اوپر بیٹھے ہوئے مسافر کو اپنی بوچھاڑ  اور ٹھنڈک سے سہما رکھا تھا۔ہوپ آن اور ہوپ آف بس کی یہی خوبی ہے کہ اس کا اوپری حصّہ کھلاہوتا ہے جہاں سے سیاح شہر کا دلفریب نظارہ کرتے ہیں اور اپنی اپنی پسند کی تصویریں کھینچتے ہیں۔

آئیر لینڈ ایک تاریخی اور خوبصورت  ملک ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ آئیر لینڈ پر انگریزوں نے لمبی مدت تک حکومت کی تھی جس کی وجہ سے عمارتوں سے لے کر زبان اور ثقافت میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ آئیرش لوگ اب بھی اپنی بولی (Gaeilge)گیلج بولنا فخر سمجھتے ہیں۔

تاہم انگریزی عام بول چال کی زبان ہے اورراستے کے سائین اور روڈ سائین انگریزی اور گیلج دونوں زبانوں میں لکھے پائے جاتے ہیں۔

دو گھنٹے کے ہوپ آن اور ہوپ آف بس کے سفر کے بعد ہم سٹی سینٹر واپس لوٹ آئے۔ ہم سبھوں کو بھوک کافی ستا رہی تھی اور ہم سب ایک اچھے ریسٹورنٹ کی تلاش میں نکل پڑے۔ قریب ہی ایک اٹالین ریستورینٹ میں کھانا کھایا گیا اور ہم سب پھر شہر کی خاک چھاننے نکل پڑے۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا کہ شہر میں لوگ کافی کم ہیں۔ تاہم سٹی سینٹر میں سیاحوں کی موجودگی سے گہما گہمی دکھائی دی۔ ورنہ کچھ جگہوں پر لوگوں کو دیکھنے کے لئے آنکھیں ترس گئیں۔

ڈبلین کا معروف(Trinity College) ٹرینیٹی کالج جانے کا بھی اتفاق ہوا۔جس کی بنیاد 1592میں رکھی گئی تھی۔اس کالج کا معروف لائبریری آج بھی سیاحوں کی نظر کا مرکوز ہے۔ جس میں 4 سو سالہ پرانی کتابیں پائی جاتی ہیں اور لگ بھگ 6ملین پرنٹ کتابیں موجود ہیں۔ ٹرینیٹی کالج میں کئی عمارتیں ہیں جو اپنے اپنے طور پر اپنی شان اور خوبصورتی کے لئے اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہیں۔

شام کے 7بج چکے تھے اور ہمیں ائیر پورٹ پہنچنا تھا۔ کیونکہ رات 8:45پر ہمارا جہاز لندن کے لے لئے اڑان بھرنے والا تھا۔

Leave a Reply