You are currently viewing چیریٹی اور ہمارا فرض

چیریٹی اور ہمارا فرض

دنیا بھر میں چیریٹی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کو امداد پہنچائی جاتی ہے۔چیریٹی کے ذریعہ دنیا کے ہر طبقے، مذہب اور نسل کے لوگوں کو جن کی کسی نہ کسی وجہ سے حالت بہتر نہیں ہوتی ہے ان کو براہِ راست یا بالواسطہ طور پر امداد فراہم کی جاتی ہے۔

دنیا بھر میں چھوٹے بڑے پیمانے پر ہزاروں چیریٹی چوبیس گھنٹہ بے حال لوگوں کی امداد پہچانے میں دن رات جٹے رہتے ہیں۔کئی لوگ تو چیریٹی کرنے میں بنا کسی نام اور پہچان کے اس طرح لگے رہتے ہیں کہ انہیں یقیناً اللہ جنت میں جگہ فراہم کرے گا۔

برطانیہ میں بھی چیریٹی کا بہت عام رحجان ہے۔ بچوں سے لے کر بڑے بوڑھے بھی اپنے اپنے طور پر اپنی اپنی پسند کی چیریٹی سے منسلک ہو کر لوگوں کو امداد اور راحت پہچاتے رہتے ہیں۔ میں یہاں برطانیہ کے ہسپتالوں کی مثال دینا ضروری سمجھتا ہوں جہاں آئے دن مختلف اقسام کی چیزوں کا انتظام کیا جاتا ہے جس سے پیسہ اکھٹا کر کے ہسپتال کی ضروریات میں خرچ کیا جاتا ہے۔ میں اگر اپنے ہسپتال کی مثال دوں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کس طرح ہماری فنڈ جمع کرنی والی ٹیم پورے بارہ مہینے ہسپتال کے لئے مختلف تقریبات کو منعقد کر کے پیسہ اکھٹا کرتی رہتی ہے۔جن میں ریلوے اسٹیشن کے باہر چند مہینوں میں ایک بار کام سے فارغ ہو کر مختلف شعبوں کے لوگ گانا گا کر اور میوزک بجا کر پیسہ اکھٹا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سائیکل سواری، تاش کھیل کر، فٹ بال کے چیریٹی میچ اور کئی تقریبات کا انتظام کر کے ہسپتال کے لئے پیسہ اکھٹا کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ ایک دلچسپ بات میں نے یہ بھی دیکھی ہے کہ زیادہ تر ہسپتالوں میں (League of Friends)لیگ آف فرینڈز نام کی ایک چیریٹی ہوتی ہے جو دن بھر مریضوں اور اسٹاف کے لئے سینڈ وچ بنا کر یا چائے کافی بیچ کر پیسہ جمع کرتے ہیں۔ جسے ہسپتال کے اہم شعبوں کے لئے خرچ کیا جاتا ہے۔ لیگ آف فرینڈز میں کام کرنے والے زیادہ تر لوگ ضعیف اور بے روزگار ہوتے ہیں۔ یہ لوگ بنا کسی معاوضے کے کام کرتے ہیں اور جس کی وجہ سے چیریٹی کو پیسہ جمع کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔

برطانیہ میں زیادہ تر چیریٹی کا عمدہ کارنامہ اور بے مثال خدمات ہیں۔ جس کی ایک وجہ برطانوی لوگوں کی فراخ دلی اور ہمدردی ہے اور ساتھ ہی یہاں کی اچھی معاشی حالت بھی ہے۔ہر سال ا ربوں پونڈ چیریٹی کے لئے اکھٹا کئے جاتے ہیں اور جسے دنیا بھر میں ان لوگوں کے لئے بھیجا جاتا ہے جو بے حال اور بے یارو مدد گار ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں ہر سال ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا کے ذریعہ کروڑوں پونڈ جمع کیا جاتا ہے جسے ان خاص چیریٹی کا انتخاب کیا جاتا ہے جو برطانیہ میں بچوں، اندھوں، معذور، ضعیف وغیرہ کے لئے کئی اہم پراجیکٹ چلا رہے ہیں۔ اسی طرح سے بی بی سی کے ذریعہ بھی ہر سال کروڑوں پونڈ اکھٹا کر کے بیرون ممالک کے بچوں اور پناہ گزینوں کی مدد کی جاتی ہے۔

برطانیہ میں مسلمانوں کے نام پر کئی اعلیٰ اور معروف چیریٹی سرگرم ہیں۔ جن میں مسلم ایڈ، ہیلپنگ ہینڈ، اسلامک ایڈ، ریڈ فاؤنڈیشن، ہیومن اپیل، اسلامک ریلیف، یو کے اسلامک مِشن، مسلم ہیلپ،مسلم گلوبل ریلیف،نیشنل زکوۃ فاؤنڈیشن قابلِ ذکر نام ہیں۔ یہ چیریٹی کئی ملین پونڈ ہر سال جمع کرتی ہیں اور برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں جہاں مسلمان پریشانِ حال یا غربت کی زندگی گزار رہے ہیں ان کو امداد پہنچاتی

 ہیں۔

برطانیہ کے نامور شاعر اور مخلص دوست جناب احسان شاہد چودھری کا ذکر کرنا یہاں کافی اہم ہے۔ احسان شاہد چودھری سے میری ملاقات کافی عرصے سے ہے۔ ادب سے دلچسپی اور سادگی نے بھائی احسان شاہدکو مجھ سے استنبول کانفرنس میں قریب سے ملنے کا ذریعہ بنا دیا۔ پچھلے کچھ برسوں سے بھائی احسان نے (Hounslow)ہونسلو کے علاقے میں (Free meals project)فری میلس پروجیکٹ کے نام سے ہر شام کھانا کھلانے کا انتظام کیا۔ بھائی احسان کی اس چھوٹی سی کوشش نے ہونسلو علاقے کے بے روزگار باشندوں کے علاوہ قرب و جوار کے لوگوں کے پیٹ بھرنے لگے۔ ہم سب کو بھائی احسان شاہد چودھری پر فخر ہے کہ انہوں نے یہ نیک کام کرنے کا بیڑا  اٹھایا ہے۔ میں بھائی احسان شاہد چودھری کی انسانی ہمدردی کو سلام کرتا ہوں اور احترام کرتا ہوں کہ انہوں نے اس کام کو جاری رکھا ہوا ہے۔ ان کے نیک کام سے متاثر ہو کر ملکہ برطانیہ نے انہیں (MBE-Member of British Empire) ایم بی ای کے اعلیٰ اعزاز سے نوازا ہے۔ یہ ہم سبھی کے لئے فخر کی بات ہے۔ہم بھائی احسان شاہد کی لمبی عمر اور سلامتی کی بھی دعا کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے ذریعہ کلکتہ میں ایک اہم پروگرام کی بھی اطلاع ملی جس سے دل خوش ہوا۔ اتوار 18اگست کی شام کلکتہ کا معروف الحمد ایجوکیشنل آرگنائزیشن کا گیارہواں سالانہ تقریب اور انعامِ تقسیم شاندار طور پر منایا گیا۔ جس میں شہر کی معزز ہستیوں میں سابق پولیس کمشنرنثار احمد کے علاوہ قاری اور امام صباح اسماعیل اور معروف سیاسی تجزیہ کارسائرہ حلیم،کریم رضا مونگیری اور محمد اظہار عالم نے بھی شرکت کی۔ الحمد ایجوکیشنل آرگنائزیشن کلکتہ شہر کا ایک ایساتعلیمی ادارہ ہے جو کئی برسوں سے بچوں کے اعلیٰ تعلیم اور کیرئیر کے لئے بے مثال کام کر رہی ہے۔ اس آرگنائزیشن کے کارکن میں ڈاکٹر سعید الدین، اکرام خان لودھی، اے کے نہال،ڈاکٹر نہال احمد، حاجی صادق حسین، اعجاز احمد،محمد شاہجہان، عفنان اخضر، عبدالخالق، دلشادکے نام قابلِ ذکر ہیں جو بچوں کی تعلیم میں نمایاں رول نبھا رہے ہیں۔ میں ادارے کا شکر گزار ہوں کہ مجھ جیسے معمولی انسان کو ادارے کا سرپرست مقرر کیا ہے۔تاہم یہ میری بد قسمتی بھی ہے کہ مجھے الحمد ایجوکیشنل آرگنائزیشن کے سالانہ تقریب میں اب تک شرکت کی دعوت نہیں ملی ہے۔

یہاں یہ بات بھی بتانا ضروری ہے کہ صوفی جمیل اختر لٹریری سوسائٹی  ہر سال کلکتہ کے کئی اداروں کو تعلیمی اور فلاح و بہبود کے لئے مالی امداد فراہم کرتی ہے۔ جن میں الحمد ایجوکیشنل آرگنائزیشن، مسکان فاؤنڈیشن رشڑا، گارڈن ریچ پیش مومنٹ اور خضر پور یونٹ فور سوشل اینڈ  ویلفئیر ایکٹی ویٹیز، آسرا کانکی نارہ وغیرہ اہم ہیں۔یہ تمام ادارے اپنے اپنے علاقوں میں بچوں کی تعلیم اور فلاح و بہبود کے لئے عمدہ رول نبھا رہے ہیں۔

میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ چیریٹی کرنا اور ضرورت مند لوگوں تک امداد پہونچانا زندگی کا ایک اہم فرض ہے۔جسے بڑی تعداد میں لوگ انجام دے رہے ہیں۔ (Charity Begins at Home)انگریزی کے اس کہاوت سے ایک مجھے اس بات کو بتانے میں کوئی جھجھک نہیں ہورہی کہ اگر ہم چھوٹے چھوٹے کام کو اپنے گھر اور محلے سے شروع کریں تو یقین جانئے روحانی تشفی کے علاوہ اللہ سے قربت کا بھی اندازہ ہونے لگتا ہے۔ کچھ سال قبل میرے پڑوس کی ایک ضعیف انگریز خاتون اپنی کمزوری اور علالت کی وجہ سے کوڑا پھینکنے سے مجبور تھی۔ میں نے کئی سال تک اس ضعیف انگریز خاتون کا کوڑا ہر ہفتے پھینکتا رہا۔ جس سے مجھے اس بات کا سبق حاصل ہوا کہ چیریٹی کے لئے آپ کو کسی ادارے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنے گھر اور محلے سے آپ چیریٹی شروع کر سکتے ہیں۔

کچھ سال قبل میں نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ مساجد سے چیریٹی شروع کرنے کا عمدہ ذریعہ ہے۔ جہاں لوگ ہر ہفتے اپنی حیثیت سے کچھ پیسہ فلاح و بہبود کے لئے دیں اور امام اپنے علاقے کے مجبور، غریب، بیوہ اور مریضوں کے لئے ان پیسوں کو خرچ کرے۔ جس سے مجبور لوگوں کا بھلا ہوگا اورمذہبی اور فلاحی طور پر لوگوں میں ایک عمدہ پیغام پہنچے گا

Leave a Reply