You are currently viewing پھر جلا فلسطین

پھر جلا فلسطین

سنیچر 7اکتوبر کی دوپہر میں عمان کی راجدھانی مسقط میں ہوٹل کی لابی میں بیٹھا ٹیلی ویژن دیکھ رہا تھا کہ اچانک بی بی سی کی ورلڈ سروس پر حماس کے طرف سے اسرائیل کی خبر سے میرے ہوش اڑ گئے۔ خبروں میں مرجھائی شکل اور غمگین لہجے میں خبروں کو پڑھتے ہوئے دکھایا جا رہا تھا جس میں کئی سو اسرائیلی کی ہلاکت اور اسرائیل پر حملے کی خبر کو دہرایا جارہا تھا۔

تاہم میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اس بات پر افسوس کرتارہا کہ اسرائیلوں نے فلسطینیوں پر ظلم کی ہرانتہا پار کر دی ہے۔کبھی ہم اپنی بے بسی پر آنسو بہا کر خاموش بیٹھ جاتے تو کبھی احتجاجاً کچھ لکھ کر اپنی آواز کے ذریعہ دنیا کو آگاہ کرتے کہ بس اب فلسطینیوں پر ظلم بند ہونی چاہیے۔تو کبھی ہاتھ اٹھا کر اللہ سے دعا مانگتے کہ یا اللہ کوئی حل نکلے اور فلسطین آزاد ہو۔وہیں اپنے اپنے طور پر دنیا بھر میں لوگ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی احتجاج کر رہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے اب تک اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔جس کی ایک وجہ فلسطینیوں کی کمزور لیڈر شپ اور عرب ممالک کی لاپرواہی بھی کہا جاسکتا ہے۔

یوں تو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں میں تناؤ مسلسل بنا رہتا ہے۔ جس کی ایک وجہ اسرائیلیوں کا فلسطینی زمین پر ناجائز قبضہ اور ان کا جارحانہ رویہ ہے۔ جس کی مخالفت میں امریکہ اور مغربی طاقتیں اپنا منہ بند کئے بیٹھی رہتی ہیں۔ آئے دن سوشل میڈیا اور کبھی کبھار عالمی خبروں کے ذریعہ اسرائیلی لوگوں کو فلسطینی زمین ہڑپ کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔جس میں بے بس فلسطینی سوائے اپنی آواز بلند کرنے کے اور کچھ نہیں کر پاتے۔ اس پر ستم یہ کہ ان بے گھر فلسطینی کا کوئی پرسانِ حال بھی نہیں ہوتا ہے۔اگر کسی نے ان کی حمایت میں بات کرنے کی کوشش کی تو اس کو مختلف زاویے سے کسی نہ کسی طرح اسرائیلی مخالف بتا کر منہ بند کروادیا جاتا ہے۔

ایک صدی سے زیادہ عرصے یہودی اور عرب دریائے اردن اور بحیرہ روم کے سمندر کے درمیان سر زمین کے مالک بننے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ 1948میں اسرائیل قائم ہونے کے بعد سے فلسطینیوں کو کئی طرح کی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جبکہ تنازعہ اب بھی جاری ہے اور دونوں ہی محفوظ نہیں ہیں۔ ایک یقینی بات یہ ہے کہ ہر چند سالوں میں میں کم از کم ایک سنگین اور پر تشدد بحران ضرور پیدا ہوتا ہے۔آئے دن اسرائیلی پولیس فلسطینیوں پر فائرنگ کرتے یا انہیں مارتے پیٹتے ہیں۔اس کے علاوہ مسجد اقصیٰ، (جو کہ مکہ اور مدینہ منورہ کے بعد مسلمانوں کے لئے سب سے مقدس مقام ہے)کے اندر سی ایس گیس اور اسٹن گرینیڈ استعمال کئے جاتے ہیں۔

عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں کے لئے یروشلم شہر کا تقدس صرف ایک مذہبی معاملہ نہیں ہے۔ یہودی اور مسلمان مقدس مقامات کو قومی علامت بھی سمجھتے ہیں۔ جغرافیائی طور پر یا لفظی طور پر ان مقدس مقامات کی دوری کوایک پتھر پھینکنے کی دوری سے بھی مشابہت کر سکتے ہیں۔اسرائیلی چوکی کے دوسری طرف، ہولی سیلچر چرچ بھی قریب ہے۔اس کے پاس ہی پرانے شہر یروشلم کی دیواروں کے باہرفلسطینیوں کاشیخ جراح کا وہ علاقہ ہے جہاں انہیں گھروں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔جس کا معاملہ اسرائیل کی عدالتوں میں چل رہا ہے جہاں یہودی آباد کار گروہوں فلسطینی زمین اور جائدادکا دعویٰ کر رہے ہیں۔

یروشلم کے جراح علاقے کی فلسطینی زمینوں کا معاملہ عام تنازعہ سے زیادہ ہے۔ یروشلم کو مزید یہودییوں کا علاقہ بنانے کی سازش کئی برسوں سے جاری ہے۔ جس کی اسرائیلی حکومت حمایت بھی کرتی ہے۔بین الاقوامی قانون کو توڑتے ہوئے فلسطینیوں سے زمین چھین کر یہودیوں کے مکانات تعمیر کئے جارہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں حکومت اور آباد کارگروہوں نے پرانے شہر یروشلم کے فلسطینیوں کو بے دخل کر کے کئی مکانات تعمیر کئے ہیں۔ جس پر فلسطینی مسلسل آواز اٹھا رہے ہیں۔  ہے۔اسرائیلی ہزاروں فلسطینیوں کو مار ڈالتا ہے اور اقوام متحدہ بے بس تماشہ دیکھتی رہتی ہے۔عام طور پر یروشلم میں ایک مقدس پہاڑی کے احاطے میں فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے مابین اکثر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔اس جگہ کو مسلمان اور اسرائیلی دونوں احترام کرتے ہیں۔مسلمانوں کے لئے قبلہ اول بیت المقدس،(حرم الشریف،نوبل سینکچری) اور یہودیوں کے لئے ہیکل پہاڑ قابلِ احترام ہے۔

 دونوں طرف اپنی گہری مذہبی اور قومی اہمیت کے حامل لوگوں میں اس شہر کی تقدیر کئی عشروں پرانے اسرائیل اور فلسطین تنازعہ کا مرکز رہا ہے۔اسرائیل نے 1980میں مشرقی یروشلم کو منسلک کر دیا تھا اور اس پورے شہر کو اپنا دارلحکومت سمجھا تھا۔ حالانکہ اس کو دوسرے ممالک کی اکثریت تسلیم نہیں کرتی ہے۔ وہیں فلسطینی امید اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یروشلم کے مشرقی نصف حصہ ان کی اپنی ریاست ہے۔غزہ کی پٹی سے حماس کی اسرائیل پر حملے اور ہزاروں اسرائیلوں کی ہلاکت سے اسرائیل سمیت عالمی برادری کے ہوش اڑ گئے ہیں۔ جس کے جواب میں ہر بار کی طرح اسرائیل امریکہ اور مغربی طاقتوں کی پست پناہی میں غزہ پٹی کو نیست و نابود کررہا ہے۔لیکن حماس بھی ہر بار کی طرح اسرائیل سے مرتے دم تک لڑرہی ہے اور فلسطینی آزادی کے لئے اپنا خون بہائے جارہی ہے۔

اسرائیل نے اپنی درندگی کا ثبوت دیتے ہوئے غزہ پٹی میں کھانا پینا اور ضروری ایشیا کی سپلائی  بند کر دی ہے جس پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کہا کہ عسکریت پسند گروپ کے خلاف اسرائیلی جوابی فضائی حملوں نے غزہ کی پٹی میں رہائشی عمارتوں اور اسکولوں کو نشانہ بنایا جو کہ محاصرہ بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہے۔

 میں سوچتا ہوں کہ کہیں اسرائیل کے قیام کرنے کے لیے دوسری جنگ عظیم ایک بہانہ تو نہیں تھا؟ اگر آپ اس پر غور کریں تو ہٹلر کو ایک خاص قوم یہودیوں کو نشانہ بنانا اور اس کی اس حرکت سے آخر کار 1948میں برطانیہ نے اپنی طاقت سے اسرائیل ملک کے قیام کا اعلان کر دیا۔یہ بات تو زیرِ بحث ہے اور رہے گی کہ آخر ہٹلر اپنی طاقت کا نشہ صرف یہودیوں کے خلاف ہی کیوں کر رہا تھا؟ لیکن ایک بات تو اب سمجھ میں آتی ہے کہ ہٹلر کے ذریعہ لاکھوں یہودیوں کو مارنے کانتیجہ یہ ہوا کہ یہودیوں کو ان کا ایک ملک مل گیا جس کا نام اسرائیل پڑا۔اس میں کوئی دو رائے بھی نہیں کہ اسرائیل کا قیام فلسطینیوں کی زمین کو ہڑپ کر کے کیا گیاتبھی تو عالمی برادری منہ بند کئے محض تماشائی بنی ہوئی ہے۔

میں فلسطینیوں پر ظلم کے خلاف اسرائیل کی درندگی کی سخت مذمت کرتا ہوں اور انسانی جانوں کی نقصان پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہوں۔میں امید کرتا ہوں کہ عالمی برادری اس معاملے کو سنجیدگی سے حل کرے تاکہ معصوم لوگوں کی جان نہ جائے اور خون مزید نہ بہے۔ تاہم اب وقت آچلا ہے کہ عالمی برادری اسرائیل کی پیٹھ تھپ تھپانے کی بجائے اس مسئلے کا حل نکالے۔ میں اسرائیلی اور فلسطینیوں کو ایک ساتھ رہتے دیکھنا چاہتا ہوں جیسا کہ صدیوں سے وہ فلسطین میں رہ رہے تھیں۔

Leave a Reply