You are currently viewing وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے

وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے

صدیوں سے ہندوستان اور برطانیہ کے بیچ ایک خاص رشتہ رہا ہے۔اس کی ایک وجہ انگریزوں کا ہندوستان پر ایک عرصے تک حکومت کرنا تھا اورساتھ ہی ساتھ ہندوستان کوایک ترقی یافتہ ملک بنانے کی ذمہ داری بھی تھی۔اس کے علاوہ ہندوستان پر انگریزی زبان اور تہذیب کا اثر بھی رہاہے۔

تاہم لگ بھگ دو سو برس ہندوستان پر حکومت کرنے کے بعد جب انگریز واپس برطانیہ لوٹ آئے تو انہوں نے مثبت طور پر کئی چیزوں سے ہندوستانی عوام کو روشناس بھی کرایاتھا۔ جن میں ہندوستان کا تعلیمی نظام، عدالتی نظام، جمہوری نظام، کل کارخانے، ریلوے، پوسٹ آفس، سرکاری ایڈمنسٹریٹر، وغیرہ کافی اہم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی برطانیہ میں ہندوستانیوں، پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کی ایک اچھی خاصی آبادی موجود ہے۔  خیر آپ بھی حیران و پریشان ہوں گے کہ آخر میں نے آج برطانیہ اور ہندوستان کے تعلقات  پر کیوں بات شروع کی۔ دراصل جب سے کورونا نے پوری دنیا میں اپنا شکنجہ جکڑنا شروع کیا تب سے ایک بات میں محسوس کی کہ جوں جوں برطانوی وزیراعظم بورس جونسن اعلان یا قدم اٹھاتے توں توں ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی بھی اس کی نقل کرتے۔ چلئے اچھی باتوں کی نقل کرنا کوئی خراب بات بھی نہیں ہے۔ اب آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ میں نے آج  گفتگو کا آغاز کیوں ہندوستان اور برطانوی رشتے سے کیا ہے۔

مجھے یاد ہے جب مئی کے مہینے میں برطانیہ کی ایک لیڈی نے نیشنل ہیلتھ سروس کے اسٹاف کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے لوگوں سے اپیل کی کہ کیوں نہ لوگ رات آٹھ بجے گھروں سے باہر نکل کر دو منٹ تالی بجائیں تا کہ اس سے ہیلتھ اسٹاف کی حوصلہ افزائی ہو۔ خیر صاحب یہ سلسلہ خوب چلا اور کئی ہفتے تک لوگ گھروں سے باہر نکل کر تالی بجاتے رہے۔ لیکن اسی دوران ہندوستانی وزیر اعظم نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے تھالی بجانے کا فرمان جاری کر دیا۔ لیجئے جناب ہندوستانی عوام اس سے اتنا پر جوش ہوئے کہ پورا ہندوستان تھالیوں کی آواز سے گونجنے لگا۔ ہاں یہ بھی کہا گیا کہ اس سے کورونا بھاگ کھڑا ہوگا۔ مجھے تو اس بات کی خبر نہیں کہ کورونا تھالی بجانے سے بھاگ گیا بلکہ خبروں کو پڑھنے سے اس بات کا اندازہ ضرور ہوا کہ تھالی بجانے کی آواز سے کورونا اتنا مسرور ہوا کہ اس سے ہندوستان میں کورونا سے مرنے والوں کی تعداد دن بدن اور بڑھنے لگی۔

 حال ہی میں دنیا کے مختلف ممالک سے کورونا کی دو نئی ایجاد  ہوئی ہیں۔ پھر کیا تھا سیاسی لیڈروں کو کچھ راحت ملی اور انہوں نے آناً فاناً اس بات کا اعلان کر دیا کہ یہ ویکسن جلد لوگوں کو لگائی جائے گی۔تبھی ویکسن کی دوڑ میں آکسفورڈ  کے سائنسدانوں نے بھی اعلان کر دیا کہ انہوں نے بھی  ویکسن تیار کر لی ہے۔ ظاہر سی بات ہے برطانیہ کے لیے یہ ایک بہت بڑی خبر تھی۔ کیونکہ برطانیہ، امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح اس بات کا خواہاں رہتا ہے کہ ہر نئی ایجاد میں ا س کے ملک کا نام سر فہرست ہو۔لیکن جس تیزی سے ویکسن ایجاد ہونے کی بات کہی گئی اسی تیزی سے ویکسن پر کئی سوالات بھی کھڑے ہونے لگے۔پھر کیا تھا خبروں میں اس بات کا چرچا ہونے لگا کہ کیا ویکسن واقع میں تیار ہو سکے گی یا محض یہ ایک پرو پگنڈا ہے؟

اسی دوران برطانوی وزیراعظم بورس جونسن سائنسدانوں کا کوٹ پہن کر سائنسی لیبارٹری پہنچ گئے۔ پھر کیا تھا دھڑا دھڑ تصاویر لگائی جانے لگی اور لوگوں کا اعتماد بحال کیا جانے لگا کہ آکسفورڈ  ویکسن جلد کامیاب ہوجائے  گی۔ لیکن بات یہی ختم نہیں ہوئی بلکہ اگلے روز جب میں نے ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کو سفید کورٹ میں ملبوس دیکھا تو مجھے اس بات کا پورا یقین ہوگیا کہ ہم چاہے جتنا 15اگست کا جشن منا لیں لیکن ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کاپی برطانوی وزیر اعظم کی ہی کریں گے۔اب اسے مجبوری کہئے یا معذوری، کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔

جمعرات 26نومبر کو برطانوی وزیر اعظم شام پانچ بجے اپنے دو سائنسی فرشتے منکر اور نکیر (یہ دراصل نام نہیں ہیں)کے ساتھ ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئے اور اس بات کا اعلان کیا کہ 2دسمبر سے ایک مہینہ سے چلنے والا لاک ڈاؤن ختم کر دیا جائے گا۔ لیکن اس کے بدلے میں پورے ملک میں کورونا کیس کے حساب سے ٹئیر ون، ٹئیر دو، اور ٹئیر تین کا نفاذ ہوگا۔یعنی لاک ڈان کے خلاف لوگوں کے غصے سے بچنے کے لئے برطانوی وزیراعظم نے ٹئیر سسٹم کا اعلان کر دیا۔ جس میں ٹئیر ون کا مطلب لاک ڈان ہی جیسے ضابطے رہیں گے۔ ٹئیر ٹومیں جس میں لندن بھی شامل ہے کچھ رعایت ہوگی جیسے سیلون، پب اور دیوٹورینٹ کا کھلنا لیکن ریسٹورینٹ اور پب رات دس بجے بند ہوجائے گیں۔ٹئیر تھری میں زیادہ رعایت ہوگی جو کہ پورے برطانیہ میں صرف دو علاقوں میں جس کا نفاذ ہوگا۔

کوویڈ۔19 کے لیے متعدد ویکسنس تقریباً تیار ہیں۔ الحمداللہ سرنگ کے آخرمیں ہمیں کچھ روشنی تو دکھائی دینے لگی ہے۔تاہم میں اکثر ایک سوال اپنے آپ سے کرتا ہوں کہ کورونا کی وبا خدا کی طرف سے ایک سزا کیسے ہوسکتی ہے جب کہ وہ رحیم اور کریم ہے۔ایک امریکی عیسائی رہنما ڈاکٹر آر ٹی کینڈل نے وبائی امراض کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ امریکہ چار وجوہات کی بنا پر عتاب میں ہے ہے: نسل پرستی، قانونی طور پر اسقاط حمل، ہم جنس پرستی کی شادی کی منظوری‘۔ اسی طرح ایک سنئیر مسلم اسکالر نے کہا کہ ’پاکستان کو تین چیزوں کی سزا مل رہی ہے۔ فرقہ واریت اور باہمی منافرت، حکومت  کی بدعنوانی اور رشوت ستانی اور معاشرے میں جنسی بے راہروی‘۔اس کے علاوہ زیادہ تر مذہبی عقائد کے لوگوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ دنیا میں جس قدر برائیاں بڑھی ہیں اس سے خدا تعالیٰ ناراض ہے اور اسی لیے دنیا میں کورونا کی وبا پھیلی ہے۔

کورونا وائرس کے شروع ہوتے ہی زیادہ تر مسلمانوں نے اس بات کو محسوس کیا کہ ہم سب گناہ کے دلدل میں پھنس گئے ہیں جس سے اللہ ناراض ہو کر ہمیں ایسی سزا دے رہا ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا، ’جب معاشرے میں جنسی بے حیائی عام طور پر ظاہر ہوگی تو آپ کو بدگمانی اور تکلیفیں نظر آئیں گی جو پچھلی نسلوں کو معلوم نہیں ہیں‘۔ اگر چہ اللہ سب سے زیادہ مہربان ہے، لیکن وہ ہمارے دلوں کے حال کو جانتا ہے۔ اس نے انسانیت کو واضح طور پر بیان کیا ہے۔ اللہ کہتا ہے کہ’ہم نے شفقت کی ہے اور میری گرفت سخت ہے واقعی سخت، تو خبر دار‘۔

بے شک اللہ میں مہربانی، سخاوت، مغفرت، صبر اور احسان کی خوبصورت خوبیاں ہیں۔دوسری طرف، وہ غالب، وہ موت دینے والا اور بدلہ لینے والا ہے۔وہ اپنی پسند کے مطابق اپنے آپ کو اظہار کرنا پسند کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ ’وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے‘۔ مزید یہ کہ  اس نے فطری قوانین بنائے ہیں، دنیا ان کے مطابق چلتی ہے۔ وہ ہر چیز سے باخبر اور قابل ہے۔

چین کے شہر ووہان کے دوردراز پہاڑوں میں چمگادڑ کے جسم میں کورونا کا تغیر ایک قدرتی واقعہ تھا۔ لیکن چین کے بازار ایک انسانی ایجاد ہے۔ ہوائی سفر کی وسیع پیمانے پر استعمال، جو وبائی امراض کی تیز رفتار منتقلی کی ایک بنیادی وجہ تھی۔ جس کی وجہ سے کورونا پوری دنیا میں تیزی سے پھیل گیا۔لہذاٰ، ہم انسان تیز اور بے قابو پھیلاؤ کے لیے ذمہ دار ہیں۔یہ  وبائی  مرض  انسانیت کی بہترین اور انسانیت کی خرابی کو سامنے لایا ہے۔ آئیے ہم اپنے اعمال کو درست کریں اور اس بات کی امید رکھیں کہ ا نشااللہ ہمیں اندھیرے سے چھٹکارا ملے گا۔ آمین۔

Leave a Reply