نئے سال سے نئی اور اچھی توقعات

نیا سال مبارک ہو۔ یوں تو نیا سال دنیا بھر میں منایا جاتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی نیا سال خوب دھوم دھام سے منایا گیا۔ لندن میں بھی دریائے تھیمس کے کنارے آتش بازی کی زبردست نمائش کی گئی۔ لاکھوں لوگ اپنے قریبی دوست اور رشتہ داروں کے ہمراہ اس نظارے کو دیکھنے کے لئے لندن کے معروف(Big Ben) بگ بین کے قریب جمع ہو ئے۔

31 دسمبر کی رات سے پہلی جنوری کی صبح تک لندن ٹرانسپورٹ مسافروں سے کوئی کرایہ وصول نہیں کرتی ہے جسے لندن مئیر کی طرف سے ایک تحفہ سمجھا جاتا ہے۔ لندن کا معروف اور تاریخی بگ بین جیسے ہی اپنی گرج دار آواز کے ساتھ رات کے بارہ بجنے کا اعلان کرتا ہے لندن ویل سے آتش بازی کا مظاہرہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس وقت لوگ اپنی محبت اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں اور نئے سال کو کس طرح گزاریں گے، اس کاقرار داد کرتے ہیں ۔  نئے سال کی آمد کا جشن لندن کے علاوہ بیجنگ، سڈنی، نیویارک، پیرس اور دبئی میں بھی دیکھا جاتا ہے۔ جہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگ ایک مخصوص اور معروف جگہ پر جمع ہو کر آتش بازی کا  مظاہرہ دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے دن اخباروں میں کس شہر کی آتش بازی شاندار تھی اس پر تبصرہ بھی ہوتا ہے۔ ان آتش بازیوں کے مظاہرے پر کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں جو ان  لوگوں سے ہی وصول کئے جاتے جو اسے دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔

آئیے سال 2017 کا سیاسی پسِ منظر میں ایک جائزہ لیتے ہیں۔ یوں تو 2017کئی معنوں میں لوگوں کے لئے کافی ملا جلا تھا۔ دنیا بھر میں سیاسی اتھل پتھل دیکھنے کو ملی اور کئی ممالک میں جنگ کے آثار بھی دیکھے گئے۔ امریکہ اور شمالی کوریا میں کافی توں توں میں میں رہی تو وہیں اسرائیل کا فلسطینیوں پر بڑھتا ہوا ظلم دیکھا گیا۔ ترکی میں فوجی بغاوت ناکام ہوئی اور ہندوستان کی معیشت دھیمی پڑی۔ جنوری 2017 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف لینے کے بعد پوری دنیا کی امن کو خطرہ لاحق ہوگیا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ رویے سے لوگوں کا جینا حرام ہو چکا ہے۔ وہ جب بھی منہ کھولتے ہیں ہر عام انسان اس سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ آخر وہ اس طرح کے بیانات دینے سے گریز کیوں نہیں کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف جب بھی شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان کچھ بولتے ہیں تو وہ اس کے جواب میں ایسی بات کر جاتے ہیں جس سے ہر ذی شعور انسان سکتے میں آجا تا ہے۔ مثال کے طور پر شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان نے کہا کہ ’نیوکلیر کا بٹن میری میز پر ہر وقت موجود رہتا ہے‘  تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کہہ دیا کہ ’ ہمارا نیوکلیر بٹن تم سے زیادہ پاور فل ہے‘۔ ان بیانات کو سننے کے بعد ہر امن پسند آدمی سہم سا گیا۔ مجھے تو اسکول کے وہ بچّے یاد آگئے جو اپنا نیا قلم کو دکھا کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’ہمارا قلم تم سے زیادہ قیمتی اور خوبصورت ہے‘۔ دراصل اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی صدر کو نہ  تو دنیا کی پرواہ ہے اور نہ ہی وہ ایک تہذیب یافتہ صدر ہیں یا  پھر انہوں نے دماغی توازن کھو دیا ہے۔

2017 میں برطانیہ کی نئی وزیر اعظم تھریسا مے کو اس وقت دھچکا لگا جب ان کی پارٹی کی اکثریت پارلیمنٹ میں کم ہو گئی۔ مرتا کیا نہ کرتا کسی نہ کسی طرح تھریسا مے نے نارتھین آئیرلینڈ کی ایک چھوٹی پارٹی سے اتحاد کر کے حکومت تو بنا لی لیکن برطانیہ کے گلے میں(Brexit) بریکسٹ کی جو ہڈّی اٹکی ہے انہیں اسے  نکالنے میں سخت مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے سیاسی ماہرین تھریسا مے کو ایک کمزور لیڈر مان رہے ہیں۔ آئے دن ان کی لیڈر شپ پر تنقیدیں ہو رہی ہیں اور لوگوں کا اعتماد بھی تھریسا مے کے متعلق اٹھتاجارہا ہے۔ برطانیہ جلد ہی یوروپین یونین سے باہر نکلنے والا ہے اورجہاں یوروپین یونین کے حامیوں میں مایوسی ہے تو وہیں اس کے مخالف لوگوں میں کافی امیدیں ہیں۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کے لئے 2017 ایک ملا جلا سال رہا ہے۔ تاہم نریندر مودی کے چھپّن انچ کے سینے میں کچھ دراڑیں ضرور پڑی ہیں۔ جس کی مثال ہندوستان کی معیثت ہے جو پچھلے برسوں کے مقابلے میں دھیمی پڑتی دکھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ نریندر مودی کی مقبولیت میں بھی کمی آئی ہے اور ان کے زور دار بھاشن اب لوگوں میں غیر مقبول ہو رہے ہیں۔ پھر بھی انہیں کئی ریاستوں میں کامیابی ضرور ملی ہے لیکن ان کی پارٹی کو سیٹیں بھی کم ملی ہیں۔ ان ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے اقلیتی طبقہ پر کافی ظلم ہوتے ہوئے دیکھا جارہا ہے ۔ مسلمانوں کو بیف کھانے ، لو جہاد اور تین طلاق کے حوالے سے براہِ راست نشانہ بنایا جا رہا ہے تووہیں مسلمان اپنے سیکولرزم کی رٹ لگا کر بیوقوف بنے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کا کوئی لیڈر ہی نہیں ہے۔

طیب اردگان ترکی کے ایک ایسے اہم لیڈر بن کر ابھرے ہیں کہ انہیں امریکہ اور یورپ ناپسند کرنے لگا ہے۔2017میں طیب اردوان کی حکمت عملی اور عوامی مقبولیت نے فوجی بغاوت کو کچل کر رکھ دیا تھا۔ جس کے بعد طیب اردگان کی مقبولیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ طیب اردوان ترکی کی ترقی کے علاوہ اسلامی ممالک کی حمایت میں بیان دینے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ لیکن وہیں یہ بھی بدقسمتی ہے کہ زیادہ تر عرب ممالک جو کہ امریکہ کے ہاتھوں میں ناچتے ہیں ترکی کے صدر اردوان کے ساتھ اتنا تعاون نہیں کرتے ہیں جتنا کرنا چاہئے۔ جس کی مثال امریکہ نے جب اپنے سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو ترکی کے صدر نے استنبول میں ایک ہنگامی کانفرنس بلائی جس میں زیادہ تر مسلم ممالکوں نے شرکت ہی نہیں کی۔ ماہرین کی رائے ہے کہ چین جلد ہی دنیا کا سب سے طاقتور ملک بن جائے گا۔ ویسے بھی چین معیشت اور فوجی طاقت میں اپنا ایک اعلیٰ مقام رکھتا ہے۔ چین دنیا کے کئی ممالک میں اپنا کاروبار کامیابی سے پھیلا رہا ہے جس کی وجہ سے امریکہ اور ہندوستان گاہے بگاہے چین کی پالیسی پر نکتہ چینی کرتے رہتے ہیں۔ 2017چین کے لئے ہر بار کی طرح ایک کامیاب سال رہا ہے۔ چین اب بھی دنیا کا واحد سب سے بڑا کمیونسٹ ملک ہے۔ گویا 2017 اگر کئی لوگوں کے لئے ایک کامیاب اور نیک سال تھا تو وہیں کئی لوگوں کے لئے ایک مایوس کن سال بھی رہا ہے۔

میں نے 2017 کو ایک مشکلات سے گھرا مایوس کن سال پایا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں ایسے لیڈر چنے گئے ہیں جن سے دنیا کی سلامتی کو ہر وقت خطرہ لاحق ہے ۔ تا ہم اوروں کی طرح اس بات پر ہم بھی امید رکھتے ہیں کہ انشااللہ دنیا میں امن قائم ہوگا اور ظالم کو منھہکی کھانی پڑے گی۔ اسی امید پر نیا سال مبارک ہو۔

Leave a Reply