You are currently viewing مغلیہ عہد کے عظیم بادشاہ ہمایوں کے مقبرہ کی سجاوٹ

مغلیہ عہد کے عظیم بادشاہ ہمایوں کے مقبرہ کی سجاوٹ

لندن کی ڈائری
مغلیہ عہد کے عظیم بادشاہ ہمایوں کے مقبرہ کی سجاوٹ
پچھلے دنوں سولہوی صدی کے عظیم بادشاہ ہمایوں کے مقبرے کی چھ سال کی مرمت کے بعد اس کا سرکاری طور پر افتتاح کیا گیا۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ہمایوں کے مقبرے کوUnesco World Heritage Site کے تحت اس کاافتتا ح کیا تھا اور ان کاریگروں کی تعریف کی تھی جنہوں نے اس کے مکمل ہونے میں نمایاں رول ادا کیاتھا۔ جناب منموہن سنگھ نے یہ بھی کہا کہ اس کام کے لئے ہزاروں کاریگروں کو سرکاری اور غیر سرکاری ادروں کے ذریعے روزگار کے مواقع بھی فراہم کے گئے تھے۔ جناب منموہن سنگھ نے کہا کہ ہندوستان ورثاوں کے ذخیروں کا ملک ہے اور یہ بات باعثِ فخر ہے کہ ان کاریگروں نے جدید طریقے سے اس کام کو بحسن و خوبی انجام دیا جو قابلِ ستائس ہے۔
مقبرے کی عمارت کی خوبصورتی کو جس طرح سے نکھارا گیا ہے اس سے مغلیہ دور کی کاریگری کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔ اس عمارت کی تعمیر 1565 میں ہوئی تھی اور اس کا ڈیزائین مشہور پرشین کاریگر مرزا غیاث نے بنایا تھا۔یہ عمارت ہمایوں کے انتقال کے ۹ سال بعد تعمیر ہو ئی تھی۔ کہتے ہیں کہ اب تک ہندوستان میں اتنے بڑے پیمانے پر کسی تاریخی عمارت کا بحالی کا کام نہیں ہوا ہے۔
اس کام کو مکمل کرنے کے لئے آغا خان ٹرسٹ اور آرکیلوجیکل سروے آف انڈیا نے نمایاں رول نبھایا ہے اور جن کی مشترکہ کوششوں سے اس کی تعمیر کے لئے ازبیکستان کے اعلیٰ کاریگروں کو ہندوستان لایا گیا تھا جو کے بابر کا آبائی وطن تھا۔ ان چھ سالوں میں اس کام کے دوران کاریگروں نے بہت ہی محتات ہو کر ایک ایک اینٹ کوبنا کسی نقصان کے بہت ہی خوش اصلوبی سے یہ کام انجام دیا۔
اکسویں صدی میں اس عمارت کی مرمت میں کافی نقصان ہوا تھا اور اسی لئے اس بار پوری کوشش یہ کی گئی تھی کہ اس کی مرمت میں رواعتی چیزوں کا استعمال کیا جائے۔ اس لئے اس بارراج مستری، پلاسٹر، سنگتراش اور ٹائل میکر کے کاریگروں نے اس کی تعمیر میں عمدہ رول نبھایا تھا۔
ہمایوں کے مقبرے کی مرمت اور بحالی سے اس کی جو خوبصورتی اور اجاگر ہوئی ہے اور یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ سیاحوں کی بھاری تعداد اس عمارت کو دیکھنے آئیگی۔مورخوں کا ایسا بھی ماننا ہے کہ اسی عمارت کو دیکھ کر ہی تاج محل کا بھی ڈیزائین بنایا گیا تھا۔
برطانیہ میں اس خبر کی اہمیت اس معنوں میں اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں تاریخ اور ثقافت کا ذخیرہ موجود ہے اور برطانیہ کے لوگ اس طرح کی خبروں کو تاریخی نقطہ نگاہ سے کافی ترجیح دیتے ہیں لیکن برطانوی عوام کو آج بھی ا س بات کا دکھ ہے کہ جب تاریخی بابری مسجد کو 1992 میں انتہا پسند ہندوءں نے شہید کیا تھا تو ہندوستانی حکومت اس کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی تھی۔ برطانوی عوام آج بھی اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر کار ہندوستانی حکومت کیوں کر بابری مسجد جیسی تاریخی عمارت کو کیوں نہ محفوظ رکھ سکی۔

جھوپڑ پٹی کی شہزادی
یہ خبر برطانیہ اخبار میں مایوسی کے ساتھ پڑھی گئی کہ بہادر شاہ ظفر کے پر پوتے پرنس مرزا بیدار بخت کی بیوی سلطانہ بیگم ان دنوں کلکتہ کے کثیر تعداد والے جھوپڑ پٹی میں 60 پونڈ کی پینشن سے اپنی زندگی گزار رہی ہیں۔ سلطانہ بیگم کی یہ حالت تب سے ہوئی جب ان کے شوہر پرنس مرزا بیدار بخت کا 1980 میں انتقال ہو ا تھا۔ اس کے بعد سلطانہ بیگم ہوڑہ کے ایک گنجان آبادی والے علاقے میں ایک چھوٹے سے دو کمروں کے مکان میں اپنی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ سلطانہ بیگم کوکھانا بنانے کے لئے اپنے پڑوسی کا باورچی خانے کا استعمال کرنی پڑتی ہے اور اپنے کپڑے دھونے کے لئے راستے کے نل سے پانی کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔
حالانکہ یہ بات گواہ ہے کہ سلطانہ بیگم کا تعلق ایک شاہی خاندان سے ہے لیکن ان کو اپنی زندگی گزارنے کے لئے محض 60 پونڈ پنشن پر ہی اتفاق کرنا پڑتا ہے۔ سلطانہ بیگم جو کے اپنی غیر شادی شدہ بیٹی کے ساتھ رہتی ہیں کہا کہ’ ہم لوگ جی رہے ہیں اور اس کا علم صرف خدا کو ہے‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میری دوسری بیٹی اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہے اور وہ لوگ بھی بہت غریب ہیں اور وہ بھی ہماری مدد نہیں کر سکتے ہیں۔ سلطانہ بیگم کو 60 پونڈ (6,000 rupees) ماہانہ کے طور پر جو پینشن ملتا ہے اس سے ان کا انکے چھ بچوں کے خاندان کا گزارا ہوتا ہے۔ ان کی حالت کو دیکھتے ہوئے مختلف اداروں نے اس بات کی مہم چلائی ہے کہ شاہی خاندان والوں کی اچھی دیکھ بھال کی جائے جن کی حالت انگریزی حکومت کے ہندوستان سے جانے کے بعد گو نا گو ہوگئی ہے۔
سلطانہ بیگم کا تعلق اس مغلیہ خاندان سے ہے جس نے ہندوستان میں کئی ایسی عمارتیں بنائیں ہیں جو کے بے مشال ہیں اور جن کو دیکھنے کے لئے آج بھی دنیا بھر کے سیاح پہونچتے ہیں۔ان میں تاج محل کا نام قابلِ ذکر ہے اور اس کے علاوہ لال قلعہ، آگرہ کا قلعہ، دہلی کی جامع مسجد، اور لاہور کا شالیمار گارڈن ہیں جو کے اب UNESCO world heritage sites میں شامل ہیں۔لیکن سلطانہ بیگم پچھلے کئی سالوں سے صوبائی اور ہندوستانی حکومت سے اپنی بنیادی سہولت اور اچھی پنشن کی مانگ کر رہی ہیں۔اب تک حکومت نے سلطانہ بیگم کی پوتی روشن آرا کو ایک نوکری فراہم کی ہے جس سے اسے 163150 کی تنخواہ ملتی ہے۔ لیکن سلطانہ بیگم کے خاندان کے دوسرے لوگ تعلیم نہ حاصل کرنے کی وجہ سے حکومت کی نوکری سے محروم ہیں۔ سلطانہ بیگم نے گھر کا خرچ چلانے کے لئے ایک چائے کی دکان کھولی تھی اورآج کل وہ لڑکیوں کے لئے کپڑے سلنے کا کام کر رہی ہیں۔
سلطانہ بیگم کا کہنا ہے کہ میں کچھ لوگوں کی شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے اس مشکل کی گھڑی میں میری مدد کی ہے۔ سلطانہ بیگم یہ بھی کہتی ہیں کہ ان کے شوہر مرحوم محمد بیدار بخت جو کے جمشید بخت کے صاحبزادے تھے اور جوان بخت کے پوتے تھے وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ہم ایک ایسے خاندان کے وارث ہیں جو جینے کے لئے کبھی بھیک نہیں مانگ سکتی ہے۔ میں نے ہمیشہ حکومت سے یہی کہا ہے کہ ہمیں وہی فراہم کریں جس کے ہم مستحق ہیں۔
سلطانہ بیگم کے پر دادا بہادر شاہ ظفر مغلیہ حکومت کے آخری تاجدارِ ہند تھے جو1837میں ہندوستان کے بادشاہ بنے تھے۔ 1857جب ہندوستانی فوجیوں نے انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا تو بہادر شاہ ظفر کو کمانڈر ان چیف بنا یا گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد جب انگریزی حکومت نے 1858میں بغاوت کو کچل دیا تھا اوربہادر شاہ ظفر کو قید کر کے انہیں رنگون بھیج دیا گیاتھا۔ جہاں وہ پانچ سال رہنے کے بعد 87 سال کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔
کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لئے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں

Leave a Reply