You are currently viewing مشکلیں ساتھ نہ ہوتیں تو پریشاں ہوتا

مشکلیں ساتھ نہ ہوتیں تو پریشاں ہوتا

عام طورپر ہم مشکلات میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں یا اپنے عقیدے کے تحت اس سے نکلنے کی تراکیب ڈھونڈتے ہیں۔ اس طرح کبھی ہم اس جنجال سے نکل کر اللہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں، تو کبھی اپنی بے بسی اور گناہوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر پچھتاتے ہیں کہہ یہ سب ہماری کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔

گویا انسان کسی بھی طور پریشان حال ہی ہے۔ چاہے اس کی پریشانیاں اپنی ذات سے ہو یا خاندان سے، یا سماج سے، یا اپنے ارد گرد کے ماحول سے۔گویا انسان کی مشکلات اگر ساتھ نہ ہوں تو نہ جانے پھر انسان کی زندگی کیسی ہوتی ہے۔اگر میں اپنی زندگی میں جھانک کر دیکھتا ہوں ہوں تو بچپن سے لے کر اب تک کسی نہ کسی حال میں مشکلات سے دوچار رہا ہوں۔ چاہے وہ گھریلو مسائل ہوں یا دفتری معاملات یا پھر گرد ونواح کے حالات ہوں۔گویا مجھے اس بات سے حیرانی ہی نہیں ہوتی کہ دنیا میں کوئی بھی انسان ایسا نہیں جو کسی نہ کسی مشکلات سے دوچار نہ  ہو۔تاہم مشکلات سے گھبر ا جانا یا اس کا سامنا نہ کرنا ایک ایسی عام بات ہے جسے ہم جان کر بے بس ہوجاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا اور دنیا کی تمام نعمتوں سے نوازا ہے۔ زندگی جینے اور اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا ہے۔ مجھے تو اللہ کی یاد اور عبادت سے اس بات کا اتنا اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ ہماری مشکلات ہم پر غالب ہونے سے کم ہوجاتی ہیں۔کیونکہ ہم اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے اس سے اپنی خطا اور گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ جس سے ہمارے اندر اللہ کی موجودگی اور اس کایقین پختہ ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم اپنی بے بسی اور الجھن کو اس کی یاد سے مستحکم اور مضبوط بناتے ہیں۔ اس طرح ہمیں اپنے اکیلے پن سے نجات ملتی ہے اور

ہم اللہ کی ذات پر بھروسہ کر کے  مشکلات پر غالب ہو کر کامیابی اور کامرانی کی طرف گامزن ہوجاتے ہیں۔

تاہم ان تمام باتوں کے باوجود انسان مصیبتوں اور مشکلات میں الجھ کر اپنی زندگی سے اکثر اکتا جاتا ہے۔ اور کبھی کبھی تو اللہ کی دی ہوئی زندگی اور نعمت سے مایوس ہو کر جان تک بھی دے دیتا ہے۔ قرآن میں بیان ہے کہ (وماَأَصَا بَکَ َ مِنَ سَیِتہٍ فمِن نَفَسِکَ)،ترجمعہ:آپ کو کوئی بھی نقصان پہنچے تو یہ تمہاری اپنی وجہ سے ہے۔ (النساء:79)۔ اسی طرح اللہ، الشوری:30 میں فرماتا ہے، (وماَ اَصَا بَکم مِن مصِیبَتہٍ فَبِمَا کسَبَت أَیدِ یکُم وَ یَعفُنو عَن کَثِیرٍ)، ترجمہ: اور تمہیں جو بھی مصیبت پہنچے تو وہ تمہارے اپنے اعمال کی وجہ سے ہے،(حالانکہ) اللہ بہت سے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔

حدیثوں میں ایسی کئی باتیں پائی جاتی ہیں جن کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمیں اپنی غلطیوں کا احساس ہوتا ہے اور علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ ترمذی کی ایک روایت کے مطابق، انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرمائے تو دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے، اور اگر کسی بندے کے ساتھ برا ارادہ فرمائے تو اسے گناہوں کی سزا دنیا میں نہیں دیتا، تاکہ قیامت کے روز اسے مکمل سزا ملے)۔اسی طرح ایک اور حدیث ترمذی سے روایت ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی علیہ وسلم نے فرمایا:(جتنی آزمائش کڑی ہوگی اجر بھی اتنا ہی عظیم ہوگا، اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو ان کی آزمائش فرماتا ہے، چنانچہ جو اللہ تعالیٰ کی آزمائش پر راضی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجاتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی آزمائش پر ناراضگی کا اظہار کرے اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضگی ہوتی ہے)۔

دسمبر 2020سے کورونا وائرس کی دوسری لہر سے برطانیہ کے لوگ جس طرح حیران و پریشان ہیں اس کی خبر پوری دنیا کو ہے۔ تیسرا لاک ڈاؤن جاری ہے اور لوگ مارے خوف اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ کورونا وائرس کی دوسری لہر نے برطانیہ کے کاروباری صورتِ حال کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے دکانوں میں تالے لگ گئے ہیں اور کھانے پینے کی چیزیں بمشکل فروخت ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ بڑی بڑی معروف دکانیں بھی ہمت ہار رہی ہیں اور آئے دن  کوئی معروف کمپنی  دیوالیہ  ہوجاتی ہے۔

 لوگوں کی مرنے کی تعداد اتنی تجاوز کر گئی ہے کہ اب موت کی شرح کو دیکھتے ہوئے روح کانپ جاتی ہے۔برطانیہ کے ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج کے لئے جگہ تنگ ہوچکی ہے۔ ڈاکٹر اے لے کر نرس اور ہسپتال کا ہر عملہ دن رات محنت کر کے کورونا کے مریضوں کی جان بچانے میں کوشاں ہیں۔اب تو عالم یہ ہے کہ کورونا کے مریضوں کے بیڈکو آپریشن تھیٹر اور بچوں کے کھیلنے کی جگہ پر لگا کر علاج کیا جارہا۔ کورونا مریضوں کی سانس کھینچتی تصاویر کو دیکھ کر ایک ’آہ‘ نکلتی ہے۔ فروری 2020سے برطانیہ میں کرونا سے مرنے والوں کی تعداد اب لگ بھگ 80000سے زیادہ ہوچکی ہے اور   ماہرین اور ڈاکٹروں کے مطابق ابھی کرونا سے مرنے والوں کی تعداد اور بڑھے گی۔

کورونا سے مرنے کا یہ حال ہے کہ کیا بتاؤں۔ہمارے ایک کرم فرما جن کا تعلق حیدر آباد (ہندوستان) سے تھا،تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان چلے گئے تھے۔ اور بہت کم عمری میں برطانیہ منتقل ہوگئے تھے۔ دسمبر کے شروع میں انہوں نے مجھے فون کیا اور کافی اصرار کیا کہ کہیں ڈنر کے لیے چلیں۔ ہم نے پہلے تو انہیں سمجھایا کہ حالات برے ہیں اور آپ کی عمر 70سے زیادہ ہے اس لیے احتیاط ضروری ہے۔انہوں نے مجھے نڈر ہو کر کہا کہ،’ارے بھائی آپ تو ہمارے دوستوں کی طرح ڈر گئے ہیں، آپ فلاں دن یعنی چند دن بعد تیار رہیں، ہم قریب ہی ایک پاکستانی ریسٹورنٹ ’لاہور اسپائس‘ پایا کھانے چلتے ہیں۔

 مرتا کیا نا کرتا۔ وعدے کے مطابق میں ان کے ہمراہ’پایا‘ کھانے چلا گیا اور دیر تک گپ شپ بھی کی۔ اس ملاقات کے تین ہفتے بعد صاحب کا وائس ریکارڈ میسج آیا کہ ’فہیم مجھے کورونا ہوگیا ہے اور میں ہسپتال میں ہوں‘۔ ریکارڈ سن کر ہوش اُڑ گئے۔یہ بات کرسمس کے دوران ہوئی تھی۔ کسی طرح بیٹے سے رابطہ ہوا تو پتہ چلا کہ صاحب کو اب انتہائی نگہداشت یونٹ میں رکھا گیا ہے اور اب وینٹی لیٹر پر ہیں۔ میری پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔ کورونا کی صورتِ حال بگڑتی جارہی تھی۔ کسی طرح پچھلے ہفتے جب بیٹے سے رابطہ ہوا تو میں صاحب کی طبعیت دریافت کی۔ بیٹے نے کہا کہ ڈاکٹروں نے کہا ہے ڈیڈ کی طبعیت کچھ سنبھلی ہے۔ اچانک میں نے بیٹے سے ’امی‘ کا حال پوچھا۔ بیٹے نے کہا،امی 26دسمبر کو کورونا سے انتقال کر گئی (اِنِّا للہ ِ وَ اِ نَّآ اِ لَیہِ رَاجِعُونَ)۔ یہ سن کر کلیجہ منہ کو آیا گیا۔بیٹے نے بتایا کہ امی کے موت سے قبل ڈاکٹروں نے دونوں کے بیڈکو ایک جگہ کر دیا تھا۔

قرآن، حدیث اور چند باتوں کی روشنی میں اگر ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو  تجزیہ اور زندگی کی عکاسی کرناکچھ حد تک آسان ہوسکتا ہے۔اس کے علاوہ ہمیں اس بات کا بھی اندازہ اور علم ہوتا ہے کہ آئے دن ہم جن مشکلات سے دوچار ہیں یا جس پریشانیوں سے گھرے ہیں، ان کا سبب کیا ہے اور اس سے کیسے نمٹنا ہے۔برطانیہ سمیت دنیا بھر میں کورونا کی مار سے جس طرح لوگ حیران و پریشان ہیں اس سے ہم سب مایوس تو ہیں لیکن  پرامید بھی ہیں۔ ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ اللہ ہمیں اس وبا سے جلد نجات دے۔آمین۔میں اپنے اس شعر سے بات ختم کرتا ہوں کہ:

زندگی  کا  یہ سفر  اتنا نہ  آساں  ہوتا

مشکلیں ساتھ نہ  ہوتیں تو پریشاں ہوتا

Leave a Reply