You are currently viewing ماہِ رمضان اور خود احتسابی

ماہِ رمضان اور خود احتسابی

پچھلے سال سے پوری دنیا کورونا وائرس کی وبا سے پریشانِ حال ہے اور سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ ہمیں کب اس وبا سے نجات ملے گی۔تاہم زیادہ تر مسلمان ماہِ رمضان کی آمد سے پر جوش ہیں۔  اس مہینے میں  ہم اپنی گناہوں کو معاف کرانے کے لیے دن رات اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں تو وہیں ہماری زندگی کو ایک بار پھر سجانے اور سنوارنے کا بہترین موقع بھی فراہم ہوتا ہے۔

 ہمیں اس بات کی بھی یاد دہانی کرانے کا بھی موقع مل جاتا ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ہدایات پر عمل کر کے ایک نیک انسان کی طرح زندگی گزاریں۔  تاہم اس رمضان میں بھی کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے دنیا بھر کے مسلمان اب بھی بحالتِ مجبوری اپنے گھروں میں قید ہیں اورکئی ممالک میں تراویح کی خاص عبادت مساجد میں جا کر ادا کرنے سے محروم رہیں گے۔جس سے کروڑوں مسلمانوں میں مایوسی ہے۔ لیکن برطانیہ میں کورونا سے کچھ حد تک نجات ملنے سے اس بار لوگ مساجد میں جا کر نماز ادا کر پائیں گے۔

ہم خوش نصیب ہیں کہ اس سال بھی ہمیں رمضان کا مبارک مہینہ نصیب ہوا ہے۔ رمضان کی آمد اور اس مہینے کی برکت سے ہم سب فیضاب ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمان اس مہینے میں روزہ رکھتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ عبادت کر کے اپنے آپ کو اللہ سے قریب ہونے کی عمدہ مثال پیش کرتے ہیں۔ تاہم بہت سارے ممالک میں پریشانِ حال مسلمان تن کو ڈھانکنے کے لئے کپڑے سے لے کر غذا تک  سے محروم رہتے ہیں۔ ان مسلمانوں کے ساتھ ملک کی بد حالی، خانہ جنگی،بے روزگاری اور غربت جیسی  وجوہات ہیں جس سے وہ  دوچار ہیں۔ تاہم ان کے لئے مختلف ممالک کے لوگ  زکوۃ کے ذریعہ امداد پہنچاتے ہیں۔ اس حوالے سے برطانیہ کے مسلمان بھی نمایاں رول ادا کرتے ہیں۔

لندن سمیت برطانیہ کے مختلف شہروں میں مقامی وقت کے مطابق روزہ  افطار  کیا جاتا ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے برطانیہ میں لاک ڈان کا سلسلہ فی الحال پورے طور پر ختم نہیں ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ اپنے گھروں میں قید روزے کا اہتما م کر رہے ہیں۔   زیادہ تر مساجد میں افطار کا انتظام کیا جاتا ہے جہاں لوگ جمع ہو کر اجتماعی افطاری کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ رات گیارہ بجے سے دیر رات تک نماز تراویح بھی پڑھی جاتی ہے۔الحمداللہ اس سال برطانیہ میں سوشل دوری کو برقرار رکھتے ہوئے نماز اور تراویح پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے۔

ہندوستانی اور پاکستانی آبادی والے علاقوں کی کئی دکانوں  پر افطاری کے لئے انواع و اقسام کے کھانے ملتے ہیں۔اس طرح  اُن لوگوں کو آسانی ہوجاتی ہے جن کا کوئی خاندان نہیں ہوتا اور جو بیرون ِ ممالک سے برطانیہ بطور طالب علم رہائش پزیرہیں۔تاہم ان لوگوں کو لاک ڈاؤن کی وجہ سے کافی  دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سار ی جگہوں پر مختلف اسلامی چیریٹی اُن بے گھر لوگوں کو بھی کھاناکھلاتی ہیں جو بحالتِ مجبوری  سڑک پر اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔

 ان تمام پریشانیوں کے باوجود ہم سب کہتے ہیں کہ’مرحبا اے ماہِ رمضان‘۔توآئیے آج رمضان کے مہینے میں خود کا جائزہ لیں اور اس بات کو محسوس کریں کہ کیا ہم رمضان کا مہینہ صرف بھوکے پیاسے رہ کر گزار دیتے ہیں یا اس سے ہمیں اللہ سے قربت کا احساس ہوتا ہے۔رمضان کی فضیلت کیاہے۔کیا ہمیں علم ہے کہ ہم نے جو عبادت کی اس کا مقصد کیا تھا۔کیا ہم نے کسی کوجانے انجانے میں تکلیف پہنچائی ہے۔ کیا ہم نے صرف بھوکے پیاسے رہ کر روزے مکمل کئے ہیں۔کیا ہم نے نیت کی ہے۔ ایسے کئی سوالات ہیں جنہیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے۔ تاہم مجموعی طور پر رمضان کی فضیلت اور عبادت سے زیادہ تر لوگ واقف ہیں اور وہ  عبادت اللہ کے حکم کے مطابق ہی کرتے ہیں۔

اگر روزے اور عبادت کی اہمیت کو سمجھے بغیر رمضان کا مہینہ گزارا جائے تو یہ ا یک محض رسم ہوگی اور ہم محض رمضان کو رسمی طور پر مناتے رہیں گے۔ رمضان کے متعلق حضرت محمد ﷺ نے ہمیں صبر، ہمدردی، اللہ سے قربت، دن اور رات کی عبادت،قرآن کی تلاوت اور اس کوسننے کی ہدایت دی ہے۔ اسی لئے حضرت محمد ﷺ نے رمضان کی عبادت اور اس بابرکت مہینے کی عبادت کے بدلے ڈھیروں نیکیاں کمانے کا  بہترین موقع بتایا ہے۔ حضور ﷺ نے یہ بھی کہا ہے کہ اس مہینے کی عبادت سے ہمیں اپنے گناہ کو معاف کروانے کا موقع ملتا ہے۔روزے ہم اللہ کو خوش رکھنے کے لئے اور حضرت محمد ﷺ کے نقشِ قدم پر چلنے کے لئے رکھتے ہیں۔عام طور پر روزے رکھنے سے ہمارے وزن میں گراوٹ آتی ہے لیکن ہمیں کبھی یہ سوچ کر یا نیت کر کے روزے نہیں رکھنے چاہئیں کہ ہمارا وزن روزے رکھنے سے کم ہو جائے گا۔ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہمارے ذہن میں ایسی بات نہ آئے اور دورانِ گفتگو روزے کے حوالے سے وزن کو کم کرنے کا ذکر ہم ہر گز نہ کریں۔

روزہ ایک روحانی ورزش ہے جو ہمیں اللہ سے قریب کرتی ہے۔ اکثر ہم غفلت میں افطار کے دوران کھانے  پینے کی چیزوں پر زیادہ دھیان دیتے ہیں۔تاہم ایسا ہونا ایک فطری عمل ہے کیونکہ دن بھر بھوکے رہنے کے بعد ہمیں اچھی غذا کی خواہش اور ضرورت ہوتی ہے۔ لہذاٰ ہم اپنا زیادہ وقت چیزوں کی خریداری میں صرف کر دیتے ہیں جس سے رمضان کی عبادت پر اثر پڑتا ہے۔ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ رمضان میں اپنی خواہشات اوربے جا خوشیوں کو بالائے طاق رکھ کر روزے کی اہمیت کو برقرار رکھیں۔ رمضان میں سحری کے وقت جاگنے سے ہمارے سونے کے اوقات میں تبدیلی آجاتی ہے۔ کیونکہ تراویح کا پڑھنا اور سحری میں جاگنے کی وجہ سے ہماری نیند میں کافی خلل پڑتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ روزے کے دوران  سونا پسند کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ہم رمضان کی عبادت کو کھو دیتے ہیں اور ہم اس مبارک مہینے کی برکت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ کچھ لوگ روزے کے دوران وقت  گزارنے کے لئے ٹی وی دیکھتے ہیں یا دیگر تفریحات کا سہارا لیتے ہیں جو کہ ایک غیر ضروری بات ہے۔حضرت محمد ﷺ نے کہا ہے کہ “اگر لوگوں کو رمضان کی اہمیت کا علم ہوجائے تو وہ پورے سال رمضان مہینے کی چاہت کریں گے”۔

ایمان والوں کے لئے دعا اور عبادت شیطان اور انا سے نمٹنے کاایک اہم ہتھیار ہے۔حضرت محمد ﷺ نے کہا ہے کہ” اللہ تین لوگوں کی دعاؤں کو کبھی مسترد نہیں کرے گا۔ پہلا والد کی دعا، دوسرا روزے دار کی دعا،اور تیسرا مسافر کی دعا”۔ہم رمضان میں اکثر اپنی ماں، بہنوں اور گھر میں کام و کاج کرنے والوں کو بھول جاتے ہیں جوہمارے لئے افطار تیار کرتی ہیں۔  ہمیں خیال رکھنا چاہئے کہ انہیں بھی عبادت کا موقع ملے اور وہ عبادت سے محروم نہ رہیں۔  اسلام  میں جھوٹ بولنے کے خلاف سخت الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔لہذاٰ رمضان میں ہمیں جھوٹی باتوں سے گریز کرنا چاہئے۔ لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہم روزے کی حالت میں جھوٹ بول کر اپنے آپ کو سُر خرو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ مثلاً چند غریبوں کو رمضان کی امداد دے کر اخبارات میں تصویروں کا شائع کروانا یا کاروبار کے لین دین میں جھوٹ کا سہارا لینے سے گریز کرنا چاہئے۔ حضرت محمد ﷺ نے کہا ہے کہ ” اللہ کو اس انسان کے بھوک و پیاس سے کوئی مطلب نہیں جو روزے کی حالت میں جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لیتا ہو”۔

رمضان میں تین ایسے سماجی طریقے ہیں جو رمضان کی اہمیت اور اس کی فضیلت کا احساس دلاتے ہیں۔ افطار کا اہتمام کرناایک اہم سماجی طریقہ ہے اورجس کا اہتمام خاص کر مساجد میں کرنا چاہئے۔لیکن اس بات کا دھیان رکھنا چاہئے کہ افطار پارٹی کے دوران اسٹیج کا سجانا یا بہترین کھانوں کا انتظام کرنا اسلام کی سادگی اور اعتدال پسندی کے خلاف ہے۔اعتکاف کے روحانی پسِ منظر میں مسجد میں رمضان کے آخری دس دن بیٹھنا ایک اہم عمل ہے۔  اسلامی مہینے کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات شب قدر کہلاتی ہے جو بہت ہی خیر و برکت والی رات ہے۔قرآن پاک میں اس رات کو ہزار مہینوں سے افضل بتایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ہے اور تم کیا جانو شب قدر کیا ہے شب قدر (فضیلت، و برکت اور اجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس (رات) میں فرشتے اور روح الا مین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔ یہ رات طلوع فجر تک سراسر سلامتی ہے۔” (سورۃالقدر)ہمیں اس رات کو خوب عبادت کرنی چاہئے اور اللہ سے اپنی گناہوں کی معافی مانگنی چاہئے۔

رمضان کے اس مبارک مہینے میں زیادہ تر مسلمان خوب عبادت کرتے ہیں اور اس مہینے میں ثواب  کماتے ہیں۔ لیکن آج کل کی بھاگتی زندگی میں ہم کہیں نہ کہیں گمراہ ہوجاتے ہیں اور ہم اپنا جائزہ لینا بھول جاتے ہیں۔ جب انسان اپنا امتحان خود لیتا ہے تو اسے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ اس کے اندر کیا خامیاں اور خوبیاں ہیں۔اسی طرح رمضان میں اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو ہمیں اپنی خوبیوں اورخامیوں کا پتہ چلے گا۔جس کی وجہ سے ہم ان غلطیوں کو دہرانے سے گریز کریں گے۔ اس طرح ہم ایک نیک اور صالح انسان بن کر اچھے مسلمان بن جا ئیں گے۔ اللہ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے اور ہمیں نیک انسان بننے کی توفیق عطا کرے۔آمین

Leave a Reply