ماں، ماٹی، مانش اور ممتا بنرجی

ممتا بنرجی کی کامیابی کی خبر اور ان کی پارٹی کی جیت کے جشن کو لندن میں بھی محسوس کیا گیا۔ ہندوستان کی چار ریاستوں میں لمبی مدت تک چلنے والے الیکشن کے بعد آخر کار اس کا نتیجہ جمعرات کو منظر عام پر آہی گیا اور توقعہ کے مطابق مغربی بنگال میں ایک بار پھر ممتا بنرجی کی ترنمول پارٹی نے یہ ثابت کردیا کہ مغربی بنگال کے لوگ اب بھی ترنمول کی حکومت کو قائم دیکھنا چاہتے ہیں۔

ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو ممتا اور ان کی ٹیم نے پچھلے کئی برسوں میں مغربی بنگال کے عوام کو مایوسی کی اس دلدل سے باہر نکالا ہے جس میں پچھلے کئی برسوں سے لوگ پھنسے ہوئے تھے۔ حالانکہ اب بھی مغربی بنگال میں اس حد تک ترقی نہیں ہوسکی ہے جس کی ریاستی حکومت کو امید ہے۔ جس کی کئی وجوہات ہیں اور جو ممتا بنرجی کے چاہنے کے باوجود مر کزی حکومت کے سوتیلے پن کے سلوک کی وجہ سے ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ممتا بنرجی نے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر اپنے فرائض کو بخوبی نبھا یا ہے جس سے زیادہ تر لوگ اتفاق بھی کرتے ہیں۔

مئی 2011 کے اسمبلی الیکشن میں پہلی بار ترنمول کانگریس نے کانگریس کے ساتھ مل کر دنیا کی سب سے لمبی حکومت کرنے والی کمیونسٹ پارٹی کو زبردست طریقے سے ہرایا تھا۔ اس کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ مغربی بنگال کے عوام کمیونسٹ حکومت کی دم گھٹتی فضا سے نجات چاہتے تھے۔ پورے صوبے میں ایک نئی امید کی کرن جاگ گئی اور لوگ ممتا بنرجی کے کام کی خوب ستائش کرنے لگے۔

میں نے 2011کے بعد تین دفعہ کلکتے کا دورہ کیا ہے اور تینوں بار  شہر کی سجاوٹ سے لے کر لا اینڈ آرڈر میں سدھار پایا ہے۔ لوگوں سے بات چیت سے یہ پتہ چلا کہ عام آدمی کی پریشانیاں پورے طور پر تو ختم نہیں ہوئی ہیں لیکن وہ پچھلی حکومت کے مقابلے میں ممتا حکومت کے کام  کاج کو سراہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اقلیتی طبقہ ممتا حکومت کی سرپرستی میں اپنے آپ کو کافی محفوظ محسوس کررہا ہے۔ لوگ بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔

تاہم پچھلے کچھ برسوں میں ممتا بنرجی کو بدنام کرنے کی کوششیں بھی کی گئی ہیں، جس میں مرکزی حکومت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ممتا بنرجی کو ہٹانے کے لئے بی جے پی کی حکومت کسی بھی ہتھکنڈے کو استعمال کرنے سے گریز نہیں کرے گی۔ چاہے وہ الزام ہو یا پروپیگنڈا لیکن ممتا بنرجی نے اپنی دلیرانہ اور منصفانہ سلوک سے ان تمام باتوں کا جواب دے کر بی جے پی کے ناپاک ارادوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
لیکن اب بھی بہت سارے لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا آنے والے دنوں میں ممتا بنرجی صوبہ کی حالت میں مزید بہتری کرینگی؟ کیا وہ اقلیتی طبقہ کے روزگار ، رہائش اور حفاظت پر مزید دھیان دینگی؟

ان سارے سولوں کا جواب ممتا بنرجی کی حکومت کو اپنی محنت اور عمدہ پالیسی کے ذریعہ دینا ہوگا اور اس کی واحد صورت یہ ہے کہ ممتا بنرجی کے وزراء کو ممتا بنرجی کی طرح اپنے اپنے حلقوں میں لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا ہوگا۔ تمام ایم ایل اے کو اپنی محنت اور ایمانداری سے اپنے کام کو انجام دینا ہوگا اور ممتا بنرجی کو نااہل وزراء کے خلاف کاروائی بھی کرنا ہوگی، جو کہ ایک طاقتور لیڈر کی پہچان ہوتی ہے۔ یوں تو کلکتہ کو جلوسوں کا شہر کہا جاتا ہے اور وہاں کے لوگوں میں سیاست کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ مغربی بنگال ہندوستان کا ایک ایسا صوبہ ہے جہاں کی سیاسی صورتِ حال ملک کی سیاست کے لئے اہم رول ادا کرتی ہے۔ لیکن پچھلی کمیونسٹ حکومت کی بد عنوانی اور مغرور انداز نے مغربی بنگال کی سیاسی اہمیت کو کم  کر دیا تھا۔

ممتا بنرجی نے پندرہ سال کی عمر سے ہی سیاست میں دلچسپی لینا شروع کر دیا تھا۔ ان کے سیاسی کئیریر کا آغاز جوگ مایا دیوی کالج سے ہوا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے کلکتہ یونیورسٹی سے اسلامک ہسٹری میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔  انہوں نے شری شکشایتن کالج سے ایجوکیشن اور پھر جوگیش چندرا چودھری لاء کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی تھی۔ انہیں کلنگا انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹرئیل ٹیکنالوجی سے عزت افزائی کے طور پر ڈی لٹ سے بھی نوازا گیا ہے۔

شروع میں وہ کمیونسٹ حکومت کے مضبوط قلعے کو گرانے میں مسلسل ناکام ہورہی تھیں۔ ان ہی دنوں ان پر ایک قاتلانہ حملہ بھی ہوا تھا۔  ممتا بنرجی ایک جلوس کی قیادت کررہی تھیں۔ حملہ میں وہ شدید زخمی ہوگئی تھیں۔ باد شاہ خان ایک مقامی کمیونسٹ لیڈر تھا۔ اس نے ممتا بنرجی کے سر پر  حملہ کیا تھا۔ اس کے بعد ممتا بنرجی نے اپنے حریفوں کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا اور تن تنہا کانگریس کی ابھرتی ہوئی لیڈر بن گئی تھیں۔ لیکن ممتا بنرجی کی سیاسی ترقی میں ایک ایسے شخص کا ہاتھ ہے جسے ہم بھلا نہیں سکتے ہیں۔ وہ کوئی اور نہیں سونیا گاندھی کے شوہر آنجہانی راجیو گاندھی تھے، جنہوں نے ممتا کی زبردست سیاسی سرگرمیوں اور قابلیت کو قبول کیا تھا اور انہیں اپنا قریبی ساتھی سمجھتے تھے۔

لیکن ممتا بنرجی میں لیڈر شپ کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے بہت سارے کانگریسی ان کی ترقی سے پریشان ہوگئے تھے۔  ممتا بنرجی کو اس بات سے کافی تکلیف پہنچی اور انہوں نے اسی ٹال مٹول اور نا انصافی کی سیاست سے تنگ آکر 1998میں اپنی  الگ پارٹی قائم کی جس کا نام ترنمول پارٹی رکھا اور اس کی چئیرپرسن بن گئیں۔ 2012 میں معروف میگیزین (Time)ٹائم نے ممتا بنرجی کو (100 Most influential People in the World)میں شامل کیا تھا۔ ستمبر 2012میں (Bloomberg Markets magazine)بلوم برگ مارکیٹ میگزین نے انہیں فنانس میں
(50 most influential people in the world of finance) میں شامل کیا تھا۔ مئی 2013میں ہندوستان کی سب سے ایماندار سیاستدان ہونے کا خطاب انہیں (India Against Corruption) نے دیا تھا۔

آج ممتا بنرجی ایک کامیاب لیڈر کی طرح ترنمول پارٹی کی قیادت کر رہی ہیں اور ان کی اسی قابلیت کے بنا پر مغربی بنگال کے لوگوں نے ان پر بھروسہ کر کے ایک بار پھر انہیں حکومت بنانے کا موقع دیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ آنے والے پانچ سالوں میں ممتا بنرجی اور ان کی ٹیم مغربی بنگال کے عوام کی دشواریوں کو کیسے دور کرے گی۔ وہ صوبے کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو کیسے برقرار رکھیں گی۔ مغربی بنگال کے وقار کو کیسے اونچا کرین گی۔ بد عنوانی اور رشوت کا کیسے خاتمہ کریں گی۔ کیا وہ کلکتہ کو لندن بنانے میں کامیاب ہوں گی۔ ان تمام سوالوں کا جواب ممتا بنرجی اپنی منصفانہ پالیسی اور ایمانداری کا بھر پور مظاہرہ کر کے دیں گی۔ وہ مغربی بنگال کو ایک بار پھر ایک اعلیٰ اور عمدہ صوبہ بنا کر دکھائیں گی۔ اسی امید  پر لوگوں نے انہیں ایک اور موقعہ دیا ہے۔

Leave a Reply