You are currently viewing لندن سے تاریخی شہر استنبول کا سفر (2)

لندن سے تاریخی شہر استنبول کا سفر (2)

ہوٹل میں داخل ہوتے ہی ریسیپشن ڈیسک پر ایک اسمارٹ ترکی آدمی نے ہمارا استقبال کیا اور  ہمارے سفر کا حال دریافت کیا۔ ہم نے اسے انگریزی زبان میں کہا کہ ’ترکش ائیر لائینز کافی اچھی ہے اور ہمیں سفر کے دوران کسی بھی بات کی کوئی تکلیف نہیں ہوئی‘۔ اس کے بعد ہوٹل کے ایک اسٹاف ممبر نے میرا سامان اٹھا کر لفٹ کے ذریعہ میرے کمرے میں پہنچا دیا۔ کمرہ کافی بڑا تھا اور کمرے میں میز اور کرسی بھی موجود تھی۔ جس سے مجھے کمرے میں بیٹھ کر لکھنے پڑھنے میں آسانی ہوئی۔

شام کے پانچ بج چکے تھے میں جلدی جلدی ہاتھ منہ دھو کر کمرے سے باہر نکلا۔ ریسیپشن پر کچھ مقامی علاقے کے بارے میں معلومات حاصل کی اورآیا ہوٹل سے باہر نکل کر مرکزی سڑک کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں کئی ریستوران دکھائی دیئے جس کے باہر کھڑے کارکن ریستوران میں کھانا کھانے کی دعوت دے رہے تھے۔ میں اپنے مخصوص انداز میں مسکراتا اور انگریزی میں ’نو تھینک یو‘ کہہ کر مرکزی سڑک کی طرف بڑھنے لگا۔ میں سلطان احمد مسجد کو دیکھنے کے لئے بیقرار تھا جسے ’بلوموسک‘ بھی کہتے ہیں ۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ سلطان احمد مسجد کا ذکر کرتے کرتے میں نے ’بلو موسک‘ کا ذکر کہاں سے لے آیا۔ دراصل انگریز قوم بھی عجیب چالاک قوم ہے۔ جب کسی چیز کو وہ اپنی مرضی سے بلانا چاہتے ہیں تو وہ اس کا نام ہی تبدیل کردیتے ہیں ۔ تاہم سلطان احمد مسجد کو بلو موسک کہنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مسجد کے اندرونی حصّے کے ٹائلس کو بلو رنگ کی ہیں۔  لیکن کہیں نہ کہیں مجھے اس بات کا کھٹکا ہوتا ہے کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انگریزوں کو شاید سلطنتِ عثمانیہ پسند نہ تھی ۔ ممکن ہے اس وجہ سے انہوں نے سلطان احمد مسجد کو ’بلو موسک‘ کہنا شروع کر دیا۔ تاہم ترک عوام سلطان احمد مسجد کو’بلو موسک‘ کہنا پسند نہیں کرتے ہیں۔

تھوڑی دیر بعد سامنے بھیڑ دکھنے لگی اور ساتھ ہی سلطان احمد ٹرام اسٹاپ بھی دکھائی دیا۔ سڑکیں سیاحوں سے کھچا کھچ بھری تھیں اور لوگ دیوانوں کی طرح کبھی کسی دکان کی طرف لپکتے تو کبھی ریستوران کی جانب جاتے تھے۔ میں بھی بھیڑ کو چیرتا ہوا سڑک کو پار کرکے سلطان احمد مسجد کی جانب چلنے لگا۔ میں ابھی بھیڑ میں بمشکل ہی گُم ہوا تھا کہ میری نظر آسمانوں سے چھوتی سلطان احمد مسجد کی میناروں پر پڑی۔ ایسا محسوس ہوا کہ سلطان احمد مسجد ہمارا استقبال کر رہی ہے۔ تیز قدمی سے میں مسجد کی جانب بڑھنے لگا۔ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے قدیم وضو خانے پر وضو کیا ۔ ٹھنڈے پانی سے تھوڑی دیر کے لئے میں سہم سا گیا لیکن مسجد میں جانے کی نیت نے ٹھنڈے پانی کی شدّت کو مات دے دیا۔ سلطان احمد مسجد کی خوبصورت اور پتھریلے زینوں کو طے کرتا  میں مسجد کے مرکزی دروازے پر پہنچا۔ سیکورٹی دروازے سے گزرنے کے بعد جوں ہی میں مسجد میں داخل ہوا منہ سے بر جستہ’ اللہ اکبر‘ نکل پڑا۔ نکلے بھی کیوں نہیں میرا قدم سلطنتِ عثمانیہ کہ اس عالیشان سلطان احمد مسجد میں تھا جہاں بارانِ رحمت ہو رہی تھی۔

سلطان احمد مسجد کی تعمیر 1609میں سلطان احمد اوّل کے دورِ حکومت میں ان کے حکم پر شروع  ہوئی تھی۔ اس کی تعمیر 1616 میں مکمل ہوئی تھی۔ مسجد کے معمار سیدِ فکار محمد آغا تھے۔ مسجد میں داخل ہو کر پہلے دو رکعت نفل پڑھی اور پھر مغرب کی نماز کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد مغرب کی نماز پڑھی اور مسجد سے باہر نکل آیا۔ یہاں ایک بات بتاتا چلوں کہ میں نے اس بات کو محسوس کیا کہ استنبول میں اگر دو مساجد قرب ہوتی ہیں تو ان کے اذان ایک ساتھ ہونے کے بجائے باری باری ہوتی ہے۔ مثلاً اگر ایک مسجد سے اللہ اکبر پکارا گیا تو قریب کی مسجد سے اس کے بعد اللہ اکبر پکارا جاتا ہے۔ جس سے ماحول میں اتحاد کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ میں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ استنبول کو مساجد کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یوں تو پورے ترکی میں 82,693 مساجد ہیں جبکہ صرف استنبول شہر میں 3,113 مساجد ہیں ۔ جن میں
د س  تاریخی اور معروف مسجدیں ہیں جنہیں دیکھنے کے لئے سیاّح ہر سال دنیا بھر سے آتے ہیں۔

سنیچر 19دسمبر کی صبح آٹھ بجے نیند سے فارغ ہو کر تیار ہوا۔ ہوٹل کے پانچویں منزل پر ترکی ناشتے سے ہوٹل کے مہمان لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ترک ناشتوں میں مختلف اقسام کی ترکی روٹیاں، مختلف پنیر، مختلف اقسام کے زیتون ، کئی اقسام کے انڈے اور پھل و سالاد سے ٹیبل سجے ہوئے تھے۔ میں نے جی بھر کے ترکی ناشتے کا مزہ لیا اور پھر لال ترکی چائے کی چسکی لینے کے بعد کمرے میں واپس لوٹ آیا۔ صبح گیارہ بجے سلطان احمد ٹرام اسٹاپ پر مینونو کی طرف جانے والی ٹرام کا انتظار کرنے لگا۔  تھوڑی دیر انتظار کے بعد میں استنبول کی خوبصورت ٹرام پر سوار ہو گیا۔ ٹرام مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔  میں ٹرام پر سوار استنبول شہر کا لطف لے رہا تھا کہ فوراً ہی ٹرام میں ایک خاتون کی آواز نے اعلان کیا کہ آئندہ اسٹیشن امینونوہے۔ میں امینونو اسٹیشن اتر کر راستے کو پار کیا اور اوسکودارجانے کے لئے پانی والے جہاز کا انتظار کرنے لگا۔

استنبول شہر دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک حصّہ یورپ میں واقع ہے اور دوسرا حصّہ ایشیا میں واقع ہے۔ ان دونوں حصّوں کے بیچ سمندر ’بوسفارس ‘ کہلاتا ہے۔ دراصل استنبول شہر ہی ترکی کو کو یورپ اور ایشیا سے ملاتا ہے۔ پانی والے جہاز استنبول ٹرانسپورٹ کا اہم حصّہ ہیں جو مسافروں کو  یورپ سے ایشیا لے جانے میں دن بھر مصروف رہتے ہیں۔ پانی جہاز پر سوار ہو کر ہم یوروپی استنبول سے ایشیائی استنبول کی طرف روانہ ہوگئے۔ دورانِ سفر ایک ترکی آرٹسٹ اپنی خوبصورت موسیقی سے مسافروں کو لطف اندوز کر رہا تھا اور ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ بوسفارس سمندر میں پانی کی لہریں بھی ترکی موسیقی کی سریلی آواز سے سے جھوم رہی ہوں۔  پانی کا جہاز جوں ہی اوسکودار پہنچا لوگ تیزی سے جہاز سے اتر کر ایشیائی استنبول کی طرف بھاگنے لگے۔ استنبول کا ایشیائی علاقہ اوسکودار کافی بھیڑ بھاڑوالاعلاقہ ہے جہاں ایک قدیم مارکیٹ بھی  ہے۔ جس میں مچھلیاں ، مسالے، ترکی روٹیاں، کپڑیں، زیورات اور دیگر چیزیں بکتی ہیں۔ تھوڑی دیر ہم مارکیٹ گھومتے رہے اور جب تکان محسوس ہوئی تو ایک کافی کی دکان پر براجمان ہوگئے ۔ ترکی ویٹر بڑی مشکل سے ہماری انگریزی زبان کو سمجھ پایا اور خواہش کے مطابق ہماری پسند کا کیک اور ترک چائے لا کر ہمارے سامنے رکھ دی۔

میں نے اس بات کو محسوس کیا کہ ترکی قوم اپنی زبان اور ثقافت کے معاملے میں دنیا کی دیگر قوموں کی طرح بڑے کٹّر ہے۔ جس کی مثا ل لال چاند تارے بنے ترکی جھنڈوں کا جگہ جگہ لہرانا اور لوگوں میں ترکی زبان کے علاوہ دوسری زبانوں سے ناواقف ہونا شامل ہے ۔ شام اپنی چادر بچھانے لگا تھا اور مساجد سے مغرب کی اذان گونجنے لگی تھی۔ ہم دن بھر کی بھاگ دوڑ سے تھکے ایک بار پھر ٹرام پر سوار ہو کر  ہوٹل کی جانب واپس جانے لگے۔ راستے بھر استنبول کی عالیشان عمارتوں کو حسرت و  فخریہ نگاہ سے دیکھتا اور میرے ذہن میں سلطنتِ عثمانیہ کے دورِ حکومت کی یاد تازہ ہو جاتی ۔
(جاری)

Leave a Reply