You are currently viewing فہیم اختر ۔۔۔۔ کولکاتا سے لندن تک

فہیم اختر ۔۔۔۔ کولکاتا سے لندن تک

1939سے 1945 تک، دنیا ایک خطرناک راستے کا مسافر تھی۔ کم و بیش ایک ارب جانوں اور کئی ارب کی مالی نقصان کا بار سماج کے کاندھوں پر آپڑا تھا۔

تاریخ کی کتابوں میں اس واقے کو دوسری عالمی جنگ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔  اس جنگ کے غم سے آزاد ہونے میں دنیاکو قریب قریب بیس سال لگ گئے تھے۔ یورپ کے سر سے جب جنگ کا خمار ٹوٹا تو ترقی کے نئے نئے منصوبوں پر غور و فکر ہونے لگا۔ 1955 میں پولینڈ کی دارلحکومت وارسا کے خوشگوار فضا میں ایک دوستانہ اجلاس  طلب کیا گیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کے سامنے ایک ایسا ضابطہ عمل تیار کر کے پیش کیا جائے جس سے اس دنیا کے سرکاری کام کاج میں مدد ملے اور آ ئیندہ ایسی کوئی سیاسی و سماجی صورت حال پیش نہ آجائے، جو بنی نوع انسان کو جنگ کے ہولناک   د ہانے پر لے جا کر کھڑا کر دے۔

وقت گزرتا رہا، برصغیر بھی اپنے افلاس و معاملات سے جوجھتا رہا۔ ساتھ ساتھ  1965 میں بھارت اور پاکستان نے بھی اپنے بازو آزمائے، جس کے سبب افلاس میں اضافہ ہونا ایک فطری عمل تھا، سو ہوا۔ مرتا کیا نہ کرتا۔  پورپ نے بھی اپنی گنجائیش میں اضافہ کیا اور ہمیں بھی کہیں نہ کہیں کا رخ تو کرنا ہی تھا۔ اس لئے  اسی کی دہائی میں، تلاش رزق کی خاطر، آہستہ آہستہ برصغیر کی گندمی بود و باش یورپ کی سفیدی میں شامل ہونا شروع ہوئی۔  یہ سلسلہ طویل سے طویل تر ہوتا گیا۔ اس طرح مشرقی اور مغربی ثقافت اور تہذیبوں کا اختلاط بھی ہوتا گیا۔  یورپ کے کئی شہر وں میں اردو کا بول بالا بڑھنے لگا۔ لندن اردو کی تیسری بڑی بستی تسلیم کرلی گئی۔ اردو کے کئی اہم ادیب کبھی عارضی تو کبھی مستقل طور پر پرطانیہ میں آباد ہو گئے۔ فیض احمد فیض، نظر محمد راشد (ن م راشد)، ساقی فاروقی، افتخار عارف، احمد فراز، ڈاکٹر ستیہ پال آنند، رضا علی عابدی، مقصود الہی شیخ، خالد یوسف، اکبر حیدر آبادی، عقیل دانش،  باسط کانپوری، رفعت شمیم، باصر سلطان کاظمی، ساحر شیوی، جتندر بلو، گلشن کھنہ، سوہن راہی، نجمہ عثمان، بانو ارشد، ماہ جبیں غزل انصاری، فرخندہ رضوی،  امجد مرزا، ڈاکٹر عبدالغفار عزم، مظفر احمد مظفر، پرویز مظفر اور فرزانہ فرحت، احسان شاہد چودھری، کے علاوہ کئی انگریز ادیب بھی اردو ادب کے سنہرے منظر نامے پر وارد ہوئے۔ جن میں رالف رسل اور ڈیوڈ میتھوز کے نامے نامی بہت ہی مشہور و مقبول ہیں۔

مذکورہ بالا سطور میں میں نے ذکر کیا ہے کہ برطانیہ میں ادیبوں کی ایک کہکشاں  آباد ہے، اور تھی۔ ستاروں کے اسی جھرمٹ میں ایک نام فہیم اختر کا بھی ہے۔ فہیم بہت اچھے نثر نگار، افسانہ نگار، اور کالم نویس ہیں۔ عالمی سیمیناروں اور ادبی معاملات میں برطانیہ کی نمایندگی کرتے رہتے ہیں۔ برطانیہ میں اردو ادب کی تاریخ کے حوالے سے مورخ جب احوال رقم کرےگا تو ٖفہیم اختر نامی ستارے کی شعاعیں بھی اس کا حصہ ہوں گی۔  فہیم اختر کے اجداد کا تعلق صوبہ بہار کے ضلع سیوان کے دیہی علاقے سے ہے لیکن فہیم اختر کی پیدائش 11 جنوری 1966 کو مغربی بنگال کے دارالحکومت مستیوں کے شہر کلکتہ میں ہوئی تھی۔   ابتدائی تعلیم ہی کے دوران بد قسمتی سے اُن کے والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا تھا اور گھر کے معاشی حالات قدرے ناساز گار ہو گئے تھے۔ تاہم انہوں نے کلکتہ یونیورسٹی سے اُردو میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد 1993 میں لندن کا رخ کیا اور انگلستان پہنچ گئے۔  وہاں پہنچنے کے بعد لندن سے سوشل ورک میں ڈپلوما حاصل کیا۔ پھر وہیں انہوں نے شادی کرلی اور لندن میں مستقل طور سے آباد ہو گئے۔ یوں یہ تعلیمی مرحلہ بھی طے پایا اور سکونت بھی ملی ۔

لندن تھیمس ندی کے ساحل پر آباد ہ ہے تو کولکاتا ہگلی ندی کے ساحل پر۔ بھارت میں جب تک برطانیہ کی حکومت رہی، ایسٹ انڈیا کمپنی کا رئیسی دفتر کو لکاتا میں رہا۔ یوں یہ شہر غیرا علانیہ طور پر قریب قریب ایک صدی تک بھارت کی راجدھانی بھی رہا۔ جب آزادی کی تحریک بیدار ہوئی  تو بنگال اس کا بھی اہم مرکز بنا رہا۔ 1977 میں جب بنگال میں صوبائی انتخاب ہوا، اس میں بھارتی کمیونسٹ پارٹی کو عوام نے پسند کیا، پھر انجہانی جوتی بسو بنگال کے وزیر اعلی منتخب ہوئے، اس کے بعد بھارت میں کمیونسٹ سیاست کا اہم مرکز بھی بنگال ہی بنا۔ کئی زاویے اور حوالوں سے 1990 تک صنعت، تجارت، ادب، بنگلہ ثقافت، بنگالی فلم، فنون لطیفہ، موسیقی وغیرہ کا بھی اہم مرکز کولکاتہ ہی تھا۔  اس طرح یہ شہر ہر وقت کسی نہ کسی بہانے سرخیوں میں رہا۔  ان سارے معاملات کے اثرات اب بھی کولکا تا شہر میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔

کولکاتا شہر کے لوگوں کے مزاج میں احتجاج کی خو  خوب رچی بسی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فہیم اختر کی افسانوی تخلیقات سے معاشرے کی نا انصافیوں کے خلاف احتجاجی جذبے کا تاثر ملتا ہے۔ فہیم اختر اپنی اوائل زندگی میں اپنے معاشرے کے جبرواستبداد سے دو چار رہے اور اپنی پڑھائی کے دوران شہر کے سماج سدھار اداروں اور مارکسی کمیونسٹ تحریک سے وابستہ رہے۔ طلبہ جمات کی سیاست میں بھی سرگرم رہے اور جنرل سکریٹری بھی منتخب ہوئے۔ ان تجرباتِ زندگی نے اُن کی تخلیقی صلاحیتوں کے لئے مہمیز کا کام کیا۔ اس طرح اُن کی افسانوی تخلیق کا آغاز ہوا۔ آل انڈیا ریڈیو سے اُن کے رشحات قلم براڈ کاسٹ ہوئے۔ مقامی رسائل و اخبارات میں اُن کی کہانیاں شائع ہوئیں۔ مغربی ماحول کی فکروتعلیم کی آزاد فضا اُن کی تخلیقی اقدار کی نشونما میں ممدو معاون ثابت ہوئی۔ لیکن اُن کی تحریر میں مشرقی فکروتہذیب کا  تاثر ہمیشہ کار فرما رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی تخلیقی نگارشات میں سماجی ناانصافیوں کے خلاف احتجاجی جذبے کی زیریں لہر وں کو با آسانی دریافت کیا جا سکتا ہے۔ فہیم اختر آج اپنی محنت اور مطالعے کے سبب افسانہ نگار کی حیثیت سے معروف ہیں۔ اُن کے افسانے اکثر ہندوپاک کے مختلف جرائد و رسائل میں شائع ہوتے ہیں۔ حال ہی میں ہندوپاک کے ایک ممتاز ادبی رسالے میں اُن کا ادبی تعارف شائع ہوا ہے۔ جس میں اُنہوں نے بڑی فراخ دلی سے جتیندر بلّو، مقصود الہی شیخ، فاروق حیدر، باسط کانپوری، ڈاکٹر جمال سوری، ڈاکٹر شکیل احمد خان اور رفعت شمیم جیسی جید ادیبوں کا حوالہ دیا ہے۔  ان ہی حضرات نے ان کی افسانوی کاوشوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔  اپنی افسانوی تخلیقات سے متعلق فہیم اختر کا اپنا ذاتی تجزیہ قابل ذکر ہے:

مجھے فخر ہے کہ میری کہانیوں کو سماج کی پسماندہ مزدور پیشہ غریب عوام سراہتے ہیں۔  میری تحریروں سے اُن کو اپنی زندگی کے حقائق کا سراغ ملتا ہے‘۔  کتّے کی موت، دیو داسی، رکشہ والا، وندے ماترم، ایک گریزاں لمحہ، خواب کا ایک انجانا رشتہ، پیاسی ندیاں، رشتوں کا درد، بیوٹی پارلر، لال کرُسی، کالی پتلون اور نادان، اُن کے یہ تحریر کردہ افسانے ادب میں اپنی ایک حیثیت کا تقاضا کرتے ہیں۔ اُن کا اولین افسانوی مجموعہ ’ایک گریزاں لمحہ‘ سن  2014 میں شائع ہو ا تھا۔  2015 میں  فہیم اختر سے جب میری ملاقات اسٹنبول یونیورسٹی (ترکی) کے ایک سیمینار میں ہوئی تھی اس موقعے پر یہ افسانوی مجموعہ بطور تحفہ دیا تھا۔ شہرہ آفاق ادیب و ناقد  شمس الرحمٰن فاروقی نے فہیم اختر کے افسانے کے متعلق لکھا ہے کہ ’غیر مقیم ہندوستانی ادیبوں کی طرح فہیم اختر نے صرف غیر مقیم ہندوستانیوں کے مسائل کو اپنا موضوع نہیں بنایا ہے۔ وہ انسانی زندگی کے مسائل کو براہ ِ راست بھی برت سکتے ہیں بعض جگہ جذبات غالب آجاتے ہیں (مثلاً’دیو داسی‘) تو بعض جگہ انسانی پہلو زیادہ نمایاں ہوجاتا ہے‘۔

فہیم اختر نفیس طبیعت کے مالک ہیں، گفتگو سے تعلیمی لیاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔  دیر رات تک مطالعہ میں گم رہتے ہیں،  ہر ہفتہ ایک کالم لکھنے کے لئے بھی دنیا بھر کے معاملات اور واقعات پر نگاہ رکھنی پڑتی ہے۔ یہ ان کا شوق بھی ہے اور ان کی مجبوری بھی۔ فہیم اختر نے 2013 سے کالم لکھنا شروع کیا۔ “لندن کی ڈائیری” کے عنوان سے یہ کالم بیک وقت کو لکاتا کے روزنامہ اخبارِ مشرق، نا روے کی ویب سائٹ کارواں اور لاہور کے روزنامہ دُنیا، دہلی کی ویب سائٹ صدا ٹوڈے کے علاوہ اور بھی کئی اخبارات و ویب سایٹ میں ہر ہفتے شائع ہورہے ہیں۔ انہی کالموں کو ایک جا کر کے کو لکاتا کے ادیب محترم ڈاکٹرشکیل احمد خان نے 2018 میں “لندن کی ڈایری”  کے نام سے ایک ضخیم کتاب شائع کیا ہے۔ کتاب کا پیش لفظ جواہر لال یونیورسٹی، دہلی کے فاضل  پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے تحریر کیا ہے۔

مجھے کبھی لندن میں قیام کا اتفاق نہیں ہوا، سچ پوچھئے تو ہگلی ندی کے ساحل کا مشاہدہ بھی میں نے اس طرح نہیں کیا ہے جس طرح ایک  کلکتیہ بنگالی کر سکتا ہے۔ اس لئے فہیم اختر کی تحریر سے ان کے مجاز اور تھیمس اور ہگلی کے ساحل کی فضا کا اندازہ لگا نے کی کوشش کرتا ہوں۔ آپ کچھ دیر اور میرے ساتھ رہیئے:۔  “لندن کی ایک سہانی شام، ٹاور برج کے سامنے دریائے تھیمس کی لہروں پر شفق کے عکس نے ماضی کے دریچوں کو کرید دیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ کل کی بات ہے جب تین دہائی قبل ہگلی ندی کی لہروں میں اسی طرح کا عکس دیکھنے کے لئے میں اکثر وہاں پر موجود رہتا تھا اور آج تمام مناظر پھر سے ترو تازہ ہو گئے۔ کلکتہ کی یاد ستانے لگی۔ کلکتہ کو  لندن کی طرح دیکھنے کے ارمان دریائے تھیمس کی لہروں کی طرح مچلنے لگے۔ کاش میں بھی کچھ تعاون کر سکوں۔ فوراً  یہ خیال آیا کہ شہرصرف کنکریٹ اور فلک بوس عمارتوں کا ہی مجموعہ نہیں بلکہ ان عمارتوں کے مکینوں کی تہذیب و تمدن، روایت و ثقافت کے عنصر سے شہر معطر ریتا ہے۔  اسی خیا ل نے مجھے ” لندن کی ڈائیری ” لکھنے پر مجبور کیا ” (لندن کی ڈائیری)

لندن آج سے سو سال قبل ہی برقی قمقموں کی روشنی میں نہایا ہوا شہر تھا۔ اس شہر سے متعلق بے شمار قصے سینہ بہ سینہ اور ورق بہ ورق زندہ ہیں۔ یہ بہت ممکن تھا کہ ایک تار کین وطن اس شہر کی رنگینیوں میں اس طرح کھو جائے جیسے ساحر لدھیانوی نے زلفوں میں چھپ کے جینے کی بات کی تھی۔ لیکن فہیم اختر جیسے حساس اور ذہیں شخص کو یہ گوارا نہ تھا۔ انہوں نے اپنی ثقافت کی آبیاری کو ترجیح دی۔ وہ اپنی قابلیت کی بدولت اچھے عہدے پر فائز بھی ہیں۔ فہیم اختر آج لندن اور کولکاتا کے کئی فلاحی اداروں سے بھی وابستہ ہیں، جہاں سے ضرورت مند اور نادار بچوں کی تعلیم کے لئے خطیر رقوم سے امداد بھی کی جاتی ہیں۔ جبکہ لائق طلبہ کو انعام و اکرام سے بھی نوازا جاتا ہے۔ صوفی جمیل اختر لٹرری سوسائٹی (کولکاتا) کے زیر اہتمام ہر سال صوفی جمیل اختر میموریل ایوارڈ کا سلسلہ بھی پچھلے کئی سالوں سے جاری ہے۔  یہ ایوارڈ معروف ناقد شمس الرحمان فاروقی، شہرہ آفاق شاعر و ناظم مشاعرہ پروفیسر ملک زادہ منظور احمد، قابل احترام مزاح نگار مجتبی حسین، مشہور صحافی عزیز برنی، قابل احترام صحافی احمد سعید ملیح آبادی، جواہر لال یونیورسیٹی (دہلی) کے پروفیسر خواجہ محمد اکرام،  ا لاظہر یونیواسیٹی (مصر) کے صدر شعبہ اردو پروفیسر یوسف عامر، استنبول  یونیوسٹی (ترکی) کے صدر شعبہ اردو پروفیسر خلیل طو ق آر، اخبار مشرق کے مینیجگ اڈیٹر وسیم الحق، کو پیش کیا گیا ہے۔ میں  دعا گو ہوں کی اللہ رب العزت بھائی فہیم اختر کو صحت کی سلامتی اور قلم میں روانی اور حرارت دے۔

تحریر : افروز عالم

Leave a Reply