You are currently viewing فن، آرٹ اور ثقافت کا شہر ویانااور آسٹریا کی تاریخ

فن، آرٹ اور ثقافت کا شہر ویانااور آسٹریا کی تاریخ

سنتے ہیں کہ زندگی ایک سفر ہے لیکن مجھے سفر میں ثقافت، تاریخ، زبان اور لوگوں سے مل کر اتنا لطف آتا ہے کہ میں کہتا ہوں سفر میں بھی ایک زندگی ہے۔جس سے ہمیں اس ملک کے بار ے میں نئی معلومات سے آگاہی ہوتی ہے۔اس کے علاوہ اس بات کا ابھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس ملک میں لوگوں کی خوشحالی اور بد حالی کی وجوہات کیا ہیں۔

پچھلے تین برس سے ہم یورپ کا دورہ نہیں کر پائے تھے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ ہم پلان تو بنا رہے تھے لیکن کبھی کام کی مصروفیت تو کبھی زندگی کے پیچ و خم میں الجھنے سے ہم پلان بنا کر بھی نہ جا پارہے تھے۔ اس کے علاوہ پچھلے دو برس سے کورونا کے پھیلنے سے دنیا بھر میں لاک ڈاؤن وغیرہ سے کسی کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی کہ سفر کا پلان بنایا جائے۔ اس پر ہوائی سفر کی بندش اور ویکسن اور فیس ماسک کا لازمی ہونا بھی لوگوں کے لیے عذاب بناہوا تھا۔خیر ہم نے بھی کورونا سے ہوئی نرمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آسٹریا کی راجدھانی ویانا جانے کی ٹھان لی۔24فروری کی صبح چھ بجے گھر سے نکلا تو لندن اب بھی لحاف میں دبک کر سو رہا تھا۔ ویسے بھی یک بعد دیگر تین طوفانوں سے لندن اور برطانیہ کے لوگوں میں کافی مایوسی تھی۔ جس سے لاکھوں پونڈ کا نقصان ہوا اور انشورنس کمپنی پر لاکھوں پونڈ کا بل کا بوجھ آپڑا۔

میں لندن کی سنسان سڑک پر گاڑی دوڑائے چلا جا رہا تھا۔ راستے بھر مقامی ایشین ریڈیو اسٹیشن لائیکا پر ہندوستانی گیت سن رہا تھا جس نے رم جھم بارش کی آواز کو کچھ ھد تک مات کیا ہو اتھا۔لندن کی سردی اپنے شباب پر تھی اور میں نے کوٹ، سوئیٹر پہن رکھا تھا۔ تاہم مجھے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ویانا میں کافی سردی ملے گی۔ جس کی وجہ سے میں نے موٹے کوٹ کوتن پر ڈال رکھا تھا۔لگ بھگ چالیس منٹ ڈرائیو کے بعد ہم ہیتھرو کے پرپل پارکنگ پہنچ گئے، جہاں ہم نے چار روز کے لیے گاڑی پارک کر دی۔گاڑی پارک کرنے کے بعد پاس ہی کھڑی پرپل بس مسافروں کو پیتھرو ائیر پورٹ لے جانے کے لیے انتظار کر رہی تھی۔ ہم بھی بس پر سوار ہو کر کچھ ہی پل میں ہیتھرو کے ٹرمنل ٹو پہنچ گئے۔طوفان تو جاچکا تھا لیکن تیز ہوا کا زور اب تک برقرار تھا جس سے ٹھنڈ کا بے حد احساس ہو رہا تھا۔

ٹکٹ آن لائن جب چیک گیا تو ٹکٹ پر ایک پیغام لکھا آیا کہ ’اسٹنڈنگ آرڈر‘۔ پڑھ کر بڑی حیرانی ہوئی۔ جب ہم نے ٹکٹ خریدی تو سب کچھ ٹھیک تھا پھر ٹکٹ ’اسٹینڈنگ آرڈڑ‘ کیسے ہوگیا۔ خیر جب ہم ہیتھرو پہنچے تو کاؤنٹر پر بیٹھے ایک نوجوان نے ہماری ٹکٹ کو چیک کر کے کہا کہ ٹکٹ پرنٹ ہونے میں غلطی ہوگئی تھی ویسے آپ کا ٹکٹ کنفرم ہے۔یہ سن کر جان میں جان آئی۔آسٹرین ائیر کا جہاز مسافروں کے استقبال کے لیے تیار کھڑا تھا۔ جہاز میں جیسے ہی داخل ہوئے، ایک خوبصورت لال یونیفورم میں ملبوس ائیر ہوسٹیس نے مسکراتے ہوئے ایف ایف پی بی 4ماسک پہننے کی گزارش کی۔ دراصل آسٹریا میں اب بھی ایف ایف پی بی  ماسک پہننا لازمی ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں آئے دن حکومت کے خلاف احتجاج ہورہے ہیں۔خیر ہم نے بھی سفید ماسک منہ پر لگالیا جس سے سانس لینے میں کچھ دشواری بھی ہورہی تھی۔ ابھی ہم ماسک پہن کر جہاز میں پڑے میگزین کو الٹ پلٹ ہی کر رہے تھے کہ پائلٹ نے اعلان کیا کہ جہاز کچھ ہی پل میں ویانا پہنچنے والا ہے۔

ویانا آسٹریا کا دارلحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے اور طویل عرصے سے وسطی یورپ میں ثقافتی ترقی کے بڑے مراکز میں سے ایک رہا ہے۔ ویانا میں موسیقی کی تنظیم 1812ء سے شہر میں موسیقی کی ترقی کو فروغ دے رہی ہیں۔ ویانا بوائز کئر کی تاریخ اور بھی لمبی ہے، جو

1498سے شروع ہوئی، اس کے علاوہ دیانا فلہار مونک آرکسٹرا بھی کافی مشہور ہے۔ ویانا میں موسیقی کے بڑے مقامات میں اسٹیٹ اوپیرا ہاؤس، پیپلز اوپیرا ہاؤس، برگ تھیٹر اور تھیٹر این ڈیر وین کافی مشہور ہیں۔

آسٹریا وسطی یورپ میں تقریباً 8.95ملین باشندوں کا ایک خشکی سے گھرا ملک ہے۔ اس کی سرحدیں شمال میں جمہوریہ چیک اور جرمنی، مشرق میں سلواکیہ اور ہنگری، جنوب میں سلووینیااور اٹلی اور مغرب میں سوئٹزر لینڈ اور لیختنسٹین سے ملتی ہیں۔ آسٹریا کے لوگ جرمن زبان بولتے ہیں جو ملک کی سرکاری زبان بھی ہے۔آسٹریا 1955سے اقوام متحدہ کا رکن ہے اور 1995میں یورپین یونین میں شامل ہوا۔

آسٹریا کی ابتدا رومن سلطنت کے زمانے سے ہوئی جب تقریباً پندرہ قبل مسیح میں ایک سیلٹک سلطنت کو رومیوں نے فتح کیااور بعد ازاں پہلی صدی عیسوی کے وسط میں ایک رومی صوبہ نور یکم بن گیا۔ 788 میں فرینک کے بادشاہ شارلمین نے اس علاقے کو فتح کیا ور عیسائیت کو متعارف کرایا۔ مقامی ہیبسبرگ خاندان کے کے تحت، آسٹریا یورپ کی عظیم طاقتوں میں سے ایک بن گیا۔1867ء میں آسٹریا کی سلطنت کو آسٹریا ہنگری میں تبدیل کر دیا گیا۔

آسٹریا ہنگری کی سلطنت 1918میں پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے کے ساتھ منہدم ہوگئی۔ 1919میں پہلی آسٹریا جمہوریہ قائم ہوئی۔ 1938 میں آسٹریا پر نازی جرمنی نے قبضہ کر لیا جو 1945 میں دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے تک جاری رہا۔ جس کے بعد آسٹریا پر اتحادیوں کا قبضہ ہوگیا اور اس کا سابق جمہوری آئین بحال ہوگیا۔ 1955 میں آسٹریا کے ریاستی معاہدے نے آسٹریا کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر دوبارہ قائم کیا۔

گویا ویانا شہر گھمانے سے پہلے میں نے سوچا کہ پہلے آسٹریا کا تاریخی پس منظر بتا دوں تاکہ اس سے لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہوگا۔ان شاء اللہ ویانا کا سفر جاری رہے گا اور اگلے قسط میں میں آپ کو ویانا کی سیر کراؤں گا۔

Leave a Reply