You are currently viewing صحافت کے اصول اوردنیا کے سب سے پہلے اخبارکی نیلامی

صحافت کے اصول اوردنیا کے سب سے پہلے اخبارکی نیلامی

بیس سال قبل میری ملاقات معروف شاعر باسط کانپوری سے لندن میں ہوئی تھی۔ باسط صاحب کو میری گفتگو اتنی پسند آنے لگی کہ ہفتے میں ایک بار وہ مجھے فون ضرور کرتے اور گھنٹوں مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا کرتے۔

 ایک دن باسط صاحب نے مجھ سے کہا  کہ فہیم، تمہاری گفتگو میں سیاست، سماجی، مذہبی باتوں پر تجزیہ بہت دلچسپ ہوتا ہے، تم اسے لکھا کرو۔ میں نے بھی باسط صاحب کی باتوں پر عمل کرنا شروع کیا اور آج عام لوگوں کی پسند سے میں بھی ایک کالم نویس بن گیا۔جس کے لیے میں اپنے قارئین کا شکر گزار ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اچھی صحافت کے لیے چند اصول اہم ہیں۔ سچا اور درست: حقائق کو درست کرنا صحافت کا بنیادی اصول ہے۔تمام متعلقہ حقائق کو جمع کرنے کے لیے سخت محنت کریں اور یہ یقینی بنائیں کہ ان کی جانچ پڑتال کی گئی ہے۔  صحافیوں کو آزاد  ہونا چاہئے۔ ایسے موضوعات سے پرہیز کریں جن میں آپ کی دلچسپی کا تصادم ہو۔ سیاسی، کاروباری یا دیگر کارپوریٹ اداروں کی جانب سے کبھی بھی کام نہ کریں۔ غیر جانبدار اور منصفانہ  رہیں۔ زیادہ تر کہانیوں کے کم از کم دورخ ہوتے ہیں۔ آپ کی تحریر متوازن اور سیاق و سباق کے مطابق ہونی چاہئے۔  غیر جانبدارانہ رپورٹنگ اعتماد پیدا کرتی ہے۔ صحافیوں کو کبھی بھی جان بوجھ کر اپنے قارئین کو جسمانی یا جذباتی نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔ آپ جو شائع یا نشر کرتے ہیں وہ تکلیف دہ ہوسکتا ہے۔ لہذٰا صحافیوں کو اس بات سے آگاہ ہونا چاہیے کہ ان کے الفاظ اور تصاویر کا دوسروں کی زندگیوں پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔

جوابدہی: جب آپ غلطیاں کرتے ہیں  تو آپ کو انہیں درست کرنا چاہئے اور معافی مانگنا چاہئے۔ آپ کا اظہار افسوس مخلصانہ ہونا چاہئے، گھٹیا نہیں۔ آپ کے سامعین کیا کہہ رہے اسے سنیں اور تاثرات کی حوصلہ افزائی کریں۔ اپنے کام پر فخر کریں اور تمام کریڈٹ اور تنقید کو یکساں طور پر قبول کرنے کے لیے تیار رہیں۔

آئیے آج ہم دنیا کے انگریزی  صحافت کی تاریخ پر مختصر روشنی ڈالتے ہیں اور پہلے انگریزی اخبار کی نیلامی کی بات کرتے ہیں۔ میں نے آج بھی برطانیہ میں  محسوس کیا ہے کہ انگریزی اخبار برسوں سے اپنا معیار بنائے رکھے ہیں اور لوگوں کا یقین بھی انگریزی صحافت پر اب تک قائم ہیں۔شاید اس کی ایک وجہ صحافت کے وہ اہم اصول ہیں جن کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔7 نومبر  1665کو دنیا کا پہلا اخبار انگریزی زبان میں شائع ہواتھا۔ یہ برطانوی حکومت کا سرکاری جرنل تھا جس میں بعض قانونی دستاویز شامل تھے جسے اس وقت حکومت کو شائع کرنے کی ضرورت پڑی تھی۔ بادشاہ چارلس دوئم اور شاہی کورٹ کو لندن کے طاعون کے خوف سے، اپنی سلطنت کو لندن سے آکسفورڈ منتقل کرنا پڑا تھا اور درباری اس بیماری کے خوف سے اخبار کو چھونے کو تیار نہیں تھے جس کی وجہ سے بادشاہ اخبار خود ہی وصول کرتے تھے۔

اس زمانے میں اخبار پوسٹ کے ذریعہ آیا کرتا تھا۔جب طاعون کا خاتمہ ہوا اور حالات بہتر ہونے لگے تو  بادشاہ کو لندن واپس آنا پڑا اور اپنے ساتھ  گزٹ کو بھی لانا پڑا جس کا پہلا شمارہ  لندن گزٹ کے نام سے 5 فروری 1666 کو شائع ہوا تھا۔ستروہی صدی میں یہ مانا جارہاتھا کہ اس گزٹ کی قومی کارگردگی جو کہ شاہی خبروں پر منحصر تھی اور اس کی لاپراوہ خبروں سے اس کا مزید شائع ہونا خطرے میں پڑ سکتا تھا۔اس وقت خبروں پر پابندی عائد ہونے کے با وجود بیرون ممالک کے واقعات، قدرتی آفت،شاہی خبروں کے علاوہ سنسنی خیز جرم کی خبریں شائع ہونے کا سلسلہ گزٹ میں 1640 جاری رہا۔ اس پابندی کا اثر پریس کی ترقی پر کافی پڑاتھااورپھر  1643میں سنسر شپ کو لاگو کر نے سے اخبار کی مقبولیت کافی کم ہوگئی تھی۔اسی زمانے میں پہلی بار خبروں کے اشاعت کے لئے لائسنس کے استعمال کو بھی عمل میں لایاگیاتھا۔

لندن گزٹ برطانیہ میں غیر ممالک خبروں کا ایک لاجواب ذریعہ تھا۔ اس وقت برطانوی سفارت خانے میں کام کرنے والے غیر ملکی نامہ نگاروں کے طور پریہ کام انجام دے رہے تھے۔ اس اخبار میں واٹر لو کے جنگ میں ویلنگٹن کی جیت کی پہلی خبر  شائع کی گئی تھی۔  دنیا کے اس پہلے اخبار کی ایک نایاب کاپی جو کہ برطانیہ میں 350 سال پہلے شائع ہوئی تھی اسے نیلام کیا گیا۔یہ اخبار جو کے دو صفات پر مشتمل تھا اور جس کے پہلے شمارے میں فوج کی نقل و حرکت، پارلیمنٹ کی بحث اور بیرون ممالک کی خبریں شائع ہوتی تھیں۔

اس نایاب  گزٹ کی نیلامی کی بازیافت لگ بھگ 15000  پونڈ  ہوئی۔ برطانیہ میں اب کئی مشہور اخبارات شائع ہورہے ہیں جن میں خاص کر ٹیلی گراف، فنانشل ٹائمز، گارڈین، آبزرور اور دی ٹائز شامل ہیں۔ ان میں سے بیشتر اخبارات کی اشاعت انیسویں صدی میں شروع ہوئی۔ ان میں مقامی خبروں کے علاوہ سیر و تفریح، سنیما، ڈرامے اور نوکری کے اشتہار بھی ہوتے ہیں۔ اس کے رپورٹر کونسل کے کام و کاج پر نظر رکھتے ہیں اور کونسل کی کارگردگی پر تعریف اور تنقید کرتے رہتے ہیں۔

میرا ماننا ہے کہ صحافت چاہے کسی زبان میں ہو اس میں اگر اصول قائم ہیں تو وہ صحافت زندہ و جاوید ہے۔ ا س پر نہ کوئی آنچ آسکتی ہے اور نہ اس پر کوئی انگلی اٹھا سکتا ہے۔ تاہم آج کل صحافت کو کاروباریوں اور سیاسی رہنماؤں نے کوڑیوں کے مول خرید لیا ہے جس سے ہر عام و خاص کے دل میں ایک شک پیدا ہوگیا ہے۔ جس سے صحافت کہیں نہ کہیں کٹہرے میں کھڑی نظر آرہی ہے۔ مجھے امید ہے کہ اب بھی بہت سارے صحافی صحافت کے اصول پر قائم رہ کر دنیا بھر میں عمدگی سے اپنے فرائض نبھاتے رہیں گے۔

Leave a Reply