You are currently viewing ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ

ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ

سننا ایک ایسا فن اور آرٹ ہے جس کے لئے ایک خاص ٹریننگ دی جاتی ہے جسے انگریزی میں کاؤنسلِنگ کہتے ہیں۔ اگر تھوڑی دیر کے لئے آپ اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں تو آپ کو ایک بات کا احساس ہوگا کہ زیادہ تر انسان اس بات سے مایوس ہیں کہ انہیں سننے والا کوئی نہیں ہے۔

 تاہم کچھ لوگ اس کے برعکس بولنے کے لئے اتنے بے چین اور اتاولے رہتے ہیں کہ وہ اپنے سامنے کسی اور کی سننا ہی نہیں چاہتے ہیں۔ گویا بولنا اور سننا دونوں ہی اپنی جگہ پر اہم ہے۔ لیکن جب انسان تنہائی یا الگ تھلگ زندگی یا  کسی  نفسیاتی مرض کا شکار ہوجاتا ہے کہ اس انسان کی بات جارحانہ اور ایک طرفہ ہوجاتی ہے۔ میرا اپنا تجربہ اس سلسلے سے بہت حد تک یہی ہے جو ہمیں سوشل ورکر ڈگری پڑھتے ہوئے تھا۔ بطور رجسٹرڈ  سوشل ورکر ہماری ٹریننگ میں ایک خاص مضمون کاؤنسلِنگ پر تھا جس میں مجھے سننے کی ٹریننگ کے دوران مختلف موضوعات اور مثالوں کے ساتھ اس بات کا علم ہوا کہ انسان جب بہت زیادہ اپنی زندگی سے بیز ار یا تنہا ہوتا ہے تو اس کے اندر ایسی عادت پنپنے لگتی ہے۔ پھر وہ اسے اپنا فن یا مجبوری سمجھنے لگتا ہے۔

حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان سے بھی پوری دنیا میں ہنگامہ  مچا ہوا ہے۔ ویسے میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ان لوگوں میں سے مانتا ہوں جس کے منہ کھولنے سے ہی آدمی کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ تاہم بہت سارے لوگ ڈونلڈ ٹرمپ کی باتوں سے محظوظ بھی ہوتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کس سوچ و فکر کے حامی ہیں۔ اگر آپ ایک ایسے نظریہ کو مانتے ہیں جو انسانی حقوق، مساوات، نسل، مذہب اور دیگر ایسی باتیں ہیں تو پھر آپ کو ٹرمپ یا کسی اور لیڈر کی باتوں کا برا نہیں لگے گا۔ لیکن اگر آپ نسلی بھید بھاؤ، مذہبی بنیاد، زبان، نسل، فرقے یا ملک وغیرہ کے خلاف نظریے کو غلط مانتے ہیں تو ٹرمپ سمیت وہ لیڈران جو زہر اگلنے میں ذرا بھی نہیں جھجکتے تو آپ ان کے خلاف اپنا غصّہ ضرور دکھائیں گے۔

حال ہی میں امریکی صدر نے عادت کے مطابق اپنا زہریلا منہ کھولتے ہوئے یہ بیان دیا کہ ’انہیں واپس بھیج دو‘۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ آج کل دنیا کے زیادہ لیڈروں کے پاس صلاحیت کا فقدان ہوتا ہے۔ جس کے لئے وہ اپنے پریس سیکریٹری کے ذریعے ٹوئٹ کرواتے رہتے ہیں۔ دراصل ان لیڈران کو کبھی کبھی یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ ان کے ذریعے کیا بات ٹوئٹ کی گئی ہے۔اسی لئے جب پریس رپورٹر ان سے سوال پوچھتے ہیں تو ان کا جواب ہمارے اور آپ کے سر کے اوپر سے گزر جاتا ہے۔ اور جب معاملہ ہاتھ سے باہر ہوجاتا ہے تو بیچارے اسی پریس سیکریٹری کو استعفیٰ دینا پڑتا ہے۔

دراصل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کاا شارہ امریکی کانگریس کی چار ارکان کی طرف تھا  جن میں  ڈیموکریٹ پارٹی کی  مِس عمر  بھی شامل تھیں۔ مِس عمر سومالیا سے تعلق رکھتی ہیں اور سومالیا کی خانہ جنگی سے متاثر ہوکر اپنے خاندان کے ہمراہ امریکہ میں پناہ گزین ہو گئی تھی۔حال ہی میں ڈیموکریٹ پارٹی نے مِس عمر کو سینیٹر بنایا ہے۔ تبھی سے مِس عمر کبھی امریکی صدر تو کبھی صیہونی تو کبھی  سفید فام پسند  نشانہ بنا رہے ہیں۔ جس سے اس بات کو سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی  کہ  مس عمر صرف مسلم خاتون ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کے نشانے پر ہیں۔

حیرانی تو تب ہوئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آنے والے الیکشن کی ایک ریلی میں اپنے مخصوص انداز میں تقریر کر رہے تھے کہ ان کے حمایتی بار بار نعرہ لگا رہے تھے کہ ’اسے واپس بھیجو‘۔ یہ الیکشن ریلی امریکہ کے شمالی کیرولینا میں ہو رہی تھی۔ جو کہ  سفید فام انتہا پسندوں کا ایک خاص علاقہ مانا جاتا ہے۔

میں نے بھی اس الیکشن ریلی کے ویڈیو کو دیکھا تھا۔ جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر کے دوران ریلی میں موجود لوگ بار بار نعرہ لگا رہے تھے  کہ ’اسے واپس بھیجو‘ تو ڈونلڈ ٹرمپ راکشش کی طرح مسکرا رہا تھا اور ریلی میں موجود لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی تھی۔جو کہ ایک نہایت افسوس ناک بات تھی۔ اس کے بعد ڈیموکریٹ اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ری پبلیکن پارٹی کے زیادہ تر سینیٹر نے سخت مذمت کی ہے۔اس کے علاوہ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی بات کی کھل کر مذمت کی ہے۔

 لیکن ان تمام باتوں کے  باوجود ن لوگوں کو حوصلہ مل رہا ہے جو نسل، ذات، مذہب اور انسانی حقوق کے خلاف ہیں۔ کیونکہ ایسے لوگوں کے نظریے کو بڑھاوا مل رہا ہے۔ جس سے دنیا کی صورتِ حال پر برا اثر پڑ رہا ہے۔تاہم آئے دن اس نظرے کی سخت مذمت ہو رہی ہے اور امن پسند  لوگ  سڑکوں پر نکل  کر فاسشٹ طاقتوں کی کھل کر مذمت کر رہے ہیں۔ ہفتہ کو لندن میں بھی ایک بڑی ریلی نکالی گئی جہاں انسانی حقوق کے حامیوں نے یکجا  ہو کر ڈونلڈ ٹرمپ کی باتوں کی  پر زور مذمت کی۔ سوشل میڈیا پر بھی لوگ ڈونلڈ ٹرمپ کی باتوں کو نسلی بھید بھاؤ کی بات بتا کر مذمت کر رہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے زہر اگلنے اور الیکشن ریلی میں ’اسے واپس بھیجو‘ کے نعرے بازی کے بعدحسبِ معمول ڈونلڈ ٹرمپ اپنے بیان سے مکر گئے ہیں۔ اب وہ کہہ رہے کہ ’الیکشن ریلی میں جو نعرے بازی ہوئی اس سے میں خوش نہیں اور نہ ہی اتفاق کرتا‘۔امریکی صدر کو اس نعرے بازی سے برا بھی لگا اور وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ اتنی جلد بازی میں ہوا کہ انہیں اس کا علم نہیں ہو سکا۔ڈونلڈ ٹرمپ کی بات سن کر مجھے یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ امریکی صدر ایسی باتیں ہوش حواس میں کہتے ہیں یا ان پر نشہ طاری رہتا ہے۔

امریکی صدر کے جارحانہ بیان کے بعد ڈیموکریٹ پارٹی کے ان چار  ارکان کانگرس نے ایک ساتھ پریس کانفرنس کر کے اپنی یکجہتی اور امریکہ کے مساوات، رواداری اور تمام مذہب اور نسل کے لوگوں کی حمایت میں بیان دیا۔  یہ  چاروں خواتین  ارکان  چار مختلف ممالک سے تعلق رکھتی ہیں اور ان میں ایک کی پیدائش امریکہ سے باہر ہوئی ہے۔مِس عمر نے کہا کہ’چونکہ امریکی صدر ملک کو چلانے میں ناکام ہو رہے ہیں اس لئے انہوں نے ذات، نسل اور مذہب جیسی باتوں کا سہارا لے کر لوگوں کا ذہن اصل مدعا سے ہٹا رہے ہیں۔ بعد میں مِس عمر نے اپنے ٹوئیٹ کے ذریعے معروف شاعرہ مایا انجیلیو کی نظم سے ایک لائن کو اپنی بات میں شامل کرتے ہوئے بتا یا کہ ’میں اب بھی ابھر رہی ہوں۔ اس کے بعد ایک تصویر کے ساتھ ٹوئٹ کیا اور کہا کہ ’میں وہی ہوں جہاں میں ہوں‘۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹ سے جہاں دنیا کی سلامتی اور بھائی چارگی کو زبردست نقصان پہنچا رہے ہیں وہیں وہ دنیا کو مذہب، نسل، ذات اور بھید بھاؤ میں بانٹ رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر بننے سے قبل اسلام دشمنی کا کئی ثبوت پیش کیا تھا۔ممکن ہے اس کی ایک وجہ ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی صدر بننا ہو۔ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے چاہے جس نظریے سے اپنی جیت حاصل کی ہے وہ اب صاف ایک ایسی جانب بڑھتا جا رہا ہے جس سے دنیا کی امن اور سلامتی کا خاتمہ ہونا لازمی لگ رہا ہے۔

پھر بھی ہم امن پسند لوگ اور انسانی حقوق کے حامی، ڈونلڈ ٹرمپ کے نظریے اور باتوں کو سختی سے اپنے احتجاج اور امن پسندی سے کچل کر رکھ دیں گے۔ چاہے اس کے لئے ہمیں احتجاج کرنے کے لئے سڑک پر بھی کیوں نہ آنا پڑے۔ میں دنیا کے تمام امن پسند لوگوں سے پر زور اپیل کرتا ہوں کہ وہ امریکی صدر کے نظریے کے خلاف آواز کو بلند کریں۔ بچائیں۔ میں مجروح سلطان پوری کے اس شعر سے اپنی بات ختم کرتا ہوں:

ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ

جہاں تلک  یہ ستم  کی سیاہ  رات  چلے

Leave a Reply