You are currently viewing رِچمنڈ پارک کی سیراور گپ شپ

رِچمنڈ پارک کی سیراور گپ شپ

برطانیہ میں ہریالی اور پارک کا عام نظارہ آپ کو ہر طرف دکھے گا اور اگرآپ لندن میں رہائش پزیر ہیں تو لگ بھگ ہر علاقے میں چھوٹے بڑے ہزاروں پارک آپ کو دِکھائی دیں گے۔ لندن میں بیس ایسے معروف پارک ہیں جو اپنی خوبصورتی اور رقبے کی وجہ سے کافی مشہور ہیں۔

 ان میں ہائیڈ پارک، سینٹ جیمسیس پارک، کینزینگٹن گارڈنس، رِچمنڈ پارک،ہالینڈ پارک، ہیمسٹیڈ ہیتھ، وکٹوریہ پارک، کوئین الیزیبیتھ اولمپک پارک،ہیمپٹن کورٹ گارڈن، کلیپھم کومن،کریسٹل پیلس پارک،  ریجنٹس پارک، گرینچ پارک،کینوڈ ہاؤس گارڈن، ڈلیچ پارک،کیو گارڈن، لندن فیلڈس،گرین پارک، پینس ہل پارک، اور بیٹر سی پارک نامور اور اہم پارک مانے جاتے ہیں۔جسے دیکھنے اور سیر کرنے کے لیے دنیا بھر کے سیاح  آتے ہیں۔ پچھلے کئی مہینے سے ہر اتوار صبح نو سے گیارہ بجے تک لندن کے معروف رِچمنڈ پارک میں صحت کا خیال رکھتے ہوئے میں نے چہل قدمی شروع کی ہے۔ میری اس چہل قدمی میں میرے ساتھ میرے پڑوسی غلام دودھی اور پرکاش پٹیل بھی ہوتے ہیں۔ جن کے ساتھ ہر ہفتے  سیاست سے لے کر سماجی اور اخلاقیات اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کرتے ہیں اور اس طرح ہماری اتوار کی چہل قدمی گپ شپ اور پارک کے ٹی اسٹال پر چائے پی کر اختتام کو پہنچتی ہے۔

رِچمنڈ پارک لندن کا سب سے بڑا رائل پارک ہے جس کا رقبہ 2500ایکڑ پر محیط ہے۔رِچمنڈ پارک کی اونچائیوں سے آپ لندن کا معروف سینٹ پال کیتھیڈرل کا نظارہ بھی کر سکتے ہیں، جو پارک سے بارہ میل دور ہے۔رِچمنڈ پارک کے چاروں طرف انسانی آبادی ہوتے ہوئے بھی پارک صدیوں میں بہت کم تبدیل ہو ا یا اثر انداز ہواہے۔ پارک کی انتظامیہ اور لوکل کونسل کی مشترکہ کوشش سے پارک کا انتظام اور خیال اتنی عمدگی سے رکھا جاتا ہے کہ پارک صدیوں سے جوں کہ توں اپنی اصلی حالت میں اب بھی قائم و دائم ہے۔رِچمنڈ پارک اپنی کئی خوبیوں سے دیگر پارکوں سے منفرد ہے۔ جیسے چھوٹے چھوٹے پہاڑی نما علاقے، جنگلی باغات اور قدیم درختوں کے درمیان ہرے بھرے گھاس کے مختلف نظارے جو کہ انسانی زندگی اور ماحولیاتی شوقین کے حامیوں میں خوشی کی لہر دوڑا دیتا ہے۔اس کے علاوہ ہزاروں ہرن اور بارہ سنگھوں کی موجودگی سے بھی پارک کا نظارہ دلچسپ ہوتا ہے جس سے نوجوانوں، ضعیفوں اور بچوں میں پارک آنے کی دلچسپی دوچند ہوجاتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ رِچمنڈ پارک کا شاہی رشتہ کئی سو سال پرانا ہے۔ شاید  (1272-1307) میں برطانوی بادشاہ ایڈورڈ کے دور میں یا اس سے قبل رِچمنڈ پارک کو ’مینرآف شین‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔لیکن بادشاہ ہینری دی ایٹ کے دور میں مینر آف شین کا نام بدل کر رِچمنڈ پارک رکھا گیا۔ تب سے اسے اب تک رِچمنڈ پارک ہی سے لوگ جانتے ہیں۔ایک اور دلچسپ بات رِچمنڈ پارک کے حوالے سے یہ مشہور ہے کہ 1625 میں بادشاہ چارلس فرسٹ لندن کے طاعون سے بچنے کے لیے انہوں نے اپنا دربار رِچمنڈ پارک منتقل کر دیاتھا۔ اور پارک کو ہرن کے پارک میں تبدیل کر دیاتھا۔اسی لیے آج بھی پورے پارک میں جگہ جگہ ہرن گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہر سال اکتوبر اور نومبرکے مہینے میں ہرنوں کی آبادی کو معقول رکھنے کے لیے کئی ہرنوں کو جان سے مار دیا جاتا ہے۔

 1637 میں بادشاہ چارلس فرسٹ نے پارک کی زمین پر پابندی عائد کر دی جو کہ مقامی باشندوں میں مقبول نہیں تھا۔ لیکن انہوں نے پیدل چلنے والوں کو  اجازت دے دی تھی۔بادشاہ چارلس فرسٹ نے ان ہی دنوں پارک میں دیواروں کی تعمیر کروائی جو آج بھی دکھائی دیتی ہیں۔ 1847میں رِچمنڈ پارک میں قائم پیمبرک لاج اُس وقت کے وزیر اعظم لارڈ جان رسل کا گھر ہوا کر تا تھا جس میں بعد میں ان کے پوتے برٹرینڈ رسل کا بچپن بھی گزرا تھا۔ یہ اب ایک مشہور ریستوراں ہے جہاں سے تھیمس ویلی کا شاندار نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ پیمبروک لاج ریستوراں میں ہم نے کئی بار مختلف انگریزی کھانوں کا لطف اٹھایا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں لوگ شادیوں کی تقریب کے لیے بھی ہال کرایے پر لیتے ہیں۔

دوسری جنگِ عظیم کے بعد رِچمنڈ پارک میں ایزابیلا پلانٹیشن کا پروجیکٹ بھی قائم کیا گیا ہے جو کافی مشہور ہے۔ جہاں حیرت انگیز وائیلڈ لینڈ باغ ہے جو موجودہ جنگل سے تیار کیا گیا ہے۔ یہ بھر پور پودوں اور حیوانات کا نتیجہ ہے۔ رِچمنڈ پارک کو خصوصی طور پر سائنسی دلچسپی کی جگہ اور قومی نیچر ریزو کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ جو کہ ایک قابلِ ستائش بات ہے۔ پارک میں چہل قدمی کے دوران ہم نے پرکاش اور غلام سے گفتگو کا آغاز برطانوی سیاست اور اخلاقی قدروں سے شروع کیاکیونکہ برطانیہ کی ہوم سیکریٹری پریتی پٹیل ان دنوں سرخیوں میں ہیں۔ ویسے پریتی پٹیل کب تنازعہ میں نہیں رہی ہیں۔ پچھلی حکومت میں انہیں اس لیے برخاست کیا گیا تھاکیونکہ انہوں نے بطور انٹرنیشنل ڈیپلومنٹ سیکریٹری اسرائیل میں اپنی ذاتی ہالی ڈے کے موقعہ پر اسرائیلی حکومت کے افسران کو برطانیہ کی خفیہ دستیاویزات  فراہم کی تھیں۔ جس کی وجہ سے انہیں حکومت سے برخاست کر دیا گیا تھا۔

معاملہ یوں ہے کہ داخلہ سیکریٹری پریتی پٹیل پچھلے کچھ مہینے سے اپنے دفتر کے اعلیٰ افسران کو ڈانٹنے اور دھونس زمانے کے خلاف شکایت سے پریشان تھیں۔ جس کے لیے وزیراعظم بورس جونسن نے مارچ میں حکومت کی طرف سے ایک آزاد افسر کو انکوائری کا حکم دیا۔پچھلے ہفتے رپورٹ میں پریتی پٹیل پر الزام لگایا کہ انہوں نے اپنے افسران کو سخت باتیں کہیں اور ان کی عزت اور احترام کا خیال نہیں رکھا۔ جس کے بعد پریتی پٹیل نے معافی تو مانگ لی لیکن اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا۔ وزیراعظم بورس جونسن نے بھی پریتی پٹیل کی حمایت میں کہا کہ یہ معاملہ اتنا سنگین نہیں کہ اس کے لیے پریتی پٹیل کو استعفیٰ  نہ دے۔ جس کے فوراً بعد حکومت کے آزاد افسر جنہوں نے اس معاملے کی جانچ کی تھی انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ جس کے بعد خبروں میں اس معاملے کو لے کر اب تک بحث چھڑی ہوئی ہے۔

رِچمنڈ پارک کی سیر کے ساتھ ہم نے پریتی پٹیل کا ذکر کر کے اس بات کو محسوس کیا کہ سیاست براہ راست یا بالواسطہ طور پر ہماری زندگی پر حاوی رہتی ہے۔جس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ سیاست کے اتار چڑھاؤ سے ہم سب کہیں نہ کہیں متاثر ہیں۔ پریتی پٹیل استعفیٰ دے یا نہ دیں، اس سے ہماری زندگی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑنے والاہے۔ تاہم لوگوں کو اس بات کی فکر ہے کہ اگر پریتی پٹیل نے زیادتی کی ہے جسے اخلاقی طور پر غلط سمجھا جا رہا ہے۔تو پھر اس بنیاد پر انہیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کیس میں اخلاق اہم ہے یا عہدہ۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

Leave a Reply