You are currently viewing !روس یوکرین جنگ کا کوئی حل نہیں

!روس یوکرین جنگ کا کوئی حل نہیں

روس اور یوکرین کے جنگ کو ایک سال بیت چکا ہے اور اب تک اس مسئلے کا کوئی حل نطر نہیں آرہا ہے۔ تاہم اتنا ضرور ہوا ہے کہ روس کے خلاف امریکہ اور برطانیہ اپنے مقاصد میں ضرور کامیاب ہوگئے ہیں۔

امن کی تجویز پیش کرنے کی بجائے امریکہ اور برطانیہ نے لگاتار روس کے صدر کو نشانہ بناتے ہوئے صورتِ حال کو اور نازک بنا دیا ہے۔ حملے کے آغاز کے چند ہی ہفتوں میں روسی فوجیں یوکرین کے بڑے علاقوں پر قابض ہوگئیں۔ روس نے کیف کے مضافاقی علاقوں کی طرف پیش قدمی کی تھی اور سومی کے ارد گرد ملک کے شمال مشرق کے زیادہ تر حصے کو کنٹرول کر لیا تھا۔ روس نے کھارکیو پر بمباری کیا اور انہوں نے مشرقی اور جنوب میں کھیرسن تک، مایوپول کے بندرگاہی شہر کے آس پاس کا علاقہ لے لیا تھا۔

تاہم پچھلے اکتوبر تک تصویر ڈرامائی طور پر بدل چکی تھی۔ کیف پر قبضہ کرنے میں ناکام ہونے کے بعد روس شمال سے پیچھے ہٹ گیا اور یوکرین نے اپنی پہلی بڑی کامیابی حاصل کی۔ روس کو خارکیف سے پیچھے دھکیل دیا اور خرسن کے اردگرد جوابی حملہ کیا۔ حملے کے ایک سال بعد یوکرین کا کھیرسن کا کنٹرول ہے اور لڑائی مشرق میں مرکوز ہے۔

برطانیہ اور امریکہ جمہوریت کو بچانے کی آڑ میں پوری دنیا کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔ اور گاہے بگاہے روس کو دھمکی بھی دے رہے ہیں۔ لیکن وہیں روس کے صدر صبر و تحمل سے یوکرین پر فتح کی امید جتائے بیٹھے ہیں۔ ویسے امریکہ اور برطانیہ نیٹو کے سہارے یوکرین میں روس کے خلاف اپنی طاقت کا بھر پور مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جس کا روس کو بھی علم ہے۔ روس نے بھی مختلف ذرائع سے کہہ دیا کہ برطانیہ اپنی حرکتوں سے باز آجائے ورنہ روس لندن کو چند منٹوں میں مٹی کا ڈھیر بنا دے گا۔

روس کے حملے کی برسی کے موقع پریوکرین کے صدر زیلنسکی نے کہا ہے کہ یوکرین اس سال روس کو شکست دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔ بوچا سمیت پورے یوکرین میں تقریبات ہورہی ہیں۔ جہاں روسی افواج پر انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام لگایا گیا تھا۔ یہ تنازعہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں بد ترین صورت اختیار کر گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے جمعرات کو  ایک قرار داد منظور کی جس میں روس کی مذمت کی گئی۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس قرار داد کی ووٹنگ میں ہندوستان غائب رہا۔ برطانوی وزیراعظم رشی سونک کی قیادت میں برطانیہ بھر میں گیارہ بجے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔

امریکہ اور برطانیہ بار بار اس بات کو دہرا رہے کہ روس کے مخالف جنگ کرکے کچھ حاصل نہیں ہے۔ اس کے برعکس امریکہ اور اس کے اتحادی فی الحال اقتصادی پابندیاں لگانے پر زور دے رہے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد کس بھلے مانس کے دل و دماغ میں یہ بات آئے گی کہ چلو ایک بار پھر جنگ میں کود ا جائے۔ جیسا کہ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں ہوا تھا۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پہلی جنگِ عظیم، 1914 میں آسٹریا کے آرچ ڈیوک فرانز فرڈینینڈ کے قتل کے بعد شرع ہوئی۔ اس کے قتل نے پورے یورپ میں ایک جنگ کی شکل اختیار کرلی جو 1918 تک جاری رہی۔ اس تنازعہ کے دوران جرمنی، آسٹریا، ہنگری، بلغاریہ اور سلطنتِ عثمانیہ (مرکزی طاقتیں) نے برطانیہ، فرانس، روس، اٹلی، رومانیہ، جاپان متحد ہ کے خلاف جنگ کی۔ نئی فوجی ٹیکنالوجی اور خندق جنگ کی ہولناکیوں کی بدولت، پہلی جنگ عظیم نے قتل و غارت اور تباہی دیکھی۔ جب جنگ ختم ہوئی اور اتحادی طاقتوں نے فتح کا دعویٰ کیا تب تک 16ملین سے زیادہ لوگ جس میں فوجی اور عام شہری شامل تھے، ہلاک ہوچکے تھے۔

پہلی جنگِ عظیم (1914-18) کے ذریعہ یورپ میں پیدا ہونے والے عدم استحکام نے ایک اور بین الاقوامی تنازعہ کھڑا کر دیا اور دو دہائیوں بعد دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوا جو پہلی جنگِ عظیم سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہوئی۔ اقتصادی اور سیاسی طور پر غیر مستحکم جرمنی میں اقتدار میں آنے کے بعد نازی پارٹی کے رہنما ایڈولف ہٹلر نے قوم کو دوبارہ مسلح کیا اور عالمی تسلط کے اپنے عزائم کو آگے بڑھانے کے لیے اٹلی اور جاپان کے ساتھ حکمت عملی معاہدوں پر دستخط کیے۔ ستمبر 1939میں پولینڈ پر ہٹلر کے حملے نے برطانیہ اور فرانس کو جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کرنے پر مجبور کیا۔ جس سے دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوا۔ چھ سال چلنے والی اس جنگ میں ایک اندازے کے مطابق 45 سے 60 ملین افراد ہلاک ہوئے جن میں 6 ملین یہودیوں کو نازی حراستی کیمپوں میں ہٹلر کی فوج نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جسے اب بھی ہر سال ہولوکوسٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

یوکرین اور روس کے مابین تناؤ پچھلے آٹھ برسوں سے چل رہا ہے۔ ہوائی، زمینی اور سمندری راستے سے روس نے یوکرین پر تباہ کن حملہ کیا ہے جو کہ 44 ملین افراد کی یورپی جمہوریت ہے۔ اس کی افواج شہر کے مراکز پر بمباری کر رہی ہیں اور دارالحکومت کیف میں دھیرے دھیرے داخل ہورہی ہیں۔ جس سے مہاجرین کے بڑے پیمانے پر اخراج ہورہا ہے۔ کئی مہینوں تک صدر ولادیمیر پوتن نے انکار کیا کہ وہ اپنے پڑوسی پر حملہ کریں گے۔ لیکن پھر انہوں نے امن معاہدہ توڑ دیا اور یوکرین کے شمال، مشرق اور جنوب میں فوجیں ڈالتے ہوئے، جسے جرمنی ’پوتن کی جنگ کہتا ہے‘، شروع کر دیا۔ 24 فروری کو صبح سے پہلے ایک ٹی وی خطاب میں صدر پوتن نے اعلان کیا کہ روس ’محفوظ، ترقی اور وجود‘ محسوس نہیں کرسکتا کیونکہ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ جدید یوکرین سے مستقل خطرہ ہے۔ تاہم 24 فروری سے ہفتوں پہلے امریکہ روز یہی رٹ لگایا ہوا تھا کہ روس بہت جلد یوکرین پر حملہ کر دے گا۔

روسی صدر پوتن کا کہنا ہے کہ یوکرین کو غیر عسکری اور نازیوں سے آزاد کرنا ہے۔ ظاہر سی بات ہے پوتن نے یہ بات اس لیے کہی کیونکہ یوکرین کا صدر ایک یہودی ہے۔ پوتن اکثر یوکرین پر انتہا پسندوں کے قبضے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ جب سے روس نواز صدر وکٹر یانوکووچ کو 2014میں ان کی حکمرانی کے خلاف مہینوں کے مظاہروں کے بعد معزول کیا گیا تھا۔ کریملن نے کہا ہے کہ ولادیمیر پوتن نے برطانیہ کے خارجہ سکریٹری لِز ٹرس اور دیگر کے تبصروں کے بعد روس کی نیوکلیرقوتوں کو ہائی الرٹ پر رکھا ہے۔ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ یوکرین پر روس کے حملے پر نیٹو اور ماسکو کے سرمیان ممکنہ ’جھڑپوں‘ کے بارے میں ’ناقابل قبول‘ ریمارکس دیے گئے ہیں۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی جو کہ ایک مزاحیہ اداکار رہے ہیں اور جنہیں تین سال سے بھی کم عرصہ قبل منتخب ہونے پر سیاست کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ روسی صدر پوتن اس بات سے برہم ہیں کہ یوکرین کے نئے یہودی صدر کا جھکاؤ یورپ اور امریکہ کی طرف دن بدن بڑھتا جا رہا تھا۔ کیونکہ آئے دن یوکرین صدر زیلنسکی کبھی یوکرین کو نیٹو میں، تو کبھی یوروپین یونین میں شامل کرنے کی مانگ کرتا۔ جس کی وجہ سے پوتن کو یوکرین کے صدر پر شک گزرنے لگا کہ کہیں نہ کہیں یوکرینی صدر زیلنسکی امریکہ یا یورپ کا جوکر بن کر روس کی سلامتی اور ملک کو خطرہ پہچانے کا کام کر رہا ہے۔

حیرانی اس بات کی ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد، فلسطین، عراق، یمن، لبیا، افغانستان، شام اور نہ جانے کتنے ممالک میں امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے بم گرا کر وہاں کی حکومت کو ذلیل اور لاکھوں لوگوں کو ہلاک کیا۔ جس کی وجہ سے آج تک وہاں امن قائم نہیں ہوا اور لوگ پناہ گزین بن کر امریکہ اور مغربی ممالک سے اپنی جان کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ جس پر نہ تو اقوام متحدہ نے کوئی سخت قدم اٹھایا اور نہ ہی کسی مغربی ممالک نے اس کی اتنی مذمت کی جتنی آج یوکرین کی حمایت میں کی جارہی ہے۔ جبکہ آج اقوام متحدہ اور مغربی ممالک جنگ بندی کے لیے روس سے اپیل کر رہے ہیں۔ اسے اگر ہم منافقت کہیں یا اسلام کے تئیں نفرت تو شاید آپ کو اس سے اختلاف نہیں ہو گا۔

جنگ بڑی ہو یا چھوٹی، میں ہر طرح کی جنگ کا مخالف ہوں۔ کیونکہ جنگ سے کسی بات کا حل نہیں نکلتا بلکہ حملہ کرنے والے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے کچھ پل کے لیے سرخرو ہو جاتے ہیں۔ تاہم ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ کبھی کبھی جنگ کا ہونا لازمی ہوجاتا ہے۔ مثلاً جب کوئی آپ پر خوامخواہ حملہ کرے اور اپنے دفاع کے لیے آپ کے پاس سوائے جنگ کے اور کوئی راستہ نہیں بچتا ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ دونوں ہی حالت میں جنگ سے اب تک نقصان ہی اٹھانے پڑے ہیں۔

اگر ہم پچھلی دو جنگِ عظیم کا جائزہ لیں تو ہر بار جنگ ایک ملک سے شروع ہوئی اورایک خاص قوم سے منسلک تھی۔ یعنی پہلی جنگِ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کی پیش قدمی اور دوسری جنگِ عظیم میں یہودیوں کا قتل و عام اہم وجہ تھیں۔ اور اس بار بھی بات کہیں نہ کہیں یوکرین کے یہودی صدر زیلنکسی کے ہی ارد گرد گھوم رہی ہے۔ جن کے رویے نے روسی صدر پوتن پر جنگ کا جنون سوار کر دیا ہے۔ تاہم اتنا تو طے ہے کہ جنگ سے اس مسئلے کا کوئی حل نکلنے والا نہیں ہے اور روس کے جارحانہ انداز اور امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک کے اتحاد سے فی الحال جنگ ختم ہونا شاید ناممکن لگ رہا ہے۔

تاہم چین اور بھارت نے یوکرین کی جنگ کو مذاکرات کے ذریعے ختم کرنے کے لیے روس سے مطالبہ کیا ہے۔ جو کہ شاید امریکہ اور برطانیہ کو پسند نہ آئے کیونکہ دونوں ہی ممالک کے رشتے چین سے خوشگوار نہیں ہیں۔

Leave a Reply