You are currently viewing رام کا نام بدنام نہ کرو

رام کا نام بدنام نہ کرو

برطانیہ میں بہار اور بنگال کے ہزاروں لوگ برسوں سے رہائش پزیر ہیں۔ جس کی ایک وجہ ہندوستان کا بٹوارہ تھا، جب لاکھوں بہاری اور بنگالی ہندوستان کو چھوڑکر بنگلہ دیش اور پاکستان جانے کے بعد برطانیہ آکر بس گئے۔ ان میں کچھ پروفیشنل ہیں تو بہتوں نے مختلف کارخانوں میں کام کر کے اپنی روزی روٹی کا بندوبست کیا۔ تاہم ان بنگالیوں اور بہاریوں کے دلوں میں اب بھی اپنی اپنی جائے پیدائش کی یاد اور محبت زندہ ہیں۔ لیکن وہیں کافی لوگ مجھ سے اب بھی ایسے سوالات پوچھتے ہیں جس کا میں جواب اس فخریہ انداز میں دیتا ہوں کہ انہیں بنگال اور بہار واپس جا کر اپنی جائے پیدائش کو دیکھنے اور جاننے کی تمنا جاگ اٹھتی ہے۔

مجھے برطانیہ میں کافی عرصہ رہنے کے بعد بھی ہندوستان کی عظمت اور شان پر ناز ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ کلکتہ میں پلنے اور بڑھنے کی وجہ سے مجھے کلکتہ شہر کی آن و شان پر گفتگو کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ہے ۔ بنگال اور بہار کے بارے میں اکثر میں فخریہ لوگوں سے تعریف کے پُل باندھتا ہوں اور خاص کر وہاں کے کثیر ثقافتی سماج کے بارے میں  دلیل اور جانکاری دیتا ہوں ۔ جس سے برطانیہ میں بسنے والے بہاری اور بنگالیوں کے اندر امید کی ایک کرن جاگتی ہے ۔ ان لوگوں سے جب بھی ہماری ملاقات کسی محفل میں ہوتی ہے تو وہ ہم سے بنگال اور بہار کے بارے میں مزید حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کرتے ہیں اور ہماری باتوں سے لطف و اندوز ہوتے ہیں۔ لیکن پچھلے کچھ برسوں سے ہندوستان کی پُر امن فضا میں کشیدگی کا احساس ہورہا ہے۔ خاص کر بابری مسجد کو جس طرح شہید کیا گیا اور ہندو کار سیوکوں کے جارحانہ روے سے ہندوستان کے زیادہ تر ریاستوں میں کشیدگی پائی جارہی ہے۔ ہندو دھرم کے نام نہاد ٹھیکے داروں کا دعوٰی ہے کہ وہ رام مندر وہیں بنائے گے جہاں بابری مسجد تھی۔ تاہم یہ معاملہ اب بھی کورٹ میں پڑا ہو اہے اور اس کے حل ہونے کی کوئی امید اب تک نظر نہیں آرہی ہے۔ رام مندر کی تعمیر کرنے کے آڑ میں بی جے پی ہندوؤں کے جذبات کو بھڑکا کر زیادہ تر ریاستوں میں اپنی حکومت بنا چکی ہے۔ 2014کے عام چناؤ میں بی جے پی کو بھاری اکثریت سے کامیابی ملی تھی اور پورے ملک میں ’ہندو راشٹر‘ بنانے کی مہم تیز کر دی گئی۔

تاہم ’ہندوراشٹر ‘ بنانے کا خواب بی جے پی کے سیاستداں برسوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن انہیں اس سلسلے میں کافی دشواریوں کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ ہندوستان مختلف مذاہب، ثقافت، زبان اور ماحول کا ملک ہے۔ رام کے اس دیش کو رحیم، بدھ ، جین ، گرونانک، اور کئی ایسے سادھو، سنت ، پیر اور پیغمبروں نے اپنایا ہے جس کی مثال دنیا کے کسی اور حصّے میں نہیں پائی جاتی ہے۔ ہندوستان کے تمام مذاہب کے لوگ برسوں سے آپس میں بھائی چارگی اور امن و سکون سے جی رہے ہیں۔ لیکن پچھلے کچھ برسوں سے آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے لیڈروں نے ہر سال رام نوی کے تہوار کے موقعے پر اپنے ناپاک ارادے اور سماج دشمن کی حوصلہ افزائی کر کے ایک خاص فرقے کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ تاہم حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہر سال یہ لوگ اپنے ناپاک ارادوں میں جلسہ و جلوس کے ذریعے ہنگامہ کرتے ہیں اور کسی معصوم کی جان لے کر اس کا جشن مناتے ہیں۔ ایسا ہی واقعات بنگال اور بہار کے کئی شہروں میں اس سال دیکھنے میں آئے۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کے اندر خوف و ہراس کے علاوہ غم و غصّہ بھی پایا جا رہا ہے۔

آسنسول میں’ رام نومی‘ کا جلوس جب مسلم محلّے سے گزر رہاتھا تو مقامی مسجد کے امام صاحب کے بیٹے صبغت اللہ جو اسکول کا طالب علم تھا اوروہ بھی اوروں کی طرح مسجد سے باہر آکر دیکھنے لگا کہ یہ کون لوگ ہیں جو رام کا نام لے کر اشتعال انگیزی کر رہے تھے۔ صبغت اللہ اوروں کی طرح کھڑا بھیڑ کو دیکھ رہا تھا جو اپنے ہاتھوں میں ہتھیار لئے ہوئے تھے اور ایک خاص فرقے کو کوس بھی رہے تھے۔ صبغت اللہ اپنے پیارے وطن کی پاک دھرتی پر کھڑا رام کے نام کو بدنام ہوتے ہوئے شاید اپنی بے بسی پر افسوس کر رہا تھا کہ اچانک بھیڑ نے صبغت اللہ کو کھینچ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ صبغت اللہ کا بھائی اس منظر کو دیکھ کر سہم گیا اور اس نے پولیس کو اطلاع دی۔  رام کا نام لینے والے ظالم علاقے سے جاچکے تھے لیکن جاتے جاتے وہ صبغت اللہ کو بھی لے کر چلے گئے۔ خدا جانتا تھا کہ ان ظالموں کو آخر معصوم صبغت اللہ سے کیا دشمنی تھی۔ لیکن ایک بات تو سچ تھی کہ صبغت اللہ ایک مسلمان لڑکا تھا۔ دوسرے روز صبغت اللہ کا زخموں سے بھرا مردہ جسم پایا گیا۔ ظا لموں نے صبغت اللہ پر ایسی بے رحمی سے حملہ کیا تھا کہ اس کا بیان میں نہیں کر سکتا۔ میری طرح لاکھوں لوگوں کی آنکھوں میں آنسو کے ساتھ غصّہ امڈ آیا تھا۔ صبغت اللہ کے باپ جو امام بھی ہیں انہوں نے جنازے سے قبل لوگوں سے پُر امن رہنے کی اپیل کی اور مسلمان اپنا سر جھکا کر ان کی باتوں کو مان لیا۔

وہ مسلمان جو سیاسی پارٹیوں سے منسلک ہیں وہ شاید اس موقعے کا فائدہ اٹھا کر امن کے پیغامات کو لوگوں میں پھیلانے لگے۔ جس سے ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ مسلمان ان تمام باتوں کو برداشت کرتے ہوئے اللہ سے اس نا انصافی اور ظلم کے خلاف دعا ما نگنے لگا۔ لیکن شاید مسلمان وقتی طور پر اس صدمے کو برداشت کر لے لیکن اگر مزید صبغت اللہ مارا گیا تو شاید مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ چھلک سکتا ہے اور حالات سنگین ہو سکتے ہیں۔ تاہم اب تک پورے ملک میں مسلمانوں نے صبر کا بہترین نمونہ پیش کیا ہے جس کی ہم سراہنا کرتے ہیں اور یہ ایک قابلِ ستائش بات ہے۔ سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ ہر سال رام نومی کے موقعے پر کیوں بجرنگ دل ایسا تماشہ کرتی ہے اور خاص کر مسلمانوں کے خلاف جلوس میں شامل لوگ اشتعال انگیزی کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس موقعے پر پولیس اور حکّام ہمیشہ ناکارہ ثابت ہوتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ہر سال اس خوشی کے موقعے پر کہیں نہ کہیں فساد برپا ہو جاتا ہے۔ جس کا فائدہ سیاسی پاٹیوں کے علاوہ ان بدنام لیڈروں کو ہوتا ہے جو ملک میں امن و امان کے دشمن ہوتے ہیں۔

برطانیہ کے بنگال اور بہار سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں ایسی خبروں سے مایوسی اور بے چینی پائی جارہی ہے۔ بہت سارے ہندوستانی ٹیلی ویژن کی خبروں کو دیکھ کر لوگوں میں یہ بحث چھِڑ گئی ہے کہ آخر یہ کون سا ہندوستان بنایا جارہا ہے جہاں رام کا نام بدنام کیا جارہا ہے۔ تو وہیں صبغت اللہ کی موت پر بھی افسوس ظاہر کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی ایسے کئی پوسٹ دکھائے جا رہے ہیں جس میں بجرنگ دل اور آرا یس ایس کے رضا کاروں کو یہ کہتے ہوئے پایا جارہا ہے کہ وہ مسلمانوں کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں ۔ میں نے اپنے آپ کوکبھی اتنا بے بس اور مجبور نہیں پایا تھا جتنا ہندوستان کے ان واقعات سے پارہاہوں۔ شاید اب اگر میں برطانیہ کی محفلوں میں جاؤں تو میرا سر ان بہاری اور بنگالیوں کے سامنے جھکا رہے گا کیونکہ میرے ہندوستان میں ’رام ‘کو بدنام کیا جارہا ہے۔

میں حکومت سے گزارش کرتا ہوں کہ ایسے سماج دشمن عناصر کو فوراً گرفتار کیا جائے جو مذہب کی آڑ میں ڈراور خوف کا ماحول پیدا  کر رہے ہیں اور ’رام‘ کے نام کو بدنام کر رہے ہیں ، جس سے ہندوستان کے خوبصورت ماتھے پر کالک لگ رہاہے۔ میں حکومت سے یہ بھی اپیل کرتا ہوں کہ ان تمام جلسہ اور جلوسوں پر پابندی لگا دی جائے جس میں لوگ ہتھیار لے کر اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلم علاقوں میں پولیس کو پہلے سے تعینات کیا جائے تاکہ مسلمان اپنے آپ کو محفوظ محسوس کریں۔

Leave a Reply