You are currently viewing ذیابیطس کا عالمی دن

ذیابیطس کا عالمی دن

ذیا بیطس کا عالمی دن ورلڈ ڈائیبیٹک ڈے 1991میں انٹرنیشنل ڈائیبٹس فیڈریشن اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے ذیابیطس کی وجہ سے صحت کے بڑھتے ہوئے خطرے کے بارے میں بڑھتے ہوئے خدشات کے جواب میں بنایا گیا تھا۔ذیابیطس کا عالمی دن اقوام متحدہ کی قرار داد 61/225کی منظوری کے ساتھ 2006میں اقوام متحدہ کا سرکاری دن بن گیا۔

 یہ ہر سال 14 نومبر کو سر فریڈرک بینٹنگ کی سالگرہ کے دن منایا جاتا ہے۔ جنہوں نے 1922میں چارلس بیسٹ کے ساتھ مل کر انسولین دریافت کی تھی۔دنیا کی سب سے بڑی ذیا بیطس بیداری ورلڈ ڈائیبیٹک ڈے مہم ہے جو 160سے زیادہ ممالک میں ایک ارب سے زیادہ لوگوں تک پہنچتی ہے۔یہ مہم ذیابیطس کی دنیا کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل مسائل کی طرف توجہ مبذول کراتی ہے اور ذیابیطس کو عوام اور سیاسی رہنماؤں میں معلومات فراہم کرتی ہے تاکہ عام لوگوں کو ذیابیطیس سے کیسے محفوظ رکھا جائے۔

ذیابیطس کے عالمی دن کی مہم کامقصد یہ ہے کہ پورے سال آئی ڈی ایف کی کوششوں کو فروغ دینے کے لیے پلیٹ فارم قائم کئے جائیں۔عالمی طور پر ذیا بیطس کا مقابلہ کرنے کے لیے مربوط اقدامات کرنے کی اہمیت کو گروغ دینے کے لیے ایک اہم عالمی صحت کے مسئلے کے طور پر اس مہم کی نمائندگی نیلے رنگ کے دائرے والے لوگوں سے کی گئی ہے جسے 2007میں ذیا بیطس سے متعلق اقوام متحدہ کی قرار داد کی منظوری کے بعد اپنایا گیا تھا۔ نیلے رنگ کا دائرہ ذیابیطس سے آگاہی کی عالمی علامت ہے۔ یہ ذیابیطس کی وبا کے جواب میں ذیابیطس کی عالمی بتادتی کے اتحاد کی نشاندہی کرتا ہے۔ہر سال ذیابیطس کے عالمی دن کی میم ایک مخصوص تھیم پر مرکوز ہوتی ہے جو ایک یا کئی سال تک چلتی ہے۔ ذیابیطس کے عالمی دن 2021-23کی تھیم ذیابیطس کی دیکھ بھال تک رسائی ہے۔

عالمی سطح پر ایک اندازے کے مطابق 2014میں 422لاکھ بالغ افراد ذیابیطس کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔ جبکہ 1980میں یہ تعداد 108لاکھ تھی۔ ذیابیطس کا عالمی پھیلاؤ 1980سے تقریباً دوگنا ہوچکا ہے۔ جو بالغ آبادی میں 4.7فی صد سے بڑھ کر 8.5فیصد ہوگیا ہے۔ یہ متعلقہ خطرے والے عوامل میں اضافے کی عکاسی کرتا ہے، جیسے زیادہ وزن اور موٹاپے کا ہونا۔پچھلی دہائی کے دوران ذیابیطس کا پھیلاؤ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں زیادہ آمدنی والے ممالک کی نسبت تیزی سے بڑھ گیا ہے۔

 آئی ڈی ایف کے ایک سروے سے یہ پتہ چلا ہے کہ ایشیا ذیابیطس کی مہاماری کی لپیٹ میں ہے۔ یہ بیماری خاص کر غریبوں پر ایک آفت ہے اور انسانی اور مالیاتی حساب سے یہ لوگوں پر ایک بہت بڑا بوجھ بنا ہوا ہے۔اکثر یہ مانا جاتا تھا کہ یہ بیماری امیر لوگوں میں ہی ہوتی ہے کیونکہ ان کو طرح طرح کے کھانے دستیاب ہیں لیکن ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ اب ہر طرح کے کھانے بازار میں دستیاب ہیں جس سے یہ بیماری اب عام لوگوں میں بھی ہوتی جارہی ہے۔

ذیابیطس کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم ٹائپ 1 اور دوسری قسم ٹائپ 2 ہے۔ ٹائپ1 کے جو لوگ شکار ہیں وہ انسولین پیدا نہیں کر پاتے ہیں۔ اس بارے میں اب تک یہ بات نہیں معلوم کی جاسکی ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے لیکن اس کی دوسری وجہ زیادہ وزن بھی ہونا ضروری نہیں ہے۔ عام طور پر اس کے شکار بچے اور نوجوان ہوتے ہیں۔ یہ اچانک شروع ہوتا ہے اور اس سے مریض کی حالات تیزی سے بگڑنے لگتی ہے۔ اس کا علاج  انسولین کے روزانہ خوراک لینے سے،ایک صحت بخش غذا اور باقاعدگی سے جسمانی سرگرمی رکھنے سے یہ کنٹرول رہتا ہے اور مریضوں کو اس بیماری سے محفوظ بھی رکھا جا سکتا ہے۔ ٹائپ 2 کے جو لوگ شکار ہیں وہ اپنے جسم کے اندرکا فی انسولین پیدا نہیں کر پاتے ہیں یا جو انسولین پیدا کرتے ہیں وہ مناسب طریقے سے جسم میں کام نہیں کر پاتا ہے۔ اسے انسولین سے مزاحمت بھی کہتے ہیں۔ایسے ذیا بیطس کے شکار لوگ یا تو خاندانی بیماری،عمر اور نسلی پسِ منظر کی وجہ سے اس کے شکار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ جو ٹائپ 2  ذیابیطس کے شکار ہوتے ہیں ان میں وزن کا بڑھنا بھی ایک وجہ بتائی جاتی ہے۔ٹائپ 2  ذیابیطس کے بڑھنے کی وجہ یہ بھی مانا جا رہی ہے کہ روز مرہ کی زندگی میں تبدیلی، شہری زندگی میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کا ہجرت کرنا اور سستی کیلوریز کی عمل در آمد غذائیں کی دستیابی ہیں جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کی زندگی میں ٹائپ 2  ذیابیطس کے بڑھاوا دینے میں اہم وجوہات ہیں۔  ٹائپ 2  ذیابیطس کا علاج صحت بخش غذا اور جسمانی سرگرمی ہے جو اس میں مفید ثابت ہوتا ہے اور اسے کنٹرول رکھتا ہے۔

ذیابیطس اندھے پن، گردے کی خرابی، ہارٹ اٹیک، فالج اور اعضاء کے نچلے حصے کے کٹ جانے کی ایک بڑی وجہ ہے۔صحت مند غذا، جسمانی سرگرمی اور تمباکو کے استعمال سے پرہیز ٹائپ 2ذیا بیطس کو روک سکتا ہے یا اس میں تاخیر کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ذیابیطس کا علاج کیا جاسکتا ہے اور اس کے نتائج کو ادویات، باقاعدگی سے اسکریننگ اور پیچیدگیوں کے علاج سے گریز یا تاخیر سے بچا جا سکتا ہے۔عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ یہ  عمر رسیدہ لوگوں کی بیماری ہے لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اب یہ بیماری نوجوانوں اور ادھیڑ عمر کے لوگوں میں بھی کافی پائی جارہی ہے اور یہ بیماری آگے چل کر کافی خطرناک صورت اختیار کر لیتی ہے جس سے جان کو خطرہ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ یوں تویہ بیماری زیادہ تر وزنی لوگوں میں عام پائی جاتی ہے لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اب کم وزن اوردبلے پتلے لوگ بھی اس بیماری کے شکار ہورہے ہیں۔

برطانیہ میں ذیابیطس کے شکار لوگوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ جن میں ایشیائی نسل کے لوگوں کی تعداد بھی کافی ہے۔ مانا جا تاہے کہ یہ لو گ یا تو خاندانی بیماری کی وجہ سے اس بیماری کی لپیٹ میں آگئے ہیں یا ان کے طرزِ زندگی کو بھی ایک وجہ مانا جا رہا ہے۔ تقریباٌیہاں کے تمام ہسپتال میں ذیابیطس کے علا ج اور جانچ کے لئے ایک خاص حصہّ بنا ہوا ہے جہاں مریضوں کو  باقاعدہ نئے آلات سے ان کی جانچ کی جاتی ہے اور ڈسٹرکٹ نرس گھروں پر جا کر ان کو دوائیاں اور دیگر سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی سرجری میں ڈاکٹر بھی دستیاب ہوتے ہیں جو ذیابیطس کے مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے مشورہ دیتے ہیں او ر وہ ان مریضوں کا باقاعدگی سے جانچ کرتے رہتے ہیں۔

 ذیابیطس کی دیکھ بھال تک رسائی ذیابیطس کے عالمی دن 2021-23کا تھیم ہے۔اگرچہ انسولین کو ایجاد ہوئے تقریباً 100سال گزرچکے ہیں، لیکن اس کی دستیابی اب بھی ایک مسئلہ ہے۔ دنیا بھر میں ذیابیطس کے کئی کروڑ افراد ذیابیطس کی دیکھ بھال تک رسائی سے محروم ہیں۔ اپنی بیماری پر قابو پانے اور پیچیدگیوں کو روکنے کے لیے ذیابیطس والے لوگوں کو مسلسل دیکھ بھال اور مد د کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے لئے ہم سب کو چھوٹے بڑے پیمانے پر اپنی کوشش کوجاری رکھنا چاہیے اور ذیابیطس کی معلومات کو ہر عام و خاص میں پہچانی چاہئیں تاکہ ذیابیطس سے متاثر لوگ صحت مند زندگی گزارے اور ان کا اعتماد بحال ہو۔

Leave a Reply