You are currently viewing دو احمقوں کا زمیں پر ہے ملن۔۔۔

دو احمقوں کا زمیں پر ہے ملن۔۔۔

جب سے امریکی صدر ٹرمپ کے ہندوستانی دورے کا اعلان ہوا تھا تب سے پوری دنیا کی نظر اس دورے پر لگی ہوئی تھی۔ ظاہر سی بات ہے امریکی صدر کا دنیا کے کسی بھی ملک کا دورہ کرنا کئی معنوں میں اہم سمجھا جاتا ہے اور اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دورے پر نکلے تو دورہ متنازعہ بن ہی جاتا ہے۔

 کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ منہ پھٹ، احمقانہ گفتگو اور متنازعہ پالیسی کے باعث دنیا بھر میں مانے اور جانے جاتے ہیں۔ سونے پر سہاگا توتب ہوا جب ان کے استقبال کے لیے ان کے بندھو یعنی ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایسی ایسی بات کہہ دی جس سے ہر ذی شعور انسان کے کان کھڑے ہوگئے۔ گویا ایسا معلوم ہورہا تھاکہ پہلی بار کوئی امریکی صدر ہندوستان کا دورہ کر رہا ہو اورنریندرمودی ایک محبوبہ کی طرح بیقرار ہیں۔دنیا کے زیادہ تر ممالک میں امریکی صدرکا دورہ  اہم مانا جاتا ہے۔ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کا لندن کا دورہ کبھی کامیاب نہیں رہا ہے۔ عام لوگوں سے لے کر لندن کے مئیر صادق خان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو نہ تو عزت بخشی اور نہ ہی لندن آنے پر انہیں مبارک باد دی۔ جس کے جواب میں ٹرمپ نے لندن کے مئیر صادق خان کو ہمیشہ اپنے ٹوئیٹ کے ذریعہ نشانہ بنایا۔

بھارت  میں امریکی صدر کے دورے سے قبل ہر چیز کسی ڈرامے کی طرح سجائی گئی۔ ائیر پورٹ سے نئے اسٹیڈیم تک جانے والی سڑکوں کے کنارے اونچی اونچی دیواریں بنوا دی گئی۔ ان دیواروں پر امریکی صدر کا مضحکہ خیز شکلوں کے ساتھ ہندوستانی وزیر اعظم کی دانت نکلی ہوئی تصاویر  لگائی گئیں۔ جسے شاید ٹرمپ بھی دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہوں گے۔ دورے سے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہیں اطلاع دی گئی ہے کہ ان کے استقبال کے لیے 70لاکھ لوگ راستوں کے دونوں جانب کھڑے ہوں گے۔جب کہ احمدآباد کی کل آبادی 50لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ویسے تو امریکی صدر ٹوئیٹ کرنے میں ماہر ہیں لیکن وہ تو ہندوستانی دورے سے اتنے پر جوش تھے کہ انہوں نے اس بات کو ٹوئیٹ کی بجائے ٹی وی کیمرے پر ہی کہہ دیا۔بس صاحب ایسا لگ رہا تھا کہ امریکی صدر ہندوستان کا دورہ نہیں بلکہ مودی کی بنائی ہوئی چائے پینے کے زیادہ متمنی ہیں۔

ان سب باتوں کے علاوہ امریکی صدر کے دورے کے مد نظر تاج محل کے آس پاس کے علاقوں کو صاف سھترا کیا گیا۔ یمنا ندی کی خشک حالی کو دیکھتے ہوئے اسے گنگا سے پانی لا کر بھرا گیا۔ خدا کا شکر ہے احمد آباد کی نئی دیوار کی طرح تاج محل پر رنگ و روغن نہیں چڑھایا گیا۔ کیونکہ یہ دو سر پھرے جس طرح کی باتیں کرتے رہتے ہیں اس سے اس سے ان کی خواہشات کچھ بھی اوٹ پٹانگ کراسکتی ہے۔تاہم مغل بادشاہ شاہ جہاں کی روح امریکی صدر ٹرمپ کی شرکت سے ضرور تڑپی ہوگی۔اور کیوں نہ تڑپے، ایک شہنشاہ جس کا تاج محل دنیا کو محبتوں کا پیغام دیتا ہے تو وہیں دنیا کے دو بڑے لیڈر ٹرمپ اور مودی دنیا بھر میں نفرت پھیلانے میں بدنام ہیں۔

ویسے ڈونلڈ ٹرمپ پہلے امریکی صدر نہیں جو ہندوستان کا دورہ کر رہے۔ اس سے قبل کئی امریکی صدور نے ہندوستان کا دورہ کیا ہے۔ دسمبر

1959 میں  آئیزن ہاور پہلے امریکی صدر ہیں جنہوں نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔  ان کے استقبال کے لیے 21 گن کے سیلوٹ دیے گئے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے ہیرو  آئزن ہاور ایک کھلی گاڑی میں سوار ہو کر ائیر پورٹ سے چلے تھے اور سڑک کے دونوں کنارے لوگوں کا ہجوم ان کو دیکھنے کے لیے امڈ پڑا تھا۔اُن دنوں امریکہ پاکستان کا ایک بڑا اتحادی تھا۔ جب کہ آج امریکہ چاہتا ہے کہ ہندوستان کو وہی مقام حاصل ہے۔  مجموعی طور پر  آئزن ہاور کا چار دن کا دورہ کافی کامیاب رہا تھا۔اس دورے میں امریکی صدر نے باپو مہاتما گاندھی کی سمادھی پر پھول چڑھائے، تاج محل دیکھا، پارلیمنٹ میں تقریر کی اور دلی کے رام لیلا میدان میں دس لاکھ کے مجمع سے خطاب کیا۔اس دورے کے خاتمے پر ہندوستانی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ ’امریکی صدر ہمارا دل لے کر چلے گئے‘۔

اگست 1969 میں ایک دن کے دورے پر امریکی صدر رچرڈ نِکسن ہندوستان گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ رچرڈ نِکسن ہندوستانی لوگوں کو پسند نہیں کرتے تھے اور ہندوستانی وزیر اعظم اندار گاندھی سے بھی ان کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ اُن دنوں امریکہ اور روس میں سرد جنگ عروج پرتھی اور پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا۔ اس کے علاوہ ہندوستان، روس کی خارجہ پالیسی کا حمایتی تھا۔رہی سہی کسر 1971کی ہندوستان اور پاکستان کی جنگ نے پوری کر دی۔جس سے امریکہ ہندوستان سے کافی پریشان اور ناراض تھا۔

1978میں امریکی صدر جمی کارٹر نے ہندوستان کا دورہ کیا جب ہندوستان کے وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی تھے۔ اس دورے کی خاص بات یہ تھی کہ جمی کارٹر دلی کے قریب ایک چھوما کھیراگاؤں بھی گئے۔ کیونکہ 1960 میں جمی کارٹر کی ماں نے ’پیس کورپ‘ کی ممبر کی حیثیت سے اس گاؤں کا دورہ کیا تھا۔ امریکی صدر جمی کارٹر نے اس گاؤں کو تحفے کے طور پر پہلا ٹیلی ویژن اور پیسے دیے تھے۔جس کی وجہ سے اس گاؤں کا نام بدل کر ’کارٹر پوری‘ رکھ دیا گیا۔ مارچ 2000میں امریکی صدر بِل کلنٹن نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت ہندوستان کے وزیر اعظم اٹل بہاری باجپائی تھے۔ بِل کلنٹن کا دورہ اس لیے اہم تھا کہ دو دہائی کے بعد کسی ا مریکی صدر کا دورہِ ہندوستان ہو رہا تھا۔ کیونکہ اس سے قبل امریکی صدر رونالڈ ریگن اور جارج بُش سینئر نے ہندوستان کا دورہ نہیں کیا تھا۔ بِل کلنٹن کا دورہ کئی معنوں میں اہم تھا کیونکہ 1999میں نیوکلیر بم ٹیسٹ کرنے کی وجہ سے امریکہ نے ہندوستان پر معاشی پابندی عائد کر دی تھی۔

مارچ 2006میں امریکی صدر جارج ڈبلو بُش نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ جسے امریکی صدر کا اب تک کا بہترین دورہ مانا جاتا ہے۔ اس دورے کے دوران امریکہ اور ہندوستان کے مابین کئی تجارتی معاہدوں پر دستخط ہوئے تھے۔کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے ہندوستانی وزیر اعظم منموہن سنگھ اور جارج ڈبلو بُش میں ایک مضبوط رشتہ قائم ہو گیا تھا۔ جارج ڈبلو بُش جو کہ ایک آرٹسٹ بھی ہیں انہوں نے منموہن سنگھ کی ایک تصویر بھی پینٹ کی تھی۔تاہم جارج ڈبلو بُش کو مظاہروں کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔

امریکی صدر کے دورہ میں بارک اوباما ہی واحد ایسے امریکی صدر تھے جنہوں نے دو بار ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ بارک اوباما کا پہلا دورہ

2010میں ہوا تھا جب ہندوستان کے وزیر اعظم منموہن سنگھ تھے۔ اس کے بعد بارک اوباما نے 2015میں دوبارہ ہندوستان کا دورہ کیا تھا جب ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی تھے۔بارک اوباما اپنے پہلے دورے میں ایک بڑے تجارتی وفد کے ساتھ دلی کی بجائے ممبئی گئے تھے۔بارک اوباما کا یہ دورہ اُن معنوں میں بھی اہم تھا کہ 2008 کے ممبئی دہشت گردی کے خلاف امریکہ کو ہندوستان کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف یکجہتی دِکھانا تھا۔ اس موقعہ پر امریکی صدر بارک اوباما نے اسی تاج محل ہوٹل میں قیام کیا جسے دہشت گردوں نے نشانہ بنایا تھا۔اس کے بعد 2015 میں امریکی صدر بارک اوباما ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی دعوت پر دوبارہ ہندوستان پہنچے اور بطور مہان خصوصی یومِ جمہوریہ کی پریڈ میں شرکت کی۔

24فروری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ طے شدہ پروگرام کے مطابق ہندوستان کے احمد آباد شہر پہنچے۔ ہوائی جہاز سے اترتے ہی مودی نے ٹرمپ کو یوں گلے لگایا کہ جیسے ہندوستانی فلم دل والے دلہنیا میں شاہ رخ خان نے کاجل کو گلے لگایا تھا۔ احمد آباد کے اسٹیڈیم میں دونوں لیڈروں نے اپنے اپنے طور پر اپنا پیغام سنایا۔ اس کے بعدٹرمپ نے سابرمتی آشرم کا دورہ کیا اور مہاتما گاندھی (باپو) کے چرخہ کا معائنہ کیا۔ تصویروں سے ایسا لگ رہا تھا کہ مودی وزیر اعظم نہیں بلکہ ٹرمپ کے ایک ٹوؤر گائڈ ہیں۔اس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ معروف تاج محل دیکھنے کو پہنچے جسے دیکھ کر یقیناً ٹرمپ کو اپنی زندگی میں دولت اور سچی محبت کی کمی کا احساس ہواہوگا۔بعد میں ٹرمپ نے صدر ہند کی جانب سے ڈنر کا مزہ لیا اور اسلحہ کی فروخت کے معاہدے بھی کئے۔

خیر اس طرح امریکی صدر ٹرمپ کے دورے کا ڈرامہ خاتمہ ہوا۔دنیا کے سب سے قدیم جمہوری ملک امریکہ کے صدر نے ہندوستان کے  شہریت متنازع ترمیم قانون اور کشمیر جیسے مسئلے پر کوئی خاص بیان نہ دے کر دنیا کے جمہوری نظام کا مذاق اڑیایا جو کہ ایک تشویش ناک بات ہے۔ ہندوستانی وزیراعظم نے لاکھوں روپے امریکی صدر ٹرمپ کے دورے کے دوران پانی کی طرح بہا دیے جو کہ ایک شرمناک بات ہے۔ مجھے امریکی صدر کے دورے پر کوئی اعتراض نہیں ہے بس دُکھ اس بات کا ہے کہ جو کام سادگی سے ہوسکتا تھا اس کے لیے اتنا ہنگامہ اور جھوٹی شان دِکھانے کی کیا ضرورت تھی۔

Leave a Reply