You are currently viewing جے شری رام‘ تو مسئلہ کیا ہے؟

جے شری رام‘ تو مسئلہ کیا ہے؟

ایک بار پھر “جے شری رام “کے نام پر بلوائیوں نے دنگا کرانے کا اردہ کیا۔لیکن حیرانی تو اس بات کی ہوئی کہ یہ واقعہ ہندوستان میں نہیں بلکہ ہندوستان سے ہزاروں میل دور انگلینڈ کے معروف شہر لیسٹر میں واقع ہوا۔جہاں کچھ نوجوانوں نے اپنے سر اور چہرے کو ڈھانکے راستے میں جے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے گزر رہے تھے۔

لیکن وہ محض نعرہ اس لئے نہیں لگا رہے تھے کہ ان کا یہ تہوار یا کسی تقریب کا معاملہ تھا بلکہ یہ نوجوان نعرہ پاس ہی کھڑے مسلمانوں کو دیکھ کر لگایا جارہا تھا۔ پھر کیا تھا مسلمانوں نے بھی” نعرہ تکبیر اللہ اکبر” شروع کر دیا۔مجھے ان نعروں سے کو ئی لینا دینا نہیں، لیکن جب کسی ایک فرقے کی عبادت گاہ کے قریب پہنچ کر “جے شری رام” کا نعرہ اس طرح لگایا جائے کہ جس سے مسلمان کے جذبات مجروح ہوں تو مجھے نعرے لگانے والوں کی نیت پر شک گزرتا ہے۔جیسا کہ حال کی دنوں میں عام طور پر دیکھا جارہا ہے۔

 لیسٹر میں بے مثال تشدد  کی وجہ کیا تھی، جہاں ہندو اور مسلمان کئی دہائیوں سے امن سے رہ رہے ہیں۔کہا جارہا ہے دراصل اس کی شروعات ہندوستان اور پاکستان کے مابین ایشیا کپ کرکٹ سے شروع ہوئی۔ لیکن دھیرے دھیرے مزید تفتیش سے یہ پتہ چل رہا ہے کہ اس تناؤ کا تعلق صرف کرکٹ میچ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے کچھ شر پسند عناصر اور تنظیموں کا ہاتھ ہے جو نوجوانوں میں مذہب کی آڑ میں نفرت پھیلا رہے ہیں۔یوں تو ہم سب جانتے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہمیشہ سے ہی تناؤ رہا ہے۔ لیکن اب یہ معاملہ کچھ زیادہ ہی سنگین  ہوچکا ہے۔ حالانکہ ہندوستان اور پاکستان آپس میں نہ کوئی کرکٹ ٹیسٹ یا محدود اوور میچ کھیلتے ہیں اور نہ ہی اس مسئلے پر وہ کوئی بات  کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ دونوں ہی ممالک کے حکمران ہیں جو ہندوستان اور پاکستا ن کے مسئلے پر اپنی سیاست کی دکان  چمکا رہے ہیں۔ ورنہ کھیل میں سیاست کا کیا دخل ہے بلکہ میں تو کہتا ہوں اب مذہب کو بھی سیاست سے دور رکھنا چاہئے۔

28 اگست کو دبئی میں ایشیا کپ کے ایک میچ میں بھارت کی جانب سے حریف پاکستان کو شکست دینے کے بعد ہندو اور مسلم کمیونٹی کے کچھ نوجوان کے درمیان لیسٹر کی سڑکوں پر تشدد جھڑپیں ہوئیں۔اس دوران نوجوانون نے “جے شری رام ” کے نعرے لگاتے ہوئے بھی دیکھے گئے اوردیکھتے ہی دیکھتے اس وقعہ کی ویڈیو پوری دنیا میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ہم نے بھی اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر دیکھا اور مایوس ہو کر اس بات کا افسوس کرنے لگا کہ کیوں رام کے پوتر نام کو لے کر ایک فرقے کو ورغلایا جارہا ہے۔

واقعہ یوں ہے کہ میچ کے بعد لیسٹر کے میلٹن روڈ پر ایک برا ہجوم نکلا، جن میں سے کچھ نے ہندوستانی جھنڈے لہرائے، اپنے حریف پاکستان پر ہندوستان کی جیت کا جشن منانے کے لیے نکلے۔ سوشل میڈیا پر شئیر کی گئی ویڈیوز کے مطابق بھیڑ میں سے کچھ لوگ “پاکستان مردہ باد” کے نعرے لگاتے نظر آئے۔اسی دوران دو سو  سے  زائد ہندو مردوں کے ایک ہجوم نے شہر میں مارچ کیا، جس میں کچھ” جئے شری رام “کے بھی نعرے لگا رہے تھے۔ جو کہ ہندوستان کے انتہائی دائیں بازو کے ہندوؤں کے لیے ایک جنگی نعرہ ہے۔ اس کے فوراً بعد مسلمان سڑکوں پر نکل آئے اور ہاتھا پائی شروع ہوگئی۔ ایک ویڈیو وائرل ہوا جس میں دکھایا گیا کہ ایک ہندو مندر میں  توڑ پھوڑ کی گئی اور جگہ جگہ احتجاج کیا گیا اور جس کے دوران مسلمان رہائشوں اور دکانوں کے مالکان کو ڈرایا دھمکایا گیا۔اس کے بعد مسلسل یہ خبریں آنے لگی کہ ہندو اور مسلم کشیدگی برطانیہ کے لیسٹر شہرکے علاوہ برمنگھم اور دیگر شہروں میں پھیل گئی۔

برطانیہ میں ایشیائی کمیونٹی کے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بدامنی کا تعلق ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورِ حکومت میں ہندوستان میں ہندو قوم پرستی کے عروج سے ہوسکتا ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ ہندوستان کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی  جس کے تحت اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کو 2014سے آئے دن جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ہم سب اس بات سے بھی واقف ہیں کہ ہندوستان کی آر ایس ایس (جو کہ ہندوؤں کی ایک تنظیم ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی اس کی سیاسی جماعت ہے) کس طرح سے اپنے نظریہ کو پوری دنیا میں پھیلا رہی ہے۔ میں نے توذاتی طور پر یہ بھی محسوس کیا ہے کہ پچھلے دس برسوں میں جو نوجوان ہندو، ہندوستان سے برطانیہ، امریکہ، اور کینیڈا آئی ٹی، بینکنگ سیکٹراور ہیلتھ سیکٹر میں کام کرنے کی بنا پر ہجرت کر رہے ہیں وہ کہیں نہ کہیں آر ایس ایس اور بی جے پی کے نظریے سے متاثر اور منسلک ہیں۔یہ بات میں نے ان سے مل کر اور ان کی بات چیت سے محسوس کی ہے۔یعنی کہیں ایسا تو نہیں کہ ہندوستان سے ایک سوچے سمجھے  پلان کے تحت ایسے لوگوں کو بیرون ممالک بھیجا جارہا ہے جو اپنے نظریے سے ماحول کو زہر آلود بنائیں اور پھر ہندوستان میں ٹی وی چینلوں پر ہندوؤں پر حملے ہونے کی خبر کو توڑ موڑ کر پیش کرکے ہندوؤں کی ہمدردی بٹورتے رہیں۔

ہندوستان میں ہندو اور مسلم کے درمیان تصادم عام ہے۔ جہاں دیرینہ تناؤ چل رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں مذہبی اقلیتیوں کے خلاف فرقہ وارانہ بدامنی اور نفرت انگیز جرائم میں خاص طور پر اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اقلیتوں اور انسانی حقوق کے گروپوں میں ایک خوف پیدا ہوا ہے کہ ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکمرانی میں مسئلہ مزید خراب ہوگیا ہے۔گزشتہ سال جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ نے خبردار کیا تھا کہ 2014میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اس نے” مختلف قانون سازی اور دیگر اقدامات کیے ہیں جنہوں نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کو جائز قرار دیا ہے اور پر تشدد ہندو قوم پرستی کو فعال کیا ہے”۔

فروری 2020میں دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد میں 53افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے 40مسلمان تھے۔ ایک نئے شہریت قانون کے خلاف مہینوں کے پر امن احتجاج کے بعد مظاہرین کو خدشہ تھا کہ وہ مسلمانوں کو نشانہ بنائیں گے۔ اور ہم فروری 2002میں ہندوستانی ریاست گجرات میں تین دن کے مسلم مخالف فسادات کے دوران ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے انہیں کیسے بھول جائیں۔یہ مودی کی حکومت کا جارحانہ عمل ہے کہ وہ ہندوؤں کی حمایت کریں اور ہندوستان میں مسلم مخالف تشدد کو نظر انداز کریں۔ لیکن حیرانی تو تب ہوئی جب ان تمام باتوں کے باوجود ہائی کمیشن آف انڈیا کی پریس ریلیز میں لیسٹر میں مندروں پر حملے کی مذمت کی۔ اب ہائی کمیشن کو یہ بھی یاد دلایا جائے کہ ہندوستان میں بابری مسجد کی شہیدسمیت مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر جس طرح جھنڈے لگایا جارہا اور جے شری رام کا نعرہ لگایا جارہا اس وقت تو ہائی کمیشن کوئی مذمت نہیں کرتی۔

درحقیقت  جیسا کہ ہندوستانی ہائی کمیشن کو معلوم ہوگا، جھڑپیں زیادہ تر ہندوستانی پس منظر والے لوگوں کے درمیان تھیں۔ لیسٹر کے مسلمانوں کی اکثریت ہندوستانی ہے، جن میں سے بہت سے لوگوں کا تعلق گجرات سے ہے جو یاتو ہندوستان یا افریقہ کے کسی ممالک سے آکر انگلینڈ میں بسے ہیں جس طرح سابق ہوم سیکریٹری پریتی پٹیل کے والدین کینیا سے آکر بسے تھے۔لہذٰا ہائی کمیشن کا بیان یہ بتاتا ہے کہ ہائی کمیشن ہندوستانی ہندوؤں کو تسلیم کرتا ہے لیکن ہندوستانی مسلمانوں کو” ہندوستانی کمیونٹی “کے حصے کے طور پر نہیں کرتا،جو کہ ایک لمحہ فکر ہے۔

 آج میری آنکھیں نم ہیں اور میرا ذہن منتشر ہے۔ شیطان انسان کے بھیس میں مذہب کے نام پر کھلواڑ کر رہا ہے اور ایک انسان دوسرے انسان کی جان لینے کے لئے درندہ بنا ہوا ہے۔ لیکن میں لندن میں بیٹھا بے بس اور دوسروں کی طرح تماشائی بنا سارا تماشہ دیکھ رہا ہوں۔ میرے اندر اب اتنی ہمت نہیں  ہے کہ میں دنیا بھر میں مسلمانوں پر ظلم و جبر اور بے بسی کی داستان لکھتا رہوں اور دل برداشتہ ہوتا رہوں۔ ہندوستان میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اور آئے دن مساجد کو مندر ثابت کرنے کی سیاسی چال نے خطرناک صورت اختیار کر لی ہے۔ مسلسل ایسے واقعات سے منسلک خبریں سوشل میڈیا اور نیوز ایجنسی کے ذریعے پڑھنے کو مل رہی ہے۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس پورے معاملے میں بھارت کے پرد ھا ن منتری نریندر مودی اور ان کے منتری کوئی بیان سے گریز کر تے ہیں۔ جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مودی جی کو بڑھتی ہوئی فرقہ واریت کی نہ تو پرواہ ہے اور نہ ہی فرقہ وارانہ فساد سے مرنے والوں کے تئیں کوئی ہمدردی ہے۔

مجھے اس بات کو لکھنے میں کوئی جھجھک نہیں ہے کہ موجودہ ہندوستان فرقہ پرستوں کی غلامی میں جکڑ چکا ہے اور اب اس کے ناپاک قدم ہندوستان سے باہر دیگر ممالک میں پھیلنے لگے ہیں جو کہ ایک تشویش کی بات ہے۔ ہندوستان اور دیگر ممالک میں بسے ہندوستانی آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی ناپاک ارادوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے معمولی بات پر بھی ٹکرانے لگے ہیں۔ جس سے صرف اور صرف فائدہ آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہورہاہے۔ جن کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہندو اور مسلمانوں کو لڑاؤ اور حکومت بناؤ جو کہ ایک نہایت شرمناک بات ہے۔

Leave a Reply