You are currently viewing جشن ِاردوکلکتہ

جشن ِاردوکلکتہ

بچپن سے اردو پڑھتے پڑھتے جوان ہوگیا۔ پھر یوں ہوا کہ ہم نے اردو سے عشق کیا تو لوگ طرح طرح کے ناموں سے پکارنے لگے مثلاً سفیرِ اردو، خادم اردو عاشق اردو، اردو کا شیدائی وغیرہ۔

اور کچھ لوگ تو میری اردو کی محبت سے اس قدر حاسد ہو ئے کہ آئے دن مجھ پر تہمتیں لگاتے رہتے ہیں۔ گویا کہ میری اردو سے محبت نے ان کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ لیکن میں بھی کہاں ہار ماننے والا۔ کہتے ہیں کہ جب پیار کیا تو ڈرنا کیا۔ سوموار 9جنوری کی صبح سوٹ کیس لے کر لندن کے معروف ہیتھرو ائیر پورٹ نکل پڑا۔ سردی سے لندن ٹھٹھر رہا تھا۔ ہاتھ کی انگلیاں منجمد تھیں لیکن ذہن کلکتے کے سفر کے لئے پر جوش تھا۔ اور ہوتا بھی کیوں نہیں پہلی بار کلکتہ میں جشنِ اردو منانے نکلا تھا۔

کلکتے والوں کا ایک ایسا خواب جسے ہمیں پورا کرنا تھا۔ راستے بھر ذہن میں جشن اردو کے حوالے سے طرح طرح کی باتیں آرہی تھیں کہ دنیا بھر سے مہمان آئیں گے اور خوب مل جل کر باتیں ہوں گی۔ کئی لوگوں سے پہلی بار ملاقات ہوگی تو کئی لوگوں سے عرصے کے بعد ملنے پر گلے شکوے بھی ہوں گے۔ خیر ابھی میں انہیں باتوں میں الجھا ہوا تھا کہ ہیتھرو ائیرپورٹ کا سائین نظر آنے لگا۔ یتھرو ائیرپورٹ دنیا کا ایک مصروف ترین ائیر پورٹ ہے جہاں روزانہ لاکھوں مسافر دنیا سے آتے اور جاتے ہیں۔ سامان کو گھسیٹتے ہوئے تھوڑی دیر بعد میں ہیتھرو ائیرپورٹ کے اندر داخل ہوا اور سامنے ہی امارات کی ڈیسک پر پہنچا۔ آن لائن چیک اِن کی وجہ سے تمام لوازمات فوراًہی مکمل ہوگئے اور سوٹ کیس بیلٹ پر ڈال کر سیکوریٹی کی طرف نکل پڑا۔ سیکوریٹی میں جسم کے اسکرین کے بعد ڈیوٹی فری میں کچھ سامان خریدا اور تھوڑی دیر بعد امارات کے جہاز پر سوار ہوگیا۔

دبئی ہمارا جہاز تاخیر پہنچا جس کی وجہ سے ہمیں جلدی جلدی بھاگ کر کلکتہ کی فلائٹ کو پکڑنا پڑا۔ لندن فلائٹ سے اترتے وقت ایک بنگالی خاتون نے مجھ سے کہا کہ وقت بہت کم ہے اور ہمیں فلائٹ جلدی پکڑنی ہے۔ میں ان کی بات سن کر کچھ گھبرا گیا اور ان کے ساتھ تیز قدموں سے کلکتہ فلائٹ پکڑنے کے لئے بھاگنے لگا۔ لیکن خاتون کی تیز قدمی نے مجھے اس بات کا اندازہ دلایا کہ شاید یہ میری عمر  کا تقاضہ ہے۔ پھر شاہ رخ، سلمان اور عامر خان کو دیکھ کر خوش ہوجاتا ہوں جو ہماری عمر کے ہیں اور اب بھی خوب اچھل کود کر رہے ہیں۔ میں تیز قدموں سے بھاگ ہی رہا تھا کہ اچانک ایک گاڑی رکی اور وہی بنگالی خاتون نے چلا کر کہا جلدی گاڑی پر بیٹھو۔ میں نے خاتون کا شکریہ ادا کیا اور ائیر پورٹ کی گاڑی پر بیٹھ کر کلکتہ فلائٹ کی گیٹ کی طرف چل دیے۔

 10جنوری کی صبح 7:45میں امارات کی جہاز کلکتہ کے نیتا جی سبھاش چندر بوس ائیر پورٹ پر حفاظت سے اتر گیا۔ پاسپورٹ چیکنگ کے بعد ہم نے سامان لیا اور جوں ہی باہر نکلا تو سامنے نعیم، پپو اور معروف شاعر ا ادیب اور میرے عزیز دوست پرویز اختر پھولوں کے ساتھ میرا استقبال کیا۔ ابھی ہم نے کچھ ہی بات کی تھی کہ ہمیں بتا یا گیا کہ امتیاز گورکھپوری اور شمیم صاحب راستے میں ہیں اور کچھ دیر میں پہنچنے والے ہیں۔ میں نے خود سے کہا یا اللہ اب مجھے یہ دن بھی دیکھنے ہوں گے کہ مجھے پہنچ کر استقبال کرنے والوں کا انتظار کرنا ہوگا۔ اب کیا کریں، شاید حالات نے مجھے اس طرح بنا دیا۔

کئی برس سے میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ “جشن اردو” منایا جائے۔ تاہم مالی دشواریوں اور کورونا وبا کی وجہ سے اس پروگرام کو پایہ تکمیل پہنچانے میں کافی دشوایوں کا سامناکرنا پڑا۔ لیکن کہتے ہیں کہ ہمت مرداں مدد خدا، یعنی لسی کام میں لوشش میں شرط ہے، خدا تعالیٰ ضرور مدد کرتا ہے۔ اور اس طرح پچھلے چھ مہینے کی دن رات محنت اور بنگال کے اردو دوستوں کی محبت اور تعاون نے نے جشن اردو منانے کا خواب پوارا کر دیا۔ الحمداللہ 13، 14، 15 جنوری 2023 کو آن و شان سے کلکتہ کے معروف ملی الامین کالج آڈوٹوریم میں سہ روزہ پروگرام کامیابی سے اختتام پزیر ہوا۔

اس پروگرام کو صوفی جمیل اختر لیٹریری سوسائٹی کولکتا نے گڈ ہیومن فاؤنڈیشن کے اشتراک سے منعقد کیا تھا۔ جس میں 14 واں صوفی جمیل اختر میموریل ایوارڈ، تہران یونورسیٹی کے صدر شعبہ اردو جناب محمد کیومرسی کو ان کی ادبی خدامت کے اعتراف میں دیا گیا۔ دوسرے روزاردو کانفرنس ہوئی۔ جس میں دنیا بھر کے مندوبین نے شرکت کی اور اپنی پرمغز تقاریر سے سامعین کو محظوظ کیا۔ اس روز  شامِ غزل کا اہتمام کیا گیا جس میں طارق حسین نے اپنی سحر انگیز آواز سے غزلیں گا کر سامعین کا دل جیت لیا۔ پروگرام کے آخر ی دن، دن بھر کانفرنس کا تیسرا دور چلتا رہا اور اسی روز شام مشاعرہ بھی ہوا جس کی صدارت معروف نغمہ نگار حسن کمال نے کی جبکہ مہمان خصوصی کے طور پر جناب شہپر رسول نے بھی شرکت کی

جشن ِ اردو میں جن لوگوں نے شرکت کی ان میں ایران کے صدر شعبہ اردو محمد کیومرسی، ہالینڈ سے محمد حسن، کویت سے سلطان کندری، بنگلہ دیش سے شمیم زمانوی اور شفیق النبی سمدی، کے علاوہ ممبئی سے حسن کمال، ڈاکٹر سمیع بوبوبیرے اور ریاض منصف، دلی سے شہپر رسول، احمد محفوظ، رحمان مصور، بشری خانم، جموں سے شمش کمال انجم، مہاراشٹر سے ڈاکٹر عالیہ کوثر اور خورشید اکرام سوز، رانچی سے فاطمہ حق، بنارس ہندو یونیورسیٹی سے بلوندر سنگھ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

جشنِ اردو منانا اور اسے کامیاب بنانے میں کلکتہ کے صوفی جمیل اختر لیٹریری سوسائٹی اور گڈ ہیومن فاؤنڈیشن کے نوجوان رضاکاروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کے لئے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ان نوجوانوں میں اردو زبان سے محبت اور جذبے نے مجھے کافی متاثر کیا اور میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ آنے والی نسل میں اردو زبان کی محبت اسی طرح قائم رہے اور اردو کا خوب بول بالاہو۔تاہم میں کلکتے کے محبان اردو کو کیسے بھول سکتا ہوں جنہوں نے جشن اردو میں شرکت کر کے اردو زبان کی لاج رکھی اور اس پروگرام میں شرکت کر کے کلکتہ والوں کی اردو دوستی کا پیغام پوری دنیا میں پیش کیا۔

لیکن وہیں مجھے اردو کے ان شیدائی سے بھی مایوسی ہوئی جو اردو سے محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن جشن اردو منانے پر بے جا غم و غصہ بھی اظہار کر رہے ہیں۔ جسے میں منافقت سمجھتا ہوں اور جس سے اردو زبان کو بہت بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ ہمیں ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ مٹھی بھر لوگ ذاتی مفاد کے لئے نہ صرف ہماری زبان کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ غلط فہمیوں اور فتنہ سے ہماری قوم کے جذبات کو بھی مجروح کر رہے ہیں۔

Leave a Reply